2- "تدرک" اور "سابق" کی تعبیر
وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ ۳۷وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ۳۸وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ۳۹لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ۴۰
اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس میں سے ہم کھینچ کر دن کو نکال لیتے ہیں تو یہ سب اندھیرے میں چلے جاتے ہیں. اور آفتاب اپنے ایک مرکز پر دوڑ رہا ہے کہ یہ خدائے عزیز و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے. اور چاند کے لئے بھی ہم نے منزلیں معین کردی ہیں یہاں تک کہ وہ آخر میں پلٹ کر کھجور کی سوکھی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے. نہ آفتاب کے بس میں ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات کے لئے ممکن ہے کہ وہ دن سے آگے بڑھ جائے .... اور یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک اور مدار میں تیرتے رہتے ہیں.
2- "تدرک" اور "سابق" کی تعبیر:
قرانی تعبیرات اس قدر بھی جچی تلی ہوتی ہیں کہ جن کی باریکیاں و شمار نہیں ہوسکتیں زیر بحث آیات میں جس وقت سورج اور چاند کی ماہانہ اور سالانہ گردش کے سلسلے میں ظاہری حرکت کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے، تو قرآن یہ کہتا ہے کہ "سورج کے لیے سزاوار نہیں ہے کہ وہ چاند تک پہنچ جائے" (کیونکہ چاند اپنے سفر کو ایک ماہ میں طے کرتا ہے اور سورج ایک سال میں تیز رفتاری کا
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "جائي على ركبته" ستاروں کا ایک مجموعہ ہے کہ جو ایک فلکی صورت تشکیل دیتا ہے، یہ اس شخص سے مشابہ ہے کہ جوگھٹنوں کے بل بیٹھا ہو اور کھڑا ہونے کے لیے تیار ہو اور یہ تعبیر اس معنی سے لی گئی ہے۔
؎2 یعنی سورج ہمارے پچیس شب و روز میں ایک مرتبہ اپنے گرد گردش کرتا ہے۔ یہ امر ماہرین نے سورج کے سطحی ٹکڑوں کے مطالعے سے اخذ کیا ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا ہے کہ یہ ٹکڑے ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں اور پچیسں دونوں کے بعد پھر مکمل طور پہ اپنی جگہ پر واپس آجاتے ہیں ۔
؎3 وائرۃ المعارف "دهخدا" مادہ خورشید ، جلد 22 -
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ فرق اس قدر ہے کہ یہ ہرگز اس کتاب میں پہنچ سکتا (لا الشمس ينبغي لها ان تدرك القمر)۔
لیکن دن رات کے با ر ے ہیں وہ آپس میں چنداں فاصلہ نہیں رکھتے اور بالکل ایک دوسرے کے پیچھے موجود ہیں ۔