Tafseer e Namoona

Topic

											

									  سورج اور چاند بھی آیت الٰهی هیں

										
																									
								

Ayat No : 37-40

: يس

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ ۳۷وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ۳۸وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ۳۹لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ۴۰

Translation

اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس میں سے ہم کھینچ کر دن کو نکال لیتے ہیں تو یہ سب اندھیرے میں چلے جاتے ہیں. اور آفتاب اپنے ایک مرکز پر دوڑ رہا ہے کہ یہ خدائے عزیز و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے. اور چاند کے لئے بھی ہم نے منزلیں معین کردی ہیں یہاں تک کہ وہ آخر میں پلٹ کر کھجور کی سوکھی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے. نہ آفتاب کے بس میں ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات کے لئے ممکن ہے کہ وہ دن سے آگے بڑھ جائے .... اور یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک اور مدار میں تیرتے رہتے ہیں.

Tafseer

									  تفسیر
             سورج اور چاند بھی آیت الٰهی هیں 
 زیر بحث آیات عالم ہستی پر عظمت خدا کی نشانیوں کے ایک اورحصے کو بیان کرتی ہیں گزشته آیات میں قیامت ، مردہ زمینوں کے زندہ ہو نےاور نباتات اور درختوں کی پروش کے بارے میں بات ہوئی تھی ۔ اب توحید کا ایک اور پہلو بیان کیا جارہا ہے۔ 
 پہلے فرمایا گیا ہے :"رات بھی ان کے لیے عظمت خدا کی ایک آیت اور نشانی ہے "۔ (واية الھم اليل) - 
 "جب آفتاب کی روشنی ہرجگہ پھیلی ہوتی ہے اور اس نے تاریکی کے لشکر کو پیچھے دھکیلا ہوتا ہے اس وقت ہم دن کی روشنی کو اٹھا لیتے ہیں اور ان سب کو اچانک تاریکی ڈھانپ لیتی ہے"۔( نسلخ منه النهار فاذا هم مظلموان)۔ 
 "سلخ" کی تعبیرماده " "سلخ"  (بروزن  "بلخ") سے ہے ۔ اصل میں یہ لفظ جانوروں کا چمڑا اتارنے کے معنی میں ہے ، یہ ایک لطیف تعبیر ہے، گویا دن کی روشنی سفید لباس کے مانند ہے کہ جو رات کے بدن پر پہنایا گیا ہے ۔غروب آفتاب کے وقت یہ لباس اس سے اتار ليا جاتا ہے تاکہ  اس باطن اور اندرکا حصہ شکار ہوجائے۔ 
 اس تعبیر کے بارے میں غور و خوض کرنے سے یہ نکتہ عیاں ہوجاتا ہے کہ کره زمین کی انسان اصل فطرت تاریکی اور ظلمت ہے۔ نوراور روشنی اس ایک عارضی صفت ہے کہ جو ایک دوسرے منبع سے اسے دی جاتی ہے اس لباس کی طرح کہ جو کسی کے بدن پر پہناتے ہیں کہ جس وقت وہ اس لباس کو اتاردے تو بدن کا فطری اور اصلی رنگ ظاہرہوجاتا ہے ۔ 
 یہاں قرآن مجید نے رات کی تاریکی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ گویا گزشتہ آیات میں آیت الہی کے طور 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎   "راغب مفردات میں کہتا ہے کہ "سلخ" کا معنی جانور کی کھال اتارنا ہے اور بدن سے زره اتارنے اور مہینے کے اختتام کے لیے بھی بولاجاتا ہے لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اسی صورت میں ہے کہ جب سلخ  "عن"  کے ساتھ متعدی ہو اور اگر "من" کے ساتھ متعدی ہو تو پھر باہر نکالنے کے معنی میں ہے لیکن اس فرق کی کوئی واضح دلیل  ہمیں کتب لغت میں نہیں ملی اگرچہ لسان العرب میں یہ ہے کہ : 
