Tafseer e Namoona

Topic

											

									  3- انسانی زندگی میں نور و ظلمت کا نظام

										
																									
								

Ayat No : 37-40

: يس

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ ۳۷وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ۳۸وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ۳۹لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ۴۰

Translation

اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس میں سے ہم کھینچ کر دن کو نکال لیتے ہیں تو یہ سب اندھیرے میں چلے جاتے ہیں. اور آفتاب اپنے ایک مرکز پر دوڑ رہا ہے کہ یہ خدائے عزیز و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے. اور چاند کے لئے بھی ہم نے منزلیں معین کردی ہیں یہاں تک کہ وہ آخر میں پلٹ کر کھجور کی سوکھی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے. نہ آفتاب کے بس میں ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات کے لئے ممکن ہے کہ وہ دن سے آگے بڑھ جائے .... اور یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک اور مدار میں تیرتے رہتے ہیں.

Tafseer

									 3- انسانی زندگی میں نور و ظلمت کا نظام : 
 آیات زیر بحث میں دو ایسے موضوعات کی طرف اشارہ ہے کہ جو انسانی زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور انہیں آیات الٰہی قرار دیا گیا ہے اور وہ ہیں رات کی تاریکی اور دوسرا سورج اور ان کی روشنی۔ 
 اس سے پہلے میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ نور ، عالم مادہ کے مو جودات میں سے لطیف ترین اور پر برکت ترین موجود ہے۔ نہ صرف روشنی اور ہماری زندگی بلکہ ہر حرکت سورج کے نور کے ساتھ وابستگی رکھتی ہے۔  بارش کے قطروں کا نزول ، نباتات کی نشوونما ، غنچوں کا چٹخنا پھلوں کا پکنا ، ندی نالوں کا زمزمہ ، انسانوں کے استرخوان پر انواع و اقسام کی غذائیں ۔ یہاں کہ بڑے بڑے کارخانوں کے پہیوں کا چلنا، بجلی اور طرح طرح کی صنعتی پیدا وار سب کا تعلق توانائی ( ENERGY) کے اس عظیم منبع ــــــ یعنی سورج کی روشنی سے ہے۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ کرہ زمین کی تمام توانائیاں (سوائے اس توانائی کے جو ایٹم کے ذرے کو توڑنے سے پیدا ہوتی ہے) سورج کے نور سے مدد لیتی ہیں اور اگروہ نہ ہوتا تو ہرجگہ خاموشی ہوتی اور ہرچیز سے روح ، بے نور ، ہے  حرکت اور مردہ ہوتی۔ 
 رات کی تاریکی اگرچہ مورت اور فنا کی بو دیتی ہے لیکن نور آفتاب کی تبدیلی کے لحاظ سے اور جسم و روح کے آرام و سکون نیز سورج کی روشنی کی ایک ہی طرح کی تپش کے خطرات سے بچانے میں اس کا کردار انسانوں کے لیے حیات بخش شمار ہوتا ہے کیونکہ اگر رات اور دن باری باری نہ آ تے تو کره زمین میں حرارت اتنی بڑھ جاتی کہ تمام چیزوں کو آگ لگ جاتی ۔ جیسا کہ چاند میں طولانی راتیں اور دن ہیں (ہرایک کره زمین کے پندرہ رات دن کے برابر ہے) اگر یوں ہوتا تو دنوں میں تباہ کن گرمی ہوتی اور راتوں کو ہولناک  سردی ہوتی - 
 اس بنا پر ان دونوں (نور و ظلمت) میں سے ہرایک آیات الٰہیہ میں سے ایک عظیم آیت ہے ۔
 اس سے قطع نظر ایک بہت ہی دقیق نظام کہ جو ان دونوں پر حاکم ہے ، انسانوں کی زندگی کی منظم تاریخ کو وجود میں لانے والا ہے۔ ایسی تاریخ کہ اگروہ نہ ہوتی تو اجتماعی روابط ختم ہو کررہ جاتے اور انسان کے لیے زندگی بہت مشکل ہوجاتی ۔ اس لحاظ سے بھی یہ دونوں آیات الٰہی میں سے ہیں۔ 
 یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن ان آیات میں کہتا ہے کہ : "رات دن پر سبقت حاصل نہیں کرتی"َ۔ یہ تعبیراس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دن کو رات سے پہلے خلق کیا گیا ہے اور رات اس کے بعد میں ۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اگر کوئی شخص کره زمین کے باہر سے نگاہ کرے تو وہ ان دونوں کو دو سیاه و سفید موجودات کے مانند دیکھے گا کہ مسلسل کره زمین کے گرد گردش کررہے ہیں ، اور اس دائرے کی حرکت میں پہلے اور بعد کا تصور نہیں ہوسکتا ۔ 
 لیکن ہمیں اس حقیقت پر توجہ دینا چاہیے کہ ہماری زمین کا یہ کرہ پہلے سورج کا ہی ایک جز تھا اور اسی وقت ہرجگہ دن ہی دن تھا اور رات کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ،لیکن جونہی زمین اس سے جدا ہوئی تو اس کا مخروطی شکل کا سایہ نور آفتاب کی مخالف سمت میں پڑا تو رات پیدا ہوگئی ، وہ رات کہ جو دن کے پیچھے حرکت کر رہی ہے۔ اس پہلو پر نظر کرنے سے یہاں اس تعبیر کی دقت و گہرائی اور مطافت واضح ہوجاتی ہے۔ 
 جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، نہ صرف سورج اور چاند اس فضائے بیکراں میں تیر رہے ہیں بلکہ رات اور دن بھی اس فضا میں کرۂزمین کے گرد تیر رہے ہیں اور ان میں سے ہرایک اپنے لیے ایک مدار اور گردش کی رہگزز رکھتا ہے۔ 
 ایسی بہت سی روایات میں بھی کہ جو اہل بیت علیہم السلام سے منقول ہیں ، اس معنی کی تصریح ہوئی ہے کہ خدا نے دن کو رات سے پہلے پیدا کیا ہے۔ 
 ایک راوایت میں امام صادق سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا : 
  خلق النهار قبل الليل 
  "دن کو رات سے پہلے خلق کیا گیا ہے"۔ ؎1 
 ایک دوسری روایت میں امام علی بن موسٰی رضا سے منقول ہے : 
  النهار خلق قبل الليل 
  "دن رات سے پہلے خلق ہوا"۔ 
 پھر امام نے "الا الشمس ينبغي لھا ان تدرك القمر ولا الليل سا بق النهار" کی آیت سے اس سلسلے میں استدلال فرمایا"۔ ؎2 
 اسی مطلب کی ایک حدیث امام باقرسے بھی بصورت ذیل منقول ہے: 
  ان الله عزوجل خلق الشمس قبل القمر و خلق النور قبل الظلمة 
  "خدائے بزرگ نے سورج کو چاند سے پہلے اور نور کو ظلمت سے پہلے خلق کیا"۔ ؎3 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     مجمع البیان ، زیر جس آیت کے ذیل میں ۔ 
  ؎2    نورالثقلین ، جلد 4 ص 387 ، بحوالہ احتجاج طبرسی ۔
  ؎3    نورالثقلين ، جلد 4 ص ، 387 بحوالہ روضتہ الكاني - 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------