ایک جان بکف مجاهد
وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ۲۰اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ ۲۱وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۲۲أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ ۲۳إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۲۴إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ ۲۵قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ۲۶بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ ۲۷وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ ۲۸إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ ۲۹يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ۳۰
اور شہر کے ایک سرے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ قوم والو مرسلین کا اتباع کرو. ان کا اتباع کرو جو تم سے کسی طرح کی اجرت کا سوال نہیں کرتے ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں. اور مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤ گے. کیا میں اس کے علاوہ دوسرے خدا اختیار کرلو ں جب کہ وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کام آنے والی نہیں ہے اور نہ کوئی بچاسکتا ہے. میں تو اس وقت کھلی ہوئی گمراہی میں ہوجاؤں گا. میں تمہارے پروردگار پر ایمان لایا ہوں لہٰذا تم میری بات سنو. نتیجہ میں اس بندہ سے کہا گیا کہ جنّت میں داخل ہوجا تو اس نے کہا کہ اے کاش میری قوم کو بھی معلوم ہوتا. کہ میرے پروردگار نے کس طرح بخش دیا ہے اور مجھے باعزّت لوگوں میں قرار دیا ہے. اور ہم نے اس کی قوم پر اس کے بعد نہ آسمان سے کوئی لشکر بھیجا ہے اور نہ ہم لشکر بھیجنے والے تھے. وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی جس کے بعد سب کا شعلہ حیات سرد پڑگیا. کس قدر حسرتناک ہے ان بندوں کا حال کہ جب ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے تو اس کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں.
تفسیر
ایک جان بکف مجاهد
زیر بحث آیات میں ان رسولیوں کی جدوجہد کا ایک اور حصہ بیان کیا گیا ہے اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے تھوڑے سے مومنین نے بڑی شجاعت سے ان انبیاء کی حمایت کی اور وہ کافر ومشرک اور ہٹ دھرم اکثریت کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور جب تک جان باقی رہی انبیاء الہی کا ساتھ دیتے رہے۔
ارشاد ہوتا ہے : "ایک (باایمان) مرد شہر کے دور دراز مقام سے بڑی تیزی کے ساتھ بھاگتا ہوا کافر گروہ کے پاس آیا اور کہا : اے میری قوم ! مرسلین خدا کی پیروی کرو"۔ (وجاء من اقصا المدينةرجل يسعٰي قال يا قوم ابتعوا المرسلین)۔
اس شخص کا نام اکثر مفسرین نے "حبیب نجار" وبیان کیا ہے۔ وہ ایسا شخص تھا کہ جو پروردگارکے پیغمبروں کی پہلی ہی ملاقات میں ان کی دعوت کی حقانیت اور ان کی تعلیمات کی گہرائی کو پاگیا تھا وہ ایک ثابت قدم اورمصمم کار مومن ثابت ہوا ۔جس وقت اُسے خبر ملی کہ وسط شہر میں لوگ ان انبیاءالٰہی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور شاید انہیں شہید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس نے خاموش رہنے کو جائزنہ سمجھا۔ چنانچہ "یسعٰی" کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تیزی اور جلدی کے ساتھ مرکز شهر تک پہنچا اور جو کچھ اس کے بس میں تھاحق کی حمایت اور دفاع میں فروگزاشت نہ کی۔