 انسلغ النهار من الیل خرج منه خروجا
  دن رات سے سلخ ہوا یعنی اس سے نکلا ۔ 
 لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ پہلے ہی معنی سے لیا گیا ہے. 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
پر مردہ زمینوں کو زندہ کرنے کے ذکر کے بعد ـــــ دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں تبدیل ہو جانے کو زندگی کے بعد موت کے نمونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ 
 بہرحال جس وقت انسان رات کی تاریکی میں ڈوب جاتا ہے تو وہ نوراور اس کی برکات ، ہیجانات اور اس کے منبع وجود کو یاد کرتا ہے اور ایک موازنے کے ذریعے ... "نور و ظلمت" کے خالق سے آشنا ہوتا ہے۔ 
 تیسری نشانی کہ جس کی طرف رات کی نشانی کے بعد اشارہ ہوا ہے، نور ، روشنی اور سورج کی نشانی ہے ۔ قرآن کہتا ہے : "خورشید بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے کہ جو ہمیشہ اپنے ٹھکانے کی طرف حرکت میں ہے"۔  (والشمس تجري لمستقر لها)۔ ؎1 
 یہ آیت سورج کی مسلسل اور دائمی حرکت کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے لیکن اس بارے 
میں کہ اس حرکت سے کیا مراد ہے ، مفسرین نے بہت بحث کی ہے۔ 
 بعض اسے زمین کے گرد سورج کی ظاہری حرکت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ یہ حرکت اس عالم کے اختتام تک جاری و ساری ہے۔ کہ جو درحقیقت سورج کا ٹھکانا اور اس کی زندگی کا اختتام ہے۔ 
 بعض نے گرمیوں اور سردیوں میں زمین کے شمال و جنوب کی طرف ، سورج کے جھکنے کی طرف اشارہ سمجھا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ سورج موسم بہار کے آغاز سے خط اعتدال سے شمال کی طرف جھنکے لگتا ہے اور 23 درجہ شمال کے مدارتک جاتا ہے اور گرمیوں کے آغاز سے ہیچھے کی طرف لوٹتا ہے یہاں تک کہ آ غارخزاں تک خط اعتدال جاتا ہے اور اسی خط ہے وہ اپنا سفر سردیوں کے آغاز تک جنوب کی طرف جاری رکھتا ہے اور سردیوں کے آغاز سے خط اعتدال کی طرف حرکت کرتا ہے اور آغاز بہار میں وہاں تک پہنچ جاتا ہے ۔
 البتہ یہ تمام حرکتیں حقیقت میں زمین کی حرکت اور اس کے محور کے اس کے مدار کی نسبت جھکاؤ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ ظاہر میں سورج کی حرکت محسوس ہوتی ہے۔ 
 بعض دوسروں نے اسے "کره آفتاب" کی حرکت وصنعی کی طرف اشارہ جانا ہے کیونکہ ماہرین اور سائنسدانوں کی تحقیق نے قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ سورج خود اپنے محور کے گرد گردش کرتا ہے۔ ؎2 
 زیر بحث آیت کی آخری اور جدید ترین تفسیر وہی ہے جو ماہرین نے کشف کی ہے اور وہ سورج کا ، 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
