1- انطاکیہ کے رسولوں کی داستان
وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ۲۰اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ ۲۱وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۲۲أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ ۲۳إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۲۴إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ ۲۵قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ۲۶بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ ۲۷وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ ۲۸إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ ۲۹يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ۳۰
اور شہر کے ایک سرے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ قوم والو مرسلین کا اتباع کرو. ان کا اتباع کرو جو تم سے کسی طرح کی اجرت کا سوال نہیں کرتے ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں. اور مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤ گے. کیا میں اس کے علاوہ دوسرے خدا اختیار کرلو ں جب کہ وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کام آنے والی نہیں ہے اور نہ کوئی بچاسکتا ہے. میں تو اس وقت کھلی ہوئی گمراہی میں ہوجاؤں گا. میں تمہارے پروردگار پر ایمان لایا ہوں لہٰذا تم میری بات سنو. نتیجہ میں اس بندہ سے کہا گیا کہ جنّت میں داخل ہوجا تو اس نے کہا کہ اے کاش میری قوم کو بھی معلوم ہوتا. کہ میرے پروردگار نے کس طرح بخش دیا ہے اور مجھے باعزّت لوگوں میں قرار دیا ہے. اور ہم نے اس کی قوم پر اس کے بعد نہ آسمان سے کوئی لشکر بھیجا ہے اور نہ ہم لشکر بھیجنے والے تھے. وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی جس کے بعد سب کا شعلہ حیات سرد پڑگیا. کس قدر حسرتناک ہے ان بندوں کا حال کہ جب ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے تو اس کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں.
چند اهم نکات
1- انطاکیہ کے رسولوں کی داستان :
انطاکیہ ، شام کےعلاقہ کا ایک قدیم شہر ہے بعض کے قول کے مطابق یہ شہر مسیح علیہ السلام سے تین سوسال پہلےتعمیرہوا۔ یہ شہرقدیم زمانے میں دولت و ثروت اور علم و تجارت کے لحاظ سے مملکت روم تین بڑے شہروں میں سے ایک شمار ہوتا تھا۔
شہر انطاکیہ حلب سے ایک سو کلومیٹر سے کچھ کم اور اسکندریہ سے تقریبًا ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے.
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 راغب مفردات میں کہتا ہے کہ"حسرت" اس چیز پر غم کے معنی میں ہے کہ جو انسان کے ہاتھ سے نکل جائے ۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ شہرخلیفہ ثانی کے زمانہ میں ابوعبیدہ جراح کے ہاتھوں فتح ہوا اور رومیوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اس میں رہنے والے لوگ عیسائی تھے ۔ انہوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا اور اپنے مذہب پر باقی رہ گئے ۔ ؎1
پہلی عالمی جنگ کے بعد یہ شہر فرانسیسیوں کے قبضہ میں آگیا ۔ اہل انطاکیہ زیادہ ترعیسائی اور فرانسیسیوں کے ہم مذہب تھے اس لیے جب فرانسیسیوں نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس بات کے پیش نظر کہ ان کے شام سے نکلنے کے بعد اس ملک میں ہونے والے فتنہ و فساد سے عیسائیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے، انہوں نے اسے ترکی کے حوالے کردیا ۔
انطاکیہ عیسائیوں کی نگاہ میں اسی طرح سے دوسرا مذہبی شہر شمار ہوتا ہے جس طرح سے مسلمانوں کی نظرمیں مدینہ ہے اور ان کا پہلا شہر بیت المقدس ہے کہ جس سے حضرت عیسٰیؑ نے اپنی دعوت کی ابتداء کی اور اس کے بعد حضرت عیسٰیؑ پر ایمان لانے والوں میں سے ایک گروہ نے انطاکیہ کی طرف ہجرت کی اور پولس اور برنابا ؎2 شہروں کی طرف گئے ۔ انہوں نے لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دی ۔ وہاں سے دین عیسوی نے وسعت حاصل کی ۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں اس شہر کے بارے میں (زیر بحث آیات میں) خصوصیت کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے۔ ؎3
