چند قابل توجه نکات
إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ ۖ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ۱۱إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ ۱۲
آپ صرف ان لوگوں کو ڈراسکتے ہیں جو نصیحت کا اتباع کریں اور بغیر دیکھے ازغیب خدا سے ڈرتے رہیں ان ہی لوگوں کو آپ مغفرت اور باعزت اجر کی بشارت دے دیں. بیشک ہم ہی مفِدوں کو زندہ کرتے ہیں اور ان کے گزشتہ اعمال اور ان کے آثار کولکھتے جاتے ہیں اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے.
چند قابل توجه نکات
1- اس آیت میں ایسے اشخاص ــــ کہ جن پر پیغمبرؐ کا "انذار" اور پندونصیحت موثر ہے کے دو اوصاف بیان ہوئے ہیں :
1- نصیحت کی پیروی۔
2- پوشیدہ طور پر خدا سے ڈرتا۔
البتہ ان دو اوصاف سے مراد آمادگی اور صلاحیت ہے یعنی انذار صرف ان افراد پر موثر ہوتا ہے جو سننے والا کان اور آمادہ دل رکھتے ہیں۔ انذار ان میں دو اثر پیدا کرتا ہے پہلا ذکر و قرآن کی پیروی اور دوسرا پروردگار اور اسی کی طرف سے عائد ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس ۔
دوسرے لفظوں میں ان دو اوصاف کی صلاحیت ان میں موجود ہے لیکن انذار کے بعد وہ عملی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ہٹ دھرم ، دل کے اندھوں اور غافل لوگوں کے برخلاف کہ جو نہ تو سننے والے کان رکھتے ہیں اور نہ ہی خشیت و خوف الٰہی کے لیے آمادگی -
یہ آیت سورة بقرہ کی پہلی آیات کے مانند ہے کہ جن میں فرمایا گیا ہے:
ذٰلك الكتاب الأرب فية ھدیٰ للمتقین
"اس کتاب آسمانی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ پرہیزگاروں کے لیے باعث
ہدایت ہے"۔
2- بہت سے مفسرین کے نظریہ کے مطابق "ذکر" سے مراد قرآن مجید ہے کیونکہ یہ لفظ قرآن میں بارہا اسی شکل میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ؎1
لیکن اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اس سے مراد اس کا لغوی معنی یعنی ہر قسم کا تذکراور نصیحت اور اس میں آیات قرآن اور پیغمبراکرمؐ اور خدائی رہبروں کے تمام انذار اور پند و نصائح بھی اس کے مفہوم میں شامل ہوں-
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 سوره نحل - 44 ، حٰم السجدہ -41 ، زخرف -44 اور قمر -25 ۔ جبکہ "ذکر" قرآن میں بارہا مطلق ذکر سے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3- خشیت ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ، اس خوف کے معنی میں ہے کہ جس کے ساتھ احساس عظمت موجود ہو نیز "رحمٰن" کی تعبیر کہ جو خدا کی رحمت عامہ کی مظہر ہے ، یہاں ایک لطیف تکتے کی حامل ہے اور وہ یہ کہ عظمت خدا کے خوف کے ساتھ ساتھ وہ اس کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہوں تاکہ خوف و رجاء کے دونوں پلڑے ۔ کہ جو تکامل و ارتقار کی طرف مسلسل حرکت کے حامل ہیں ۔ متوازن رہیں۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ بعض آیات قرانی میں رجاء و امید کے بارے میں تو "اللہ" کے نام کا ذکر ہوا ہے جو کہ ہیبت و عظمت کا مظہر ہے:
لمن كان يرجوا الله واليوم الأخر (احزاب ۔21)
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رجاء بھی خوف کے ساتھ ہونا چاہیے اور خوف رجاء کے ساتھ (غور کیجئے گا)۔
4- "بالغیب" کی تعبیر یہاں پر استدلال و برہان کے ذریعے خدا کی شناخت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس کی پاک ذات انسانی حواس سے پنہاں ہے۔ صرف دل کی آنکھ سے اور اس کے آثار کے ذریعے کے اجلال و جمال کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ "غیب" یہاں پر لوگوں کی آنکھ سے پنہاں کے معنی میں ہو یعنی اس کا مقام خشیت و خوف ریا کے پہلو سے اور لوگوں کی موجودگی میں ہی نہ ہو بلکہ وہ تنہائی میں بھی خشیت کا حامل ہو۔
بعض نے اسے "قیامت" کے معنی میں تفسیر کیا ہے کیونکہ اس کے واضح مصادیق میں سے وہ اموربھی ہیں کہ جو ہماری حس سے پنہاں ہیں لیکن پہلا معنی سب سے زیادہ مناسب نظر آتا ہے۔
5- "فبشره" کا لفظ درحقیقت "انذار" کی تکمیل ہے کیونکہ خدا کا پیغمبرؐ ابتداء میں انذار کرتا ہے اور جس وقت فرمان خدا کی پیروی اور احساس عظمت کے ساتھ خوف پیدا ہوجائے اور اس کے اثرات انسان کے قول و فعل میں ظاہر ہوں ، تو وہ بشارت دیتا ہے۔