  ؎1  اس جملے کی ترکیب میں دو احتمال ہیں پہلا یہ کہ "الیل" پر عطف ہے۔ اس صورت میں معنی اس طرح ہوگا "واية لهم الشمس"  (اور سورج ان کے لیے آیت ہے) اور دوسرا یہ کہ الشمس مبتداء ہے اور تجری اس کی ضمیر ہے۔ ہم نے پہلے احتمال کو اختیار کیا ہے ۔ 
  ؎2   اس تفسیر کے مطابق  "لمستقرلها" میں "لام" " في " کے معنی میں ہے۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
ہماری کہکشاؤں کے وسط میں تمام نظام شمسی کے ساتھ ایک معین سمت اور دور دراز کے ستارے کی طرف کہ جسے "وگا" کہتے ہیں ، حرکت کرتا ہے۔ 
 یہ سب معانی ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تضاد نہیں رکھتے اور ممکن ہے کہ "تجری" ان تمام حرکات اور بعض دوسری حرکات کی طرف بھی اشارہ ہو کہ جن تک ہمارا علم نہیں پہنچا اور شاید آئندہ زمانے میں وہ معلوم ہوجائیں ۔ 
 بہرحال سورج کے اتنے بڑے عظیم کرے کو حرکت دینا کہ جو ہماری زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا ہے اور وہ بھی اس  فضائے بکراں میں پورے حساب کتاب کے ساتھ حرکت دینا کسی کے بس میں نہیں ہے سوائے اس خدا کے کہ جس کی قدرت تمام قدرتوں سے مافوق ہے اور جس کا علم غیر متناہی ہے۔ اسی بنا پر آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: یہ خدائے قادر و دانا کی تقدیر ہے"۔  (ذلك تقديرا لعزيز العليم)۔ 
 اس آیہ کے سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ اس کی تعبیرات میں شمسی سال کے پر معنی نظام کی طرف اشارہ ہے کہ جو مختلف برجوں میں سورج کے حرکت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ ایسا نظام کہ جو انسان زندگی کو نظم و ضبط اور پروگرام دیتا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو ظلم کرتا ہے۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــ
 اس لیے بعد والی آیت میں اس بجث کی تکمیل کے لیے ، چاند کی حرکت اور اس کی منازل کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے کہ جس سے مہینے کے دنوں کا نظام بنتا ہے۔ فرمایا گیا ہے: "ہم نے چاند کے لیے منزلیں قرار دی ہیں اور ایک وقت وہ ان منزلوں کو طے کرلیتا ہے تو آخرکار کھجور کی پرانی شاخ کی مانند کمان کی صورت اور زردرنگ اختیار کرلیتا ہے"۔  (القمر قدرناه منازل حتى عاد کا لحرجون القدیم)۔ 
 "منازل" سے مراد وہی اٹھائیس منزلیں ہیں کہ جنہیں چاند  "محاق" اورمطلق تاریکی سے پہلے طے کرتا ہے کیونکہ جس وقت مہینے کے تیسں دن پورے ہوں تو وہ اٹھائیس راتوں تک آسمان پر دیکھا جاسکتا ہے لیکن اٹھائیسویں رات بہت ہی باریک ، زرد رنگ ، کم نوراور ہلال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور باقی دو راتوں میں نظر بھی نہیں آتا۔ کہ جسے  "محاق" کا نام دیتے ہیں لیکن وہ مہینے جو انتیس دن کے ہوتے ہیں ان میں ستائیسویں رات تک چاند آسمان پرنظرآتا ہے اور باقی دو راتیں "محاق" کی ہیں ۔ 
 یہ منزلیں مکمل طور پر حساب شدہ ہیں اسی طرح سے کہ منجمین سینکڑوں سال پہلے اپنے دقیق حساب کتاب کے مطابق پیش گوئی کرسکتے ہیں۔ 