مفسرعالی قدرطبرسی ، مجمع البیان میں کہتے ہیں : حضرت عیسیؑ نے حواریین میں سے اپنے دو نمائندے انطاکیہ کی طرف بھجیے جس وقت وہ شہر کے پاس پہنچے تو انہوں نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جو چند چیزیں چرانے کے لیے لایا تھا ۔ یہ "حبیب" صاحب یس تھا۔ انہوں نے اسے سلام کیا "بوڑھے نے جواب دیا اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم عیسٰی کے نمائندے ہیں ، ہم اس لیے آئے ہیں کہ تمہیں بتوں کی عبادت کے بجائے خدائے رحمان کی طرف دعوت دی۔
بوڑھے نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی معجزہ یا نشانی بھی ہے؟
انہوں نے کہا : ہاں ! ہم بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور مادر زاد اندھوں اور برص میں مبتلا لوگوں کو حکم خدا سے صحت و تندرستی بخشتے ہیں۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 فرہنگ قصص قرآن ماده "انطاکیہ" ص 320۔
؎2 "پولس" مشہور عیسائی مبلغ ہے ۔ اس نے حضرت عیسیؑ کے بعد عیسائیت پھیلانے میں بہت کوشش کی ہے اور "برنابا" کااصلی نام "یوسف" ہے، اور وه "پولس" اور "مرقس" کے اصحاب میں سے تھا۔ اس کی ایک انجیل ہے جس میں پیغمبر اسلامؐ کے ظہور کی بہت زیادہ بشارتیں نظرآتی ہیں لیکن عیسائی اسے غیر قانونی شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ایک مسلمان نے لکھی ہے ۔
؎3 تفسیرابوالفتوح رازی حاشیہ ازمرحوم عالم بزرگوار شعرانی۔
،۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بوڑھے نے کہا : میرا ایک بیمار بیٹا ہے کہ جو سالہاسال سے بستر پرپڑا ہے
انہوں نے کہا : ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم تمهارے گھر جاکر اس کا حال معلوم کریں۔
بوڑھا ان کے ساتھ چل پڑا۔ انہوں نے اس کے بیٹے پر ہاتھ پھیرا تو وہ صحیح و سالم اپنی جگہ پر اٹھ ہوا۔
یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی اور خدا نے اس کے بعد بیماروں میں سے ایک کثیر گروہ کو ان کے ہاتھ سے شفابخشی -
ان کا بادشاہ بت پرست تھا۔ جب اس تک خبرپہنچی تو اس نے انہیں بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہوا؟
انہوں نے کہا: کہ ہم عیسٰی سے فرستادہ ہیں ، ہم اس لیے آئے ہیں کہ یہ موجودات جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں ان کی عبادت کے بجائے ہم تمہیں اسی کی عبادت کی طرف دعوت دیں جو سنتا بھی ہے اور ایسا دیکھتابھی ہے ۔
بادشاہ نے کہا : کیا ہمارے خداؤں کے علاوہ کوئی اور معبود کی موجودہے؟
انہوں نے کہا : ہاں! وہی کہ جس نے تجھے اور تیرے معبودوں کو پیدا کیا ہے ۔
بادشاہ نے کہا : اٹھ جاؤ کہ میں تمهارے بارے میں کچھ سوچ بچارکروں ۔
یہ ان کے لیے ایک دھمکی تھی۔ اس کے بعد لوگوں نے ان دونوں کو بازار میں پکڑکرمارا پیٹا۔
لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ عیسٰی کے ان دونواں نمائندوں کو بادشاہ تک رسائی حاصل نہ ہوئی اور ایک مدت تک وہ اس شہرمیں رہے ۔ ایک دن بادشاہ اپنے محل سے باہر آیا ہوا تھا تو انمول تکبیر کی آواز بلند کی، اور "اللہ" کا نام عظمت کے ساتھ لیا - بادشاه غضب ناک ہوا اور انہیں قید کرنے کا حکم دے دیا اور ہر ایک کو سو کواڑے مارے۔
جس وقت عیسٰی کے ان دونوں نمائندوں کی تکذیب ہوگئی اور انہیں زدوکوب کیا گیا تو حضرت عیسٰی نے شمعون الصفا کو ان کے پیچھے روانہ کیا۔ وہ حواریوں کے بزرگ تھے۔
شمعون اجنبی صورت میں شہرمیں پہنچے اور بادشاہ کے اطرا فیوں سے دوستی پیدا کرلی، انہیں ان کی دوستی بہت بھائی اور ان کے بارے میں بادشاہ کو بھی بتایا ۔ بادشاہ نے بھی ان کودعوت دی اور انہیں اپنے ہمنشینوں میں شامل کرلیا ۔ بادشاہ ان کا احترام کرنے لگا۔
شمعون نے ایک دن بادشاہ سے کہا : میں نے سنا ہے کہ دو آدمی آپ کی قید میں ہیں اور جس وقت انہوں نے آپ کو آپ کے دین کے بجائے کسی دوسرے دین کی دعوت دی تو آپ نے انہیں مارا پیٹا؟ کیا کبھی آپ نے ان کی باتیں سنی بھی ہیں؟
بادشاہ نے کہا : کہ مجھے ان پر اتنا غصہ آیا کہ میں نے ان کی کوئی بات نہیں سنی۔
شمعون نے کہا : اگر بادشاہ مصلحت سمجھیں تو انہیں بلالیں تاکہ ہم دیکھیں تو سہی کہ ان کے پلے ہے کیا۔
بادشاہ نے انہیں بلالیا شمعون نے یوں ظاہر کیا جیسے انہیں پہچانتے ہی نہ ہوں اور ان سے کہا: تمہیں یہاں اس نے بھیجا ہے ؟ انہوں نے کہا : اس خدا نے کہ جس نے سب کو پیدا کیا ہے اور حبس کا کوئی شریک نہیں ہے"۔
شمعون نے کہا : تمهارا معجزہ اور نشانی کیا ہے؟
انہوں نے کہا: جو کچھ تم چاہو!