"رجل کی تعبیر ناشناختہ شکل میں شاید اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ایک عام آدمی تھا ، کوئی قدرت و شوکت نہیں رکھتا تھا اور اپنی راہ میں یکہ و تنہا تھا لیکن اس کے با وجود ایمان کے نور و حرارت نے اس کا دل اس طرح سے روشن اور مستعد کر رکھا تھا کہ راہ توحید کے مخالفین کی سخت مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میدان میں کود پڑا۔ اس کا واقعہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آغازاسلام میں مومنین کہ جو بہت تھوڑی سی تعداد میں تھے اسے اپنے لیے نمونہ عمل سمجھیں اور جان لیں کہ تنہا ایک مومن بھی پوری طرح ذمہ داری ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے خاموش رہنا جائز نہیں ہے ۔
"اقصى المدينة" کی تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان رسولوں کی دعوت شہر کے دور دراز کے مقامات تک پہنچ گئی تھی اور آماده دلوں میں اثرکرچکی تھی ۔ اس سے قطع نظر کہ شہر کے دور دراز کے علاقے ہمیشہ ایسے مستضعفین کے مرکز ہوتے ہیں کہ جو حق کو قبول کرنے کے لیے زیادہ آمادہ وتیار ہوتے ہیں ، اس کے برعکس شہروں میں نسبتًا خوشحال لوگ زندگی بسر کرتے ہیں جن کو حق کی طرف راغب کرنا آسانی کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔
"یاقوم" (اے میری قوم )کی تعبیر اس شخص کی اہل شہر کے بارے میں ہمدردی کو بیان کرتی ہے اور رسولوں کی پیروی کی دعوت ایک مخلصانہ دعوت ہے جس میں اس کی ذات کے لیے کوئی فائده اورنفع میں ہے۔
آیےاب دیکھتے ہیں کہ یہ مومن مجاہد اپنے شہر والوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کسی منطق اور دلیل کو اختیار کرتا ہے۔
اس نے پہلے یہ دلیل اختیار کی کہ "ایسے لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے اپنی دعوت کے بدلے میں کوئی اجر طلب نہیں کرتے"۔ (اتبعوا من لا يسئلكم اجرًا)۔
یہ ان کی صداقت کی پہلی نشانی ہے کہ ان کی دعوت میں کسی قسم کی مادی منفعت نہیں ہے، وہ تم سے کوئی مال چاہتے ہیں اور نہ ہی جاہ و مقام ، یہاں تک کہ وہ تو تشکر و سپاس گزاری بھی نہیں چاہتے اور نہ ہی کوئی اور صلہ۔
عظیم انبیاء کے خلوص ، بے غرضی اور ان کی صفائے قلب کی نشانی کے طور پر بارہا آیات قرآنی میں اس بات کا ذکر آیا ہے۔ صرف سور: شعراء میں پاپنج مرتبه وما اسئلکم عليه من اجر" کی تکرار ہے ۔ ؎1
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : (علاوہ ازیں) یہ رسول جیسا ان کی دعوت کے مطالب اور ان کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے"کہ وہ ہدایت یافتہ افرادہیں (وهم مھتدون)۔
یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی کی دعوت کو قبول نہ کرنا یا تو اس بناء پر ہوتا ہے کہ اس کی دعوت حق نہیں ہے اور وہ بے راہ روی اور گمراہی کی طرف کھینچ رہاہے یا یہ کہ ہے تو حق لیکن اس کو پیش کرتے والے اس کے ذریعے کوئی خاص مفاد حاصل کر رہے ہیں کیونکہ یہ بات خود اس قسم کی دعوت کے بارے میں بدگمانی کا ایک سبب ہے لیکن جب نہ وہ بات ہو اور نہ یہ ، تو ہھر تامل و تردد کے کیا معنی ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بعد قرآن ایک اور دلیل پیش کرتا ہے اور اصل توحید کے بارے میں بات کرتا ہے کیونکہ یہی انبیا کی دعوت کا اہم ترین نکتہ ہے کہتا ہے:" میں اس ہستی کی پرستش کیوں نہ کروں کہ جس نے مجھے پیدا
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 سورہ شعراء آیہ 109 ، 127 ، 145 ، 164 و 180۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کیاہے"۔ (وما لي لا اعبد الذی فطرنی )۔ ؎1