 یہ عجیب وغریب نظام انسانوں کی زندگی کو نظم و ضبط بخشتا ہے اور یہ ایک طبیعی آسمانی تقویم ہے کہ جسے ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ نجومی پڑھ سکتا ہے۔ اس طرح سے کہ اگر انسان مختلف راتوں میں چاند کی کیفیت میں تھوڑا سا غور کرے تو اسے دیکھنے سے ہی صحیح صحیح یا قریب قریب جان سکتا ہے کہ یہ رات مہینے کی کون سی 
رات ہے (ہم نے خود اس بات کو آزمایا ہے)۔  
 کیونکہ ابتداۓ ماہ میں چاند کی نوکیں اپور کی طرف ہوتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ چاند کے حجم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ ساتویں تک پورے چاند کا آدھا دائرہ ظاہرہوجاتا ہے ۔ پھر اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ چودھویں رات کو بدرکامل کی شکل میں ظاہرہوتا ہے ۔
 اس کے بعد چاند نیچے کی سمت سے گٹھنا اور کم ہونا شروع ہوجاتاہے ۔ اکیسویں تک (گھٹتے گھٹتے) پھرآدھے دائرے کی شکل میں ہوجاتا ہے اور اسی طرح اس میں کمی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ اٹھائیسویں شب و کو ضعیف اور کم رنگ ہلال کی صورت اختیارکرلیتا ہے اور اس رات اس کی نوکیں نیچے کی طرف ہوتی ہیں۔ 
 ہاں! انسانوں کی زندگی کی بنیاد تنظیم سے ہی درست رہتی ہے اور نظم و ضبط ، زمانہ اور وقت کی دقیق تعین کے بغیر ممکن نہیں ہے، خدا نے آسمان میں ہی ماہانہ اور سالانه دقیق تقویم اسی مقصد کے لیے قرار دی ہے۔  
 یہیں سے "کالعرجون القدیم" ۔؎1 کی لطیف تعبیر کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے ، کیونکہ "عرجون" جیسا کہ مفسرین اور ارباب لغت نے بیان کیا ہے، کھجور کے خوشے کے اس حصے کرکہتے ہیں کہ جو درخت سے ملا ہوا ہوتا ہے ۔ اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ خرمے خوشے کے شکل میں درخت پرظاہر ہوتے ہیں . اس خوشے کا نچلا حصہ زرد رنگ کمان کی شکل میں ہوتا ہے کہ جو درخت کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور اس کی نوک جادو کی طرح ہوتی ہے اور خرمے کے دانے انگور کے دانوں کی طرح اس کے دھاگوں کے ساتھ متصل ہوتے ہیں ۔ جس وقت کھجور کے خوشے کو کاٹتے ہیں تو وہ قوسی شکل کا نچلا حصہ درخت پرباقی رہ جاتا ہے اور جس وقت وہ خشک اور پژمردہ ہو جاتا ہے تو مکمل طور پر "محاق" سے پہلے والے ہلال کی طرح ہوتا ہے کیونکہ جس طرح آخری ماہ میں ہلال آسمان کے مشرق کی طرف صبح کے وقت یوں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خمیده ، پژمردہ اور زرد رنگ ہوتا ہے اور اس کی نوکیں نیچے کی طرف ہوتی ہیں "عرجون القديم" بھی اسی طرح ہوتا ہے ۔
 حقیقت میں یہ مشابہت مختلف جہات میں ظاہر ہوتی ہے ، کھجور کے خوشے کی لکڑی کے ہلالی نما ہونے کے لحاظ سے زرد رنگ ہونے کے لحاظ سے پژمردگی کے لحاظ سے اس کی قوس کی نوک کے نچلی طرف مائل ہونے کے لحاظ سے اور کھجورکے درخت کی سبزرنگ شاخوں کے درمیان ہونے کے لحاظ سے کہ جوسیاه رنگ آسمان پر آخری رات کے ہلال کے قرار پانے 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     "عرجون" بعض ارباب لغت کے مطابق "انعراج" کے مادہ سے "اعوجاج"  اور "انعطاف"  (ٹیڑھ پن اورجھکاؤ) کے معنی میں لیا گیا ہے۔ اس بنا پر اس کی نون زائد ہے اور "فعلون" کے وزن پر ہے لیکن بعض دیگرکے نزدیک یہ لفظ "عرجن" کے مادہ سے لیا گیا ہے اور اس نون اصلی ہے اور یہ شاخ کے نچلے حصے کے معنی میں ہے کہ جو ٹیڑھا ہوجاتا ہے اور کھجور کے درخت پر باقی راہ