بادشاہ نے حکم دیا اور ایک اندھے غلام کو لایا گیا جسے انہوں نے حکم خدا سے شفا بخشی بادشاہ کو بہت تعجب ہوا- اس مقام پر شمعون بول اٹھے اور بادشاہ سے کہا : اگر آپ اس قسم کی درخواست اپنے خداؤں سے کرتے تو کیا وہ بھی اس قسم کے کام کی قددرت رکھتے تھے ؟
بادشاہ نے کہا : تم سے کیا چھپا ہوا ہے ۔ ہمارے یہ خدا کہ جن کی ہم پرستش کرتے ہیں نہ تو کوئی ضرر پہنچا سکتےهیں ،نہ نفع دےسکتےہیں اورنہ ہی کوئی اورخاصیت رکھتےہیں۔
اس کے بعد بادشاہ نے ان دونوں سے کہا : اگر تمہارا خدا مردے کوزندہ کرسکتا ہے توہم اس پر اور تم پر ایمان لےآئیں گے۔
انہوں نے کہا : ہمارا خدا ہرچیزپرقدرت رکھتا ہے۔
بادشاہ نے کہا : یہاں ایک مردہ ہے جسے مرے ہوئے سات دن گزرچکے ہیں ابھی تک تم نے اسے دفن نہیں کیا۔ ہم اس انتظار میں ہیں کہ اس کا باپ سفر سے آجائے۔ اسے زندہ کردکھاؤ۔
مردہ کو لایا گیا تو وہ دونوں تو آشکاردعا کررہے تھے اور شمعون دل ہی دل میں - اچانک مردے میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ میں سات روز سے مرچکاہوں میں نے جہنم کی آگ اپنی آنکھ سے دیکھی ہے اور میں تمہیں خبردارکرتا ہوں کہ تم سب خداے یگانہ پر ایمان لے اؤ۔
بادشاہ نے تعجب کیا۔ حبس وقت شمعون کو یقین ہوگیا کہ اس کی باتیں اس پر اثرکرگئی ہیں تو اسے خدائے یگانہ کی طرف دعوت دی اور وہ ایمان لےآیا اور اس کے ملک کے باشندے بھی اس کے ساتھ ایمان لے آئے ۔ اگرچہ کچھ لوگ اپنے گھر پر باقی رہے۔
اس روایت کی نظر تفسیر عیاشی میں امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے بھی نقل ہوئی ہے، اگرچہ ان کے درمیان کچھ فرق ہے۔ ؎1
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تفسير مجمع البیان ، جلد 8 ص 429 زیربحث آیات کے ذیل میں (تلخیص کے ساتھ) .
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
لیکن گزشتہ آیات کے ظاہر کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس شہر والوں کا ایمان لانا بہت بعیدنظرآتاہے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ وہ صیحۂ آسمانی کے ذرایعہ ہلاک ہوگئے۔
ممکن ہے کہ روایت کے اس حصہ میں راوی سے اشتباہ ہوا ہو۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ زیر بحث آیات میں "مرسلون" کی تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ پیغمبر اور خدا کے بھیجے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں قرآن کہتا ہے کہ شہر کے لوگوں نے ان سے کہا کہ تم ہم جیسے بشر ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو اور خدا نے کوئی چیز نازل نہیں فرمائی .
قرآن مجید میں اس قسم کی تعبیرات عام طور پر خدائی پیغمبروں کے بارے میں آئی ہیں ، یہ کہنا کہ پیغمبروں کے بھیجے ہوئے بھی تو خدا کے بیجھے ہوتے ہیں تو یہ توجیہ یہاں بعید نظر آتی ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