وہ ہستی پرستش کے لائق ہے کہ جو خالق و مالک ہے اور نعمات بخشنے والی ہے ، نہ کہ یہ بت کہ جن سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا ۔فطرت سلیم کہتی ہے کہ خالق کی عبادت کرنا چاہیئے ہے کہ اس بے قدرقیمت مخلوق کی
"فطرنی" ( جس نے مجھے پیدا کیا ہے) ممکن ہے اس نکتے کی طرف بھی اشارہ ہو کہ میں جس وقت و اپنی فطرت اصلی اور سرشتِ حقیقی پر غور کرتا ہوں تو اچھی طرح سے محسوس کرتا ہوں کہ میرے اندر سے ایک ایسی رسا آواز بلند ہوتی ہے کہ جو مجھے میرے خالق کی پرستش کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ وہ دعوت کہ جو عقل و خرد کے ساتھ ہم آہنگ ہے، میں ... "فطرت" اور "عقل و خرد" کی اس دہری دعوت کو کس طرح اہمیت نہ دوں -
قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ شخص یہ نہیں کہتا کہ "مالكم لا تعبدون الذي فطركم " (تم اس خدا کی عبادت کیوں نہیں کرتے کہ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے) بلکہ کہتا ہے کہ "میں کیوں اس طرح نہ کروں" یعنی خود اپنے آپ سے شروع کرتا ہے تا کہ بات زیادہ موثر ہو۔
اس کے بعد خبردار کرتا ہے کہ یاد رکھو "تم سب کے سب آخرکار اکیلے ہی اس کی طرف لوٹ کرجاؤ گے"۔ (وليه ترجعون)۔
یعنی نہ صرف تمہارا اس جہان کی زندگی میں اس کے ساتھ تعلق ہے بلکہ دوسرے جہان میں بھی تمهاری ساری سرنوشت اسی کے دست قدرت میں ہوگی۔ ہاں ! اسی کی طرف رخ کرو کہ دونوں جہانوں میں تماری سرنوشت جس کے اختیار میں ہے۔
اپنے تیسرے استدلال میں بتوں کی کیفیت بیان کرتا ہے اور خدا کے لیے عبودیت کے اثبات کو بتوں کی عبودیت کی نفی کے ذریعے تکمیل کرتے ہوئے کہتا ہے : "کیا میں خدا کے سوا اور معبود اپنا لوں ، جبکہ خدا رحمٰن مجھے کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی شفاعت مجھے معمولی سا فائدہ بھی نہ دے گی اور وہ مجھے اس کے عذاب سے نہ بچاسکیں گے"۔ (ءانتخذ من دونه الهة ان یردن الرحمٰن بضر لا تغن عني شفاعته شيئًا ولا ینقذون) -
اس مقام پر پھر اپنے بارے میں بات کرتا ہے تاکہ تحکم اور آمریت کا لہجہ نہ ہو اور دوست اپنا حساب خود کرلیں۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "ومالي لا اعبد .. "میں کچھ محذوف ہے اور وہ تقدیر میں اس طرح تھا :
ای شی لي اذالم اعبد خالقي (مجمع البیان)
بعض مفسرین نے "مالی" کو "لم" "کیوں" اس کے معنی میں لیا ہے ۔ (بتیان زیربحث آیت کے ذیل میں) -
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
وہ دراصل بت پرستوں کے بہانن کی نشاندہی کرتا ہے وہ کہتے تھے کہ ہم تو ان کی اسی بنا پرستش کرتے ہیں کہ وہ بارگاہ خدا میں ہمارے شفیع ہوں۔ کہتا ہے : کونسی شفاعت اور کونسی مدد و نجات ؟ وہ تو خود تمهاری مدد کے محتاج ہیں ، حوادث کی تنگناۓ میں وہ تمہارا کیا کام دے سکتے ہیں۔
"الرحمن" کی تعبیر یہاں پر خدا کی رحمت کی وسعت اور تمام نعمتوں کی اسی کی طرف بازگشت ہونے کی جانب اشارہ ہے اور یہ خود توحید عبادت کی دلیل ہے اس کے علاوہ یہ اس نکتہ کو بھی بیان کرتی ہے کہ خدائے رحمٰن کسی کے لیے ضرر اور نقصان نہیں چاہتا مگر یہ کہ انسان کی غلط روش اپنے انتہائی درجہ کو پہنچ جائے جو اس کو خدا کی وسیع رحمت سے دور کرکے اس کے غضب کی وادی میں گرفتار کردے ۔
اس کے بعد یہ مجاہد مومن مزید تاکید و توضیح کے لیے کہتا ہے : اگر میں اس قسم کے بتوں کی پرستش کروں اور انہیں پروردگار کا شریک قرار دوں تو میں کھلی گمراہی میں ہوں گا"۔ (اني اذًالفي ضلال مبين).