جاتا ہے اور "قدیم" ہر اس کنہ اور پرانی چیز کے معنی میں ہے کہ جسے ایک زمانہ گزر گیا ہو۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کے ساتھ غیر مشابہ نہیں ہے 
 نیز اسے "قدیم" کہنا اس کی کہنگی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جس قدر یہ شاخیں ، زیادہ کہنہ ہوجاتی ہیں اسی قدر زیادہ باریک اور زیادہ زردرنگ ہوجاتی ہیں، آخر ماہ کے ہلال سے زیادہ مشابہ ہو جاتی ہیں سبحان اللہ ایک چھوٹی سی تعبیرمیں کتنی لطافتیں اورکیسی کیسی زیبائیاں پنہاں ہیں۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
آخری زیر بحث آیت میں سال ، ماہ اور شب و روز کے اس نظام کے ثبات و دوام کے بارے میں گفتگو ہے۔ پروردگار نے ان کے لیے اس طرح سے پروگرام منظم کیا ہے کہ ان کی کیفیت میں معمولی سا اختلاف بھی پیدا نہیں ہوتا اور تاریخ بشر اسی ثبات کی بنا پر مکمل طور منظم رہتی ہے۔
  ارشاد ہوتا ہے: "نہ تو سورج کے بس میں ہے کہ چاند تک پہنچ جائے اور نہ ہی رات دن پرسبقت لے جاسکتی ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں" (لا الشمس ينبغي لها أن تدرك القمر ولا الليل سابق النهار وكل في فلك يسبحون) - 
 ہم جانتے ہیں کہ سورج اپنا دورہ بارہ برجوں میں ایک سال میں مکمل کرتا ہے جبکہ چاند اپنی منزلوں کو ایک مہینے میں طےکرتا ہے۔ 
 اس بنا پر چاند کا اپنے مدار میں گردش کرتا ، سورج کی اپنے مدار میں گردش سے بارہ گنا زیادہ تیز ہے۔ لہذا فرمایا گیا ہے کہ سورج اپنی گردن میں ہرگزچاند تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنی ایک سالہ حرکت کو ایک ماہ میں انجام نہیں دیتا اور سالانہ نظام درہم برہم نہیں ہوتا ۔ 
 اسی طرح رات دن پر سبقت حاصل کرکے اس کا ایک حصہ اپنے اندر داخل نہیں کرلیتی کہ موجودہ نظام ٹوٹ جائے بلکہ یہ سب کے سب اپنا سفر ہزاروں سال سے بغیرکسی تبدیلی کے جاری وساری رکھے ہوئے ہیں ۔ 
 ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس بحث میں سورج کی حرکات سے مراد اس کی وہ حرکت ہے کہ جو ہماری جس کے مطابق ہے. قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ تعبیر اس امر کے پایہ ثبوت کو پہنچ جانے کے بعد بھی ـــ کہ سورج اپنی جگہ پرساکن ہے اور زمین ایک سال کی مدت میں اس کے گرد چکرلگاتی ہے ۔ کارآمد ہے۔ مثلاً آج بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ سورج برج حمل میں داخل ہوگیا ہے یا سورج دائرہ نصف النہار پر پہنچ گیا ہے یا اس کا میل کلی تک پہنچنا ہے (میل کلی سے مراد گرمیوں کی ابتداء میں نصف کرہ شمالی میں سورج کا اپنے آخری نقطہ ارتفاع تک پہنچ جانا یا اس کے برعکس سردیوں کی ابتداء میں آخری نچلی حد تک پہنچنا ہے)۔ 