کس بات کی بشارت دیتا ہے ؟ پہلے تو اس بات کی کہ جو انسانی فکر اور دوسری چیز سے زیادہ اپنی طرف مشغول رکھتی ہے اور پھر ان لغزشوں کے بارے میں کہ جو کبھی کبھار اس سے سرزد ہوتی ہیں ، کہ خدائے بزرگ و برتر
نے وہ سب بخش دی ہیں ۔ اس کے بعد اوراجر کریم اور بہترین جزا کی بشارت دیتا ہے کہ جس کے مختلف پہلوؤں کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ لفظ "مغفرت" بھی نکرہ کی شکل میں بیان ہوا ہے اور "اجرکریم" بھی ۔ ہم جانتے ہیں کہ اس قسم کے مواقع پر نکرہ کی صورت میں لفظ کا آنا عظمت کے بیان کے لیے ہے
بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ "فبشره" میں "فاء" کہ جوتفریع کے لیے ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کی مغفرت اور اور کریم ترتیب وار نصیحت کی پیروی اور پروردگار کے خوف کا نتیجہ ہیں۔
گزشتہ آیات میں مومنین اور انبیاء کے انذار کو قبول کرنے والوں کے اجر و ثواب کا ذکر ہے ، اسی کا مناسبت سے بعد والی آیت میں مسئلہ معاد و قیامت اور حساب و کتاب اور جزاء کے لیے مثبت اعمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : "ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں"۔ (انا نحی نحی الموتی )۔
"نخن" (ہم) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس عظیم قدرت کے ہوتے ہوئے کہ جس کا تم سب کو ہمارے متعلق علم ہے مزید کسی بحث و گفتگو کی ضرورت نہیں ہے کہ بوسیدہ اور گلی سڑی ہڈیاں نئے سرے سے کا کس طرح زندہ ہوں گی اورلباس حیات کس طرح زیب تن کریں گی۔
نہ صرف یہ کہ ہم مردوں کو زندہ کریں گے بلکہ "بم وه تمام کچھ کہ جو انہوں نے آگے بھیجا ہے اور اس کی تمام اثاربھی لکھ رہے ہیں"۔ (ونکتب ما قاموا و اثارهم) -
اس بناء پر کوئی چیز فروگزاشت نہیں ہوگی اور ہرچیز نامۂ اعمال میں روز حساب کے لیے محفوظ ہوجائے گی۔
"ماقدموا" (جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا ہے) ان اعمال کی طرف اشارہ ہے کہ جو انہوں نے انجام دیئے ہیں اور ان کا کوئی اثر باقی نہیں رہا۔ لیکن "واثارهم" کی تعبیر انسان کے ان اعمال کی طرف و اشارہ ہے کہ جو باقی رہ جاتے ہیں اور ان کے آثار معاشرے میں منعکس ہوتے ہیں۔ مثلاً صدقات جاریہ (انسان کی تعمیرات ، اوقات اور ایسے مراکز کی جو بعد ازاں باقی رہ جاتے ہیں اور لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں) ۔
یہ احتمال بھی آیت کی تفسیر میں موجود ہے کہ "ما قدموا" تو ان اعمال کی طرف اشارہ ہو کہ جو شخصی جنبہ رکھتے ہیں اور "اثارهم" ان کاموں کی طرف کہ جو رواج پاجاتے ہیں اور انسان کے بعد بھی موجب خیرو برکت یا موجب شروزیاں اور سبب گناہ بنتے ہیں۔
البتہ آیت کا مفہوم وسیع ہے اور ممکن ہے کہ دونوں تفاسیراس کے مفہوم میں جمع ہوں۔
آیت کے آخر میں مزید تاکید کے لئے اضافہ کیا گیا ہے:" ہم نے تمام چیزوں کا واضح اور آشکارکتاب میں احصاء کر دیاہے"۔ و کل شیء احصيناه في امام مبین )۔
اکثر مفسرین نے یہاں "امام مبین" سے "لوح محفوظ " مراد لی ہے یعنی وہ کتاب کہ جس میں اس جہان کے تمام موجودات ، واقعات اور اعمال ثبت محفوظ ہیں۔
نیز "امام" کی تعبیر ممکن ہے کہ اس نظر سے ہو کہ یہ کتاب قیامت میں ثواب و عقاب کے تمام مامورین کے لیے رہبر اور پیشوا ہے اور انسانوں کے اعمال کی قدر وقیمت پرکھنے کے لیے ان کی جزا و سزا کا ایک معیار ہے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ لفظ "امام" قرآن کی بعض دوسری آیات میں "تورات" کے بارے میں استعمال ہوا ہے ۔ فرمایا گیا ہے:
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَةً (ہود ـــ 17)۔
" کیا وہ شخص کہ جو اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہو اور اسی کی طرف سے
اس کے پیچھے ایک شاہد بھی ہو اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب کہ جو امام اور رحمت تھی اس
پرگواہی دیتی ہے (اس شخص کی مانند ہے کہ جو ایسا نہیں ہے)۔
اس آیہ میں لفظ "امام" کا اطلاق تورات پر اس کے معارف و احکام کی بناء پر ہے۔ اسی طرح اس میں بیان شده پیغمبراسلامؐ کی ان نشانیوں کی وجہ سے ہے اور ان تمام امور میں وہ مخلوق کے لیے رہبرو پیشوا بن سکتی ہے۔ اس بناء پر مذکورہ لفظ و امام ، ہر موقع پر اس موقع کی مناسبت سے مفهوم دیتا ہے۔