اس سے بڑھ کر کھلی گمراہی کیاہوگی کہ عاقل و باشعور انسان ان سے شعور موجودات کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور انہیں زمین و آسمان کے خالق کے برابرجانے۔
اس مجاہد مومن نے ان استدلالات اور مؤثر و وسیع تبلیغات کے بعد ایک پر تاثیر آواز کے ساتھ سارے مجمع کے سامنے اعلان کیا سب لوگ جان لو کہ میں "ان رسولوں کی دعوت پر ایمان لایا ہوں اور میں نے ان رسولوں کی دعوت کو قبول کرلیا ہے"۔ (اني امنت بربكم) -
اس بناء پر میری باتوں کو سنو "اور جان لو کہ میں ان رسولوں کی دعوت پر ایمان رکھتا ہوں اور تم میری بات پر عمل کرو کہ یہی تمہارےفائدہ کی بات ہے ( فاسمعون).
اس جملے میں اور اسی طرح "اني أمنت بربکم" میں مخاطب کون ہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ کہ گزشتہ آیات کا ظاہر اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ وہی مشرکین اور بت پرستوں کا گروہ ہے کہ جواس شہرمیں رہتا تھا "ربکم" (تمہارا پروردگار) کی تعبیر بھی اس معنی سے تضاد نہیں رکھتی کیونکہ یہ تعبیر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں استدلالات توحید بیان کرتے ہوئے آئی ہے ۔ ؎1
نیز "فاسمعون" (میری بات پر کان دھرو) بھی اس بات کے ساتھ کہ جو بیان ہوئی کوئی مخالفت نہیں رکھتا کیونکہ وہ یہ لفظ انہیں اپنی گفتگو کی پیروی کرنے کی دعوت کے لیے کہتا ہے جیسا کہ مومن ، آل فرعون کی داستان میں آیا ہے ۔ وہ فرعرنیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:
یا قوم اتبعون أهدكم سبيل الرشاد
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 آیه 3 ، 32 يونس - 3 بود -52 ہود - 24 نخل - 29 کہف وغیرہ کی طرف رجوع کریں۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"اے میری قوم! میری پیروی کرو تاکہ میں تمہیں سیدھے راستے کی ہدایت کروں"۔ (مومن ـــ38 )
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس جملے میں وہ رسول مخاطب ہیں کہ جوخدا کی طرف سے اس قوم کو دعوت دینے کے لیے آئے تھے اور " ربکم "کی تعبیر اور فاسمعون کو اس پر قرینہ قرار دیا ہے ، اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ اس پاکباز مومن کے جواب میں اس ہٹ دھرم قوم کا ردعمل کیا تھا ۔ قرآن نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کہی لیکن بعد والی آیات کے لب وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے شہید کردیا۔
ہاں ! اس کی پرجوش اور ولولہ انگیز گفتگو قوی اور طاقتور استدلالات اور ایسے عمدہ و دلنشین نکات کے ساتھ تھی ۔مگر اس سے نہ صرف یہ کہ ان سیاه دلوں اور مکر و غرور سے بھرے ہوئے سروں پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا بلکہ کینہ و عداوت کی آگ ان کے دلوں میں ایسی بھڑکی کہ وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور انتہائي سنگدلی اور بے رحمی سے اس شجاع مردمومن کی جان کے پیچھے پڑگئے۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے اسے پتھر مارنے شروع کیے اور اس کے جسم کو اس طرح سے پتھروں کا نشانہ بنایا کہ وہ زمین پر گر پڑا اور جان جان آفریں کے سپرد کردی ۔ اس کے لبوں پر مسلسل یہ بات تھی کہ "خداوندا ! میری اس قوم کو ہدایت فرما کہ وہ جانتے ہیں ہیں ۔ ؎1
