1- آلات شناخت کا بیکار ہو جانا
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يس ۱وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ ۲إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ۳عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ۴تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ۵لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ۶لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ۷إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ ۸وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ۹وَسَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ۱۰
یٰسۤ. قرآن حکیم کی قسم. آپ مرسلین میں سے ہیں. بالکل سیدھے راستے پر ہیں. یہ قرآن خدائے عزیز و مہربان کا نازل کیا ہوا ہے. تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے باپ دادا کو کسی پیغمبر کے ذریعہ نہیں ڈرایا گیا تو سب غافل ہی رہ گئے. یقینا ان کی اکثریت پر ہمارا عذاب ثابت ہوگیا تو وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں. ہم نے ان کی گردن میں طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں اور وہ سر اٹھائے ہوئے ہیں. اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنادی ہے اور پھر انہیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں. اور ان کے لئے سب برابر ہے آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں.
چند اهم نکات
1- آلات شناخت کا بیکار ہو جانا :
انسان اس بناء پر کہ اپنے وجود سے باہر کے عالم سے بھی آگاہ ہوسکے کچھ وسائل وآلات سے فائدہ اٹھاتا ہے ، جنہیں آلات شناخت کہاجاتا ہے۔
ان میں سے ایک حصہ تو "ذات کے اندر"ہوتاہے اور دوسرا حصہ "ذات سےباہر" عقل و خرو اور وجدان و فطرت تو ذات کے اندر والے شناخت کے آلات ہیں اور انسان کے حواس ظاہری ۔ جیسے بینائی و شنوائی - ذات سے بابر کے آلات شناخت ہیں -
ان خدا داد وسائل سے اگرصحیح طور پر استفادہ کیا جائے تو روز بروز زیادہ قوی اور زیادہ طاقتور ہوتے جائیں گے اور مزید بہتر اور مزید دقیق حقائق کی شناخت کریں گے۔
لیکن اگر وہ ایک مدت تک انحرانی راہوں میں چلتے رہیں یا ان سے بالکل استفادہ نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ کمزور پڑ جائیں گے یا بالکل بگڑجائیں گے اور حقائق کی برعکس نشاندہی کریں گے ، ٹھیک ایک صاف و شفاف آئینہ کی مانند کہ جسے ایک دبیز وضخیم گرد و غبار ڈھانپ لے یا زیادہ اور گہری خراشیں اس پرلگ جائیں تو پھر اس میں کوئی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی اور اگر دکھائی دے بھی تو ہرگز حقیقت کے مطابق نہیں ہوگی ۔
انسان کے یہی غلط اعمال اور انحرافی فائدے اٹھانا ، آلات شناخت کی اس عظیم نعمت کو اس سے چھین لیتے ہیں ۔ اسی بنا پر قصور وار وہ خود ہے اور اس کا گناہ بھی خود اسی کی گردن پر ہے۔
اوپر والی آیات اس اہم اور سرنوشت ساز مسئلہ کی بولتی ہوئی تصویر میں مستکبرہوس بازوں اور متعصب خود خواہوں کو ان سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو طوق و زنجیر میں گرفتار ہیں۔ یہ وہی ہوا و ہوس کبر و غرور اوراندھی تقلید کی زنجیریں ہیں کہ جو خود انہوں نے اپنے ہاتھ اور گردن میں ڈالی ہیں اور یہ ان لوگوں کے مشابہ ہیں کہ جو ایک قوی اور ناقابل عبور چار دیواری کے محاصرے میں آگئے ہیں ۔
اور دوسری طرف سے ان کی آنکھیں بند اور نابینا ہیں۔
صف طوق و زنجیر ہی ان کو حرکت سے روکنے کے لیے کافی ہیں جبکہ دو عظیم دیواریں تھیں ان کی فعالیت میں مانع ہیں اور ان کی آنکھیں بھی کچھ دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔
یہ دونوں دیواریں گویا اس قدر بلند اور نزدیک ہیں کہ جو انہیں کچھ دیکھنے نہیں دیتیں اور انہیں حرکت سے بھی محروم کر دیتی ہیں ۔
ہم نے باربا بیان کیا ہے کہ انسان کا ہدایت قبول کرنا اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اس مرحلے تک نہ پہنچ گیاہو۔ لیکن جب وہ اس مرحلے تک پہنچ جائے تو پھر تمام انبیاء واولیاء بھی جمع ہوجائیں اور تمام کتب آسمانی اس کے سامنے پڑھی جائیں توبھی اس پر مؤثر نہ ہوں گی۔
اور یہ جو روایات اسلامی اور اسی طرح آیات قرآنی میں تاکید کی گئی ہے کہ اگر کسی انسان سے کوئی لغزش ہو جائے اور کوئی گنا اس سے سرزد ہوجائے تو فورًا توبہ کرلے اور خدا کی طرف لوٹ آئے اورلیت ولعل ، تاخیر اور اصرار وتکرار سے پرہیز کرے ، تو یہ اس لیے ہے کہ معاملہ اس حد کا نہ پہنچ جائے کہ جو زنگ لگ چکا ہے اترنے ہی نہ پائے ، چھوٹی چھوٹی رکاوٹوں کو ایک بڑی رکاوٹ میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی ختم کردے اور پیش رفت اورحرکت کی گنجائش باقی رکھے اور غبار کو اپنی انکھوں سے ہٹا د ے
تاکہ راستے کو واضح طور پر دیکھ سکے۔