Tafseer e Namoona

Topic

											

									  1- سورج کی "دورانی" اور جریانی حرکت

										
																									
								

Ayat No : 37-40

: يس

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ ۳۷وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ۳۸وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ۳۹لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ۴۰

Translation

اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس میں سے ہم کھینچ کر دن کو نکال لیتے ہیں تو یہ سب اندھیرے میں چلے جاتے ہیں. اور آفتاب اپنے ایک مرکز پر دوڑ رہا ہے کہ یہ خدائے عزیز و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے. اور چاند کے لئے بھی ہم نے منزلیں معین کردی ہیں یہاں تک کہ وہ آخر میں پلٹ کر کھجور کی سوکھی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے. نہ آفتاب کے بس میں ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات کے لئے ممکن ہے کہ وہ دن سے آگے بڑھ جائے .... اور یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک اور مدار میں تیرتے رہتے ہیں.

Tafseer

									 1- سورج کی "دورانی" اور جریانی حرکت: 
  عربی زبان میں "دوران" دائرہ کی صورت میں حرکت کو کہتے ہیں جبکہ "جریان" طولی حرکت کی طرف اشارہ ہے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ زیربحث آیات میں قرآن سورج کے لیے جریانی حرکت کا بھی قائل ہے اور دورانی حرکت کا بھی ــــ ایک جگہ کہتا ہے: .. والشمس تجری ...... اور دوسری جگہ سورج کے فلک میں تیرنے (دائرے کی صورت میں حرکت) کی بات کرتا ہے:  "كل في فلك يسبحون"۔ 
 جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، ہیت بطلیموس کا مفروضہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ محافل علمی میں تسلیم شدہ تھا اس مفروضے کے مطابق اجرام فلکی کی اپنی کوئی حرکت نہیں بلکہ وہ  افلاک کے اندر میخوں کی طرح گڑے ہوئے ہیں بلکہ افلاک پیاز کے چھلکوں کے مانند ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ بلوبریں اجسام کی صورت میں ہیں اور اجرام فلکی کی حرکت ان کے افلاک کی حرکت کے تابع ہے ، اس بنا پر اس زمانے میں نہ سورج کا تیرنا کوئی مفہوم رکھتا تھا اور نہ ہی اس کی طولی و جریانی حرکت . 
 لیکن حالیہ صدیوں کے انکشافات نے بطلیموس کے مفروضے کو ختم کردیا اور اجرام آسمانی کے بلوریاں افلاک سے آزاد قرار دے دیا۔ اس کے بعد اس نظریے نے قوت پکڑی کہ سورج نظام شمسی کے مرکز میں ثابت اور غیر متحرک ہے اور سارا نظام شمسی پروانہ دار اس کے گرد گھومتا ہے۔ 
 اس مقام پر پہنچ کر بھی زیر بحث آیات کی تعبیروں کا مفہوم واضح نہیں تھا کیونکہ یہ تو سورج کی طرف طولی اور جریانی حرکت کی نسبت د ے رہی تھیں ۔ 
 یہاں تک کہ سائنس نے اپنی پیش رفت مزید جاری رکھی اور آخر کار سورج کی چند ایک حرکات ثابت ہو گئیں :
 (1) اس کی خود اپنے گرد وضعی حرکت . 
 (2) نظام شمسی کے ساتھ آسمان کے ایک مشخص نقطے کی طرف اس کی طولی حرکت .
 (3) اس کی دورانی حرکت اس کہکشاں کے مجموعے کے ساتھ کہ جس کا یہ سورج حصہ ہے ۔
 اس طرح سے قرآن کا ایک اور علمی معجزہ ثبوت کو پہنچ گیا۔ 
 اس مسئلے کو زیادہ واضح کرنے کے لیے ہم اس بحث کا ایک حصہ یہاں پیش کرتے ہیں کہ جو ایک دائرة المعارف میں سورج کی حرکت کے بارے میں بیان ہوا ہے: 
 سورج  "ظاہری" حرکات (یومیہ حرکت اور سالانہ حرکت) اور "واقعی" حرکات کا حامل ہے، 
 سورج کره آسمانی کی یومیہ اور ظاہری حرکت میں شریک ہے ۔ ہمارے آدھے کرہ میں مشرق سے طلوع کرتا ہے ، جنوب کی طرف نصف النہار کے مقام سے گزرتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے ، نصف النہار سے اس کا عبورحقیقی ظہر کو مشخص کرتا ہے۔ 
 سورج کی ایک سالانہ "ظاہری"  حرکت زمین کے گرد بھی ہے کہ جو اس کو ہر "روز"  مغرب سے مشرق  کی طرف تقریبا ایک درجہ لے جاتی ہے۔ اس حرکت میں سورج سال میں ایک مرتبہ برجوں کے سامنے سے گزرتا ہے۔ ایسی حرکت کا مدار "دائرة البروج" میں واقع ہے ۔ یہ حرکت علم نجوم کی تاریخ میں بہت زیادہ و اہمیت رکھتی ہے "اعتدالین" و "انقلاب" اور "میل کلی" اسی کے ساتھ مربوط ہے اور شمسی سال اسی  سے وجود پاتا ہے۔ 
 ان ظاہری حرکات کے علاوہ کہکشاں کی حرکت دورانی سورج کو قریبًا گیارہ لاکھ تیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ فضا میں گردش دیتی ہے لیکن کہکشاں کے اندر بھی سورج ثابت و ساکن نہیں ہے بلکہ تقریبًا بہتر ہزار چار سو کلو میٹر کی رفتارسے صورت فلکی (جاثي على ركبتيه)۔ ؎1 کی جانب حرکت کرتا ہے۔ 
 اور یہ جو ہم فضا میں سورج کی اسی تیز حرکت سے بے خبر ہیں ، تو یہ اجرام فلکی کے دوری ہونے کی وجہ سے ہے ، کہ جو اس خاص حرکت وضعی کی تشخیص کا ماخذ بھی ہے۔  سورج کی حرکت وضعی اس کے استوار میں تقریبًا پچیس دن میں ہوتی ہے ۔ ؎2 ، ؎3-