ایک اور روایت کے مطابق اسے اس طرح پاؤں کے نیچے روندا کہ اس کی روح پرواز کرگئی ۔ ؎2
لیکن قرآن اس حقیقت کو ایک عمدہ اور سربستہ جہلہ کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:" اسے کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا"۔ (قیل ادخل الجنة) -
یہ وہی تعبیر ہے کہ جو راہ خدا کے شہیدوں کے بارے میں قرآن کی دوسری آیات میں بیان ہوئی ہے :
ولاتحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتًا بل احیاء عند ربهم یرزقون
" یہ گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہ خدا میں قتل کیے گئے ہیں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زنده جاوید ہیں
اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں"۔ (آل عمران ـــــ 169)
جاذب توجہ بات یہ ہے کہ یہ تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ مرد مومن شہادت پاتے ہی جنت میں داخل ہوگیا ۔ ان دونوں کے درمیان اس قدر کم فاصلہ تھا کہ قرآن مجید نے اپنی لطیف تعبیرمیں اس
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیر قرطبی ، زیر بحث آیت کے ذیل میں۔
؎2 تفسیر مجمع البیان ، تبیان، تفسير ابوالفتوح رازی و غیره -
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کی شہادت کا ذکر کرنے کے بجائے اس کے بہشت میں داخل ہونے کو بیان کیا۔ شہیدوں کی منزل یعنی بہشت وسعادت کس قدرنزدیک ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ یہاں بہشت سے مراد برزخ والی بہشت ہے کیونکہ قرآنی آیات سے بھی اور روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہشت جاوداں مومنین کو قیامت میں نصیب ہوگی اور دوزخ بھی بدکاروں کے لیے اسی طرح۔
اس بناء پر عالم برزخ میں ایک دوسری جنت و دوزخ ہے کہ جو قیامت کی جنت و دوزخ کا ایک نمونہ ہے جیسا کہ امیرالمومنین علیؑ کی ایک روایت میں قبر کے بارے میں مقتول ہوا ہے :
القبراما روضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النيران۔
قبرجنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے"۔؎1
بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ حملہ اس خطاب کی طرف اشارہ ہے کہ جو قیامت کے دن اس مجاہد اور ایثارپیشہ مومن سے کیا جائے گا اور یہ مستقبل کا پہلو رکھتا ہے نہ کہ حال کا ۔ یہ احتمال ظاہر آیہ کے خلاف ہے۔
بہرحال اس شخص کی پاک روح آسمانوں کی طرف ، رحمت الہی کے قرب اور بہشت نعیم کی طرف پرواز کر گئی اور وہاں اسے صرف یہ آرزو تھی کہ:" اے کاش میری قوم جان لیتی ( قال ياليت قوی یعلمون)۔
"اے کاش وہ جان لیتے کہ میرے پروردگار نے مجھے اپنی بخشش اور عفو سے نوازا ہے اور مجھے مکرم لوگوں کی صف ہمں جگہ دی ہے"۔ (بما غفرلي ربي وجعلني من المكرمين)۔ ؎2
اے کاش ان کی آنکھ حق بین ہوتی ۔ ایسی آنکھ کہ جس پر مادی دنیا کے ضخیم پردے پڑے ہوئے نہ ہوتے اور جو کچھ اس پردے کے پیچھے ہے اسے دیکھ لیتے ۔یعنی وہ ان سب نعمتوں اور خدا کے اکرام و الطاف کو دیکھ لیتے اور جان لیتے کہ ان کی اہانتوں کے بدلے خدا نے میرے حق میں کیا لطف فرمایا ہے اے کاش ! وہ دیکھتے اور ایمان لے آتے لیکن افسوس !
ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر گرامی اسلامؐ نے فرمایا :
انه نصح لهم في حياته وبعد موته -
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بحارالانوار ، جلد 2 ص 218-
؎2 "ما" "بماغفرلی ربی" میں مصدریہ ہے یا موصولہ ہے یا استفہامیہ؟ تین احتمال ذکر کیے گئے لیکن استفہامیہ والا احتمال بعید نظر آتا ہے ۔ دوسرے دواحتمالوں میں سے موصولہ والا احتمال زیادہ تر صحیح معلوم ہوتا ہے اگرچہ معنی کے لحاظ سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"اس باایمان شخص نے اپنی زندگی میں بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور موت کے بعد بھی ان کی ہدایت کی آرزو رکھتا تھا۔ ؎1
یہ بات قابل توجہ ہے کہ وہ پہلے غفران الہی کی نعمت کا ذکر کرتا ہے اور پھر اس کے اکرام کا۔ کیو نکہ پہلے انسان کی روح کو گناہوں کی آلودگی سے مغفرت کے پانی کے ساتھ پاک ہونا چاہیے اور جب پاک ہو جائے تو پھر بساط قرب اوراکرام الہی کا مقام پاتا ہے۔
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ خدا کا اکرام و اعزاز اور بزرگی ۔ بہت سے بندوں کو نصیب ہوتی ہے اور اصولاً "تقوٰی " اور "اکرام" دوش بدوش آگے بڑھتے ہیں جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
ان اكرمكم عند الله اتقاكم (حجرات ـــــــ 13)۔
"لیکن" اکرام بطور کامل اورکسی شرط کے بغیر قرآن مجید میں دو گروہوں کے بارے میں آیا ہے۔
پہلاگروہ خدا کے مقرب فرشتے ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ :
بل عباد مکرمون لا يسبقونه بالقول و هم با مرہ یعملون
"وہ خدا کے مکرم بندے ہیں کہ جوبات کرنے میں اس پر سبقت نہیں کرتے اور اس
کے فرمان پرکار بند رہتے ہیں"۔ (انبیاء - 26-27)۔
ور دوسرے کامل الایمان بندے کہ جنہیں قرآن نے "مخلصین" کے نام سے یاد کیا ہے اور ان کے بارے میں کہتا :
اولئك في جنات مكرمون
وہ جنت کے باغوں میں مکرم ہوں گے قدر ہوں گے" ۔ ( معارج ــــ 35)۔ ؎2
ــــــــــــــــــــــــــ
بہرحال یہ تو اس مرد مومن اور سچے مجاہد کا انجام تھا کہ جس نے اپنی ذمہ داری کی انجام دہی اور خدا کے پیغمبروں کی حمایت میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور آخر کار شربت شهادت نوش کیا اور خدا کے جوار رحمت میں جگہ پائی ۔
لیکن آیئے دیکھیں کہ اس ظالم اور سرکش قوم کا انجام کیا ہوا؟
اگرچہ قرآن میں ان تین پیغمبروں کے انجام کار کے متعلق ــ کوئی بات نہیں کی گئی کہ جو اس قوم کی طرف مبعوث ہوئے۔ لیکن بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس قوم نے ، اس مرد مومن کو شہید کرنے کے علاوہ اپنے
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسير قرطبی جلد 8 ص 5464-
؎2 المیزان ، جلد 17 ص 86 زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
پیغمبروں کو بھی شہید کردیا جبکہ بعض نے تصریح کی ہے کہ اس مرد مومن نے لوگوں کو اپنے ساتھ مشغول رکھا تاکہ وہ پیغبراس سازش سے بچ جائیں ــ جو ان کے خلاف کی گئی تھی ۔ اور کسی پر امن جگہ منتقل ہوجائیں لیکن اس قوم پر خدا کا درد ناک عذاب نازل ہوا کہ جس کی طرف بعد والی آیات میں ارشاد ہوا ہے یہ امر پہلے قول کی ترجیح کے لیے قرینہ ہے ۔ اگرچہ "من بعده "( اس مرد مومن کی شہادت کے بعد) کی تعبیر نزول عذاب کے بارے میں ایک بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دوسرا قول صحیح ہے۔ (غور کیجئے گا)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہم نے دیکھا کہ شہرانطاکیہ کے لوگوں نے خدا کے پیغمبروں کی کیسے مخالفت کی ۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا انجام کیا ہوا۔