 یہ سب کی سب تعبیریں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے اورسورج کےساکن ہونے کے انکشاف کے بعد بھی سورج کی حرارت سے متعلق گزشتہ تعبیرات کی استعمال ہوتی ہیں کیونکہ حسی طور پر ایسا کیا نظر آیا ہے کہ سورج حرکت میں ہے ۔ 
 سورج اور چاند کا اپنے اپنے افلاک میں تیرنے (كل في فلك يسبحون) کا مفہوم بھی نہیں سے پیدا ہے۔ 
  یہ احتمال بھی ہے کہ سورج کے اپنے فلک میں تیرنے سے مراد نظام شمسی اور اس کہکشاں کے ساتھ اس کا حرکت کرنا ہے کہ جس میں ہم موجود ہیں کیونکہ موجودہ زمانے میں یہ امرثابت ہوچکا ہے کہ ہمارا نظام شمسی اس عظیم کہکشاں کا آیا جز ہے کہ جو خود اپنے گرد گردش کر رہی ہے۔ ؎1 
 کیونکہ "فلك" جیسا کہ ارباب لغت نے بیان کیا ہے اصل میں لڑکیوں کے پستان ابھرنے اور گول شکل اختیار کرنے کے معنی میں ہے۔ بعد ازاں یہ لفظ زمین کے ان قطعات کے لیے کہ جو گول ہیں یا دوسری گول چیزوں کے لیے استعمال ہونے لگا ۔ اسی بنا پر سیاروں کی گردش کے راستوں پربھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
 "كل في فلك يسبحون"  کا جملہ بہت سے مفسرین کے نظریے کے مطابق سورج ، چاند اور ستاروں میں سے ہر ایک کی طرف اشارہ ہے کہ جو اپنا اپنا راستہ اور مدار رکھتے ہیں ، اگرچہ آیات میں ستاروں کا نام نہیں آیا لیکن  "لیل" (رات) کے ذکر کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور ستاروں کا چاند اور سورج کے مانند ہونے کو دیکھتے ہوئے مذکورہ جملے سے معنی کو سمجھنا بعید نظر نہیں آتا ۔ خاص طورپر جبکہ "یسبحون" صیغہ جمع کی شکل میں بیان ہوا ہے۔ 
 یہ تفسیر بھی موجود ہے کہ ممکن ہے یہ جملہ سورج ، چاند اور رات اور دن کی طرف اشارہ ہو کیونکہ رات اور دن میں سے ہر ایک اپنے لیے ایک مدار رکھتے ہیں اور کره زمین کے گرد گردش کرتے ہیں ، تاریکی کره زمین کے نصف حصہ کو ہمیشہ چھپائے رکھتی ہے اور روشنی دوسرے نصف حصہ پررہتی ہے اور یہ دونوں چوبیسں گھنٹوں میں ایک پورا دور زمین کے گرد لگاتے ہیں۔ 
  "يسبحون"  "سباحت" کے مادہ سے ہے۔ مفردات میں راغب کے مطابق اصل میں یہ لفظ پانی اور ہوا میں سریع اور تیز حرکت کے معنی میں ہے۔ ؎2  یہاں یہ لفظ آسمانی کروں کی سریع حرکت کی طرف اشارہ کررہا 
  ۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     یہ حرکت اس حرکت کے علاوہ ہے کہ جو پورے نظام شمسی کی کہکشاں کے اندر ہے کہ جو ستاره "وگا"  کی طرف حرکت میں ہے اور اس کی طرف ہم سے اشارہ بھی کیا ہے۔
  ؎2    یہ جو خدا کے ذکر اور اس کی عبادت کو" تسبیح"  کہتے ہیں تو وہ بھی اسی وجہ سے ہے اور وہ بھی پیدوردگار کی اطاعت و عبادت کی راہ میں ایک تیز حرکت ہے، (مفردات را غب مادہ" سبح") 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہے اور انہیں اسی عاقل موجودات سے تشبیہ دے رہا ہے کہ جو تیزی کے ساتھ اپنی گردش جاری رکھے ہوۓ ہوں۔ موجودہ زمانے میں بھی یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ اجرام سمادھی بہت ہی حیران کن تیزی کے ساتھ اپنے مدار میں حرکت کرتے ہیں۔ 

     ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