Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2- اس داستان کے تربیتی اور اصلاحی نکات

										
																									
								

Ayat No : 20-30

: يس

وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ۲۰اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ ۲۱وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۲۲أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ ۲۳إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۲۴إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ ۲۵قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ۲۶بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ ۲۷وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ ۲۸إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ ۲۹يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ۳۰

Translation

اور شہر کے ایک سرے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ قوم والو مرسلین کا اتباع کرو. ان کا اتباع کرو جو تم سے کسی طرح کی اجرت کا سوال نہیں کرتے ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں. اور مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤ گے. کیا میں اس کے علاوہ دوسرے خدا اختیار کرلو ں جب کہ وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کام آنے والی نہیں ہے اور نہ کوئی بچاسکتا ہے. میں تو اس وقت کھلی ہوئی گمراہی میں ہوجاؤں گا. میں تمہارے پروردگار پر ایمان لایا ہوں لہٰذا تم میری بات سنو. نتیجہ میں اس بندہ سے کہا گیا کہ جنّت میں داخل ہوجا تو اس نے کہا کہ اے کاش میری قوم کو بھی معلوم ہوتا. کہ میرے پروردگار نے کس طرح بخش دیا ہے اور مجھے باعزّت لوگوں میں قرار دیا ہے. اور ہم نے اس کی قوم پر اس کے بعد نہ آسمان سے کوئی لشکر بھیجا ہے اور نہ ہم لشکر بھیجنے والے تھے. وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی جس کے بعد سب کا شعلہ حیات سرد پڑگیا. کس قدر حسرتناک ہے ان بندوں کا حال کہ جب ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے تو اس کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں.

Tafseer

									 2- اس داستان کے تربیتی اور اصلاحی نکات : 
         زیر بحث آیات میں اس داستان کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے بہت سے مسائل سیکھے جاسکتےہیں کہ جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں: 
 (ا)     صاحب ایمان افراد راه خدا میں کبھی بھی تنہائی سے نہیں گھبراتے۔ جیسا کہ ایک مرد مومن حبیب نجار شہر کے مشرکین کے انبوہ سے وحشت زدہ نہیں ہوا۔ علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔ 
  ايها الناس لاتستوحشوا في طريق الهدي لقلة اھله 
  اے لوگو! ہدایت کی راہ میں افراد کی کمی سے کبھی بھی وحشت نہ کرو۔ ؎1 
 (ب)    مومن لوگوں کی ہدایت کا عاشق ہوتا ہے اور ان کی گمراہی سے اسے دکھ پہنچتا ہے۔ یہال تک کہ وہ اپنی شہادت کے بعد بھی یہ آرزو رکھتا ہے کہ اے کاش! دوسرے لوگ اس کے مقامات کو دیکھ لیتے اور ایمان لےآتے۔ 
 (ج)    انبیاء کی دعوت کے مطالب خود اس کی ہدایت و حقانیت کے بہترین گواہ ہوتے ہیں (و هم مھتدون)۔ 
 (د)     مردان کی طرف دعوت میں کسی بھی اجرپرنگاہ نہیں ہونی چاہیئے ورنہ وہ اثر انداز نہ ہو سکے گی۔ 
 (ه)     بعض اوقات گمراہی کا عامل پوشیدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ عامل ضلال مبین اور آشکار ہوتا ہے اور بت پرستی و شرک "ضلال مبین" اس کا واضح مصداق ہیں۔ 
 (و)    مردان حق حقیقتوں پر تکیہ کرتے ہیں اور گمراہ لوگ موہومات و خیالات پر۔ 
 (ز)    اگر نحوست و بدبختی موجود ہو تو اس کا سرچشمہ خود انسان اور اس کے اعمال ہیں ۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
  ؎1     نہج البلاغہ ، خطبہ 201 -  
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 (ح)     "اسراف" اور تجاوز بہت سی بدبختیوں اور انحرافات کا عامل ہے۔ 
 (ط)     پیغمبروں اور ان کے راستے پر چلنے والوں کا فریضہ "بلاغ مبین" اور ہرمیدان میں واضح و آشکار دعوت دینا ہے ۔ چاہے لوگ اُسے قبول کریں یا نہ کریں۔  
 (ی)     اجتماع و جمعیت کامیابی ،عزت اور قوت کے اہم عوامل میں سے ایک ہے (نعززنا بثالث) - 
 (ک)     خدا سرکش لوگوں کی سرکوبی کے لیے آسمان و زمین کے عظیم لشکرجمع نہیں کرتا بلکہ ایک ہی اشارے سے ان کی ہر چیز درہم برہم کردیتا ہے۔ 
 (ل)     شہادت اور بہشت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے اور شہید اپنی سواری سے زمین پر آنے سے کی حورالعین کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔ 
 (م)      خدا انسان کو پہلے تو گناہ کی آلودگی سے پاک کرتا ہے اور پھر اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دیتا ہے  (بما غفرلي ربي وجعلني من المكرمين)۔ 
 (ن)     دشمنان حق کی مخالفت اورسخت سے گھبرانا نہیں چاہیئے کیونکہ پوری تاریخ میں یہ ان کا ہمیشہ سے طریقہ رہا ہے (یحسرة على العباد مايأتیهم من رسول الاکانوا به يستهزون) - 
 اس سے بڑھ کر اور کونسی حسرت کی بات ہوگی کہ انسان ہدایت کے دروازوں کو تعصب ہٹ دھرمی اور غرورکی بناء پر اپنے اپور بند کر دے اور حق آفتاب عالمتاب کونہ دیکھے. 
 (س)    انبیاء پر سب سے پہلے ایمان لانے والے معاشرے کے مستضعفین ہوا کرتے تھے (وجاء رجل من اقصى المدينة) - 
 (ع)     وہی لوگ تھے کہ جو راہ طلب میں کبھی تھکےنہیں تھے اور ان کی سعی و کوشش ہمیشہ جاری رہتی تھی (یسعٰی)۔ 
 (ف)    تبلیغ کا طریقہ انبیاء الٰہی سے ہی سیکھنا چاہیے کہ جو بے خبر دلوں پر تاثیر کرنے کے لیے تمام موثر طریقوں سے استفادہ کرتے تھے کہ جن کا ایک نمونه زیر نظر آیات اور ان روایات میں کہ جو ان کی تفسیر میں آئی ہیں ، مشاہدے میں آتا ہے۔ 

     ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