قران اس بارے میں کہتا ہے:" ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر کوئی لشکر آسمان سے نہیں بھیجا اور اصولًا ہمارا طریقہ ہی نہیں ہے کہ ایسی سرکش اقوام کو نابود کرنے کے لیے ان امور سے کام لیں"۔ (وما انزلنا على قومه من بعد و من جند من السماء وماکنا منزلين )-
ہم ان امور کے محتاج نہیں ہیں صرف ایک اشارہ کی کافی ہے کہ جس سے ہم ان سب کو خاموش کر دیں اور انہیں دیارعدم کی بھیج دیں اور ان کی زندگی کو درہم برہم کر دیں۔
صرف ایک اشارہ ہی کافی ہے کہ ان کے حیات کے عوامل ہیں ان کی موت کے عامل میں بدل جائیں اور مختصر سے وقت میں ان کی زندگی کا وقت لپیٹ کر رکھ دیں۔
پھر قرآن مزید کہتا ہے: "صرف ایک آسمانی چیخ پیدا ہوئی ، ایسی چیخ کہ جو ہلادینے والی اور موت کا پیغام کی اچانک سب پر موت کی خاموشی طاری ہوگئی"۔ (ان كانت الاصيحة واحدة فاذا هم خامدون) -
کیا یہ چیخ بجلی کی کڑک تھی کہ جو بادل سے اٹھی اور زمین پرجاپڑی اور ہرچیز کو لرزه براندام کردیا اور تمام عمارتوں کو تباہ کر دیا اور وہ سب خوف کی شدت سے موت کی آغوش میں چلے گئے ۔
یایہ ایسی چیخ تھی کہ جو زمین کے اندر سے ایک شدید زلزلے کی صورت میں اٹھی اور فضا میں تھا دھماکہ ہوا اور اس دھماکے کی لہرنے انہیں موت کی آغوش میں سلادیا۔
ایک چیخ وہ جو کچھ بھی تھی ، لمحہ بھر سے زیادہ نہ تھی ۔ وہ ایک ایسی آواز تھی کہ جس نے سب آوازوں کو خاموش کردیا اور ایسی ہلادینے والی تھی کہ جس نے تمام حرکتوں کو بے حرکت کردیا اور خدا کی قدرت ایسی ہی ہے اور ایک گمراہ اور بےثمرقوم کا انجام یہی کرتا ہے،
بسو زند چوب درختان بی بر سزا خود ہمیں است مربي بری را
"بے ثمر درختوں کی لکڑی جلانے ہی کے کام آتی ہے کیونکہ بے ثمر چیز کی سزا یہی ہے"۔
آخری زیربحث آیت میں بہت ہی جامع اور موثر انداز میں تاریخ کے تمام سرکشوں کے دعوت انبیاء سے ٹکراؤ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : "افسوس ہے ان بندوں پر کہ کوئی ایسا پیغمبر ان کی ہدایت کے لیے نہیں آیا جس کا انہوں نے مذاق نہ اڑایاہو"۔ (ياحرة على العباد مایا تیهم من رسول الاكانوا به يستہزءون)۔
وائے ہے ان لوگوں پر کہ جنہوں نے خدا کی رحمت کا دریچہ خود سے بند کرلیا۔
افسوس ان پر کہ جہنوں نے اپنی ہدایت کے چراغ توڑ ڈالے۔
ہائے سعادت سے محروم وہ لوگ کہ جو نہ صرف پیغمبروں کی ندا پرکان نہیں دھرتے بلکہ ان کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور پھر انہیں تہ تیغ کردیتے ہیں حالانکہ گزشتہ بےایمان سرکشوں کا برا انجام دیکھ چکے ہیں اور ان کے دردناک انجام کے بارے میں سن چکے ہیں یا تاریخ کے صفحات میں پڑھ چکے ہیں لیکن انہوں نے کچھ بھی تو عبرت حاصل نہیں کی اور انہوں نے بھی اسی وادی میں قدم رکھ دیا اور اس انجام میں گرفتار ہوگئے۔
واضح رہے کہ یہ جملہ خدا کی گفتار ہے چونکہ یہ تمام آیات اس کی طرف سے بیان ہورہی ہیں۔ البتہ "حسرت" کالفظ ـــــ ان واقعات یہ کہ جن کے بارے میں انسان سے کچھ ہو نہ سکے اندرونی پریشانی کے معنی میں ہوتا ہے ۔ خدا کے بارے میں یہ لفظ کوئی معنی نہیں رکھتا جیسا کہ "خشم" اور "غضب" اور اس قسم کے دیگر امور بھی اس کے بارے میں کوئی مفہوم نہیں رکھتے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان بدبختوں کا حال ایساتھا کہ جو انسان بھی ان کی کیفیت سے آگاہ ہوتا ، وہ متاسف و متاثر ہوتا کہ وہ نجات کے ان تمام وسائل کے ہوتے ہوئے اس ہولناک گرداب میں کیوں غرق ہو گئے ۔ ؎1
"عباد" (خدا کے بندے) کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تعجب اس چیز پر ہے کہ خدا کے بندے کہ جو اس کی نعمتوں میں مستغرق میں اس قسم کا جرم کرتے ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