Tafseer e Namoona

Topic

											

									  قلب قرآن کا سرآغاز

										
																									
								

Ayat No : 1-10

: يس

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يس ۱وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ ۲إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ۳عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ۴تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ۵لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ۶لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ۷إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ ۸وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ۹وَسَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ۱۰

Translation

یٰسۤ. قرآن حکیم کی قسم. آپ مرسلین میں سے ہیں. بالکل سیدھے راستے پر ہیں. یہ قرآن خدائے عزیز و مہربان کا نازل کیا ہوا ہے. تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے باپ دادا کو کسی پیغمبر کے ذریعہ نہیں ڈرایا گیا تو سب غافل ہی رہ گئے. یقینا ان کی اکثریت پر ہمارا عذاب ثابت ہوگیا تو وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں. ہم نے ان کی گردن میں طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں اور وہ سر اٹھائے ہوئے ہیں. اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنادی ہے اور پھر انہیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں. اور ان کے لئے سب برابر ہے آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں.

Tafseer

									  تفسیر 
                قلب قرآن کا سرآغاز 
 یہ سورت قرآن مجید کی دوسری 28 سورتوں کی طرح حروف مقطعات کے ساتھ شروع ہوتی ہے (یا اور سین) - 
 ہم نے حروف مقطعہ کی تفسیر کے بارے میں سورۂ بقرہ ، آل عمران اور اعراف کی ابتدا میں مفصل گفتگو کی ہے۔ ؎1  
 لیکن خصوصیت کے ساتھ سورہ یٰسین میں ان حروف مقطعہ کے لیے کچھ اور تفسیر بھی ہیں۔ 
 ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لفظ مرکب ہے "یا" حرف ندا اور "سین" سے یعنی ذات پیمغبیرا سلامؐ سے اور ایک طرح سے پیغمبراکرمؐ کو بعد والے مطالب کے بیان کرنے کے لیے مخاطب کیا گیا ہے۔ 
 مختلف احادیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ یہ لفظ پیغمبرگرامی اسلامؐ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ؎2 
 دوسری تفسیریہ ہے کہ یہاں مخاطب انسان ہے "سین" اس کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ احتمال بعد والی آیات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ ان آیات میں روئے سخن صرف پیغمبراکرمؐ کی طرف اسی لیے ایک روایت میں امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : 
  یٰسین اسم رسول الله صلى الله عليه واله وسلم والدليل علٰى ذلك قوله 
  تعالى انك لمن المرسلين على صراط مستقیم 
  "یٰسین رسول خدا کا نام ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تو 
  مرسلین میں سے ہے اور صراط مستقیم پر ہے" (نورالثقلین جلد 4 ص 375)۔
 ان حروف مقطعہ کے بعد بہت سی ان سورتوں کی طرح کہ جو حروف مقطعہ سے شروع ہوتی ہیں۔ 
 قرآن مجید کے بارے میں گفتگوہے . البتہ یہاں قرآن کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا گیا ہے " والقران الحکیم " (قرآن حکیم کی قسم)۔ 
 قابل توجہ بات یہ ہے کہ "قرآن"  کی "حکیم" کے ساتھ توصیف کی گئی ہے جبکہ حکمت عام طور پر زنده اور عاقل شخص کی صفت ہے۔ گویا قرآن کا زنده و عاقل اور رہبر و پیشوا کے طور پر تعارف کروایا جا رہا ہے کہ جو حکمت کے دروازے انسانوں کے سامنے کھول سکتا ہے اور اس صراط مستقیم کی طرف کہ جس کی طرف بعد والی آیات میں اشارہ کیا ہے ، رہنمائی کرسکتا ہے۔ 
 البتہ خدا قسم کھانے کا محتاج نہیں ہے لیکن قرآن کی قسمیں ہمیشہ دو اہم فوائد کی حامل ہوتی ہیں پہلاکسی مطلب کی تاکید کے لیے اور دوسرا اس چیز کی عظمت بیان کرنے کے لیے کہ میں کی قسم کھائی جارہی ہے۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1      تفسير نمونہ کی جلد اول جلد دوم اور جلد ششم میں مذکورہ سورتوں کے آغاز کی طرف رجوع فرمائیں۔ 
  ؎2     نورالثقلیين ، جلد 4 ص 374 و  375 ۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کیونکہ کوئی بھی شخض کم قدروقیمت موجودات کی قسم نہیں کھاتا 
 بعد والی آیت اس چیز کو کہ جس کی خاطر پہلی آیت میں قسم کھائی گئی تھی بیان کرتی ہے، فرمایا گیا ہے: "یقینًا" تو خدا کے رسولوں میں سے ہے (انك لمن المرسلین)۔ 
 "ایسی رسالت کے جو حقیقت اور تیرے صراط مستقیم پر ہونے سے منسلک ہے"۔ (على صراط مستقیم)۔ ؎1 
 پھر مزید ارشاد ہوتا ہے: "یہ وہ قرآن ہے جو خدائے عزیز و رحیم کی طرف سے نازل ہوا ہے"۔ (تنزيل العزیز الرحيم)۔ ؎2 
 خدا کے  "عزیز" ہونے کا ذکر اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے ہے کہ وہ اس قسم کی عظیم اور و شکست نا پذیر کتاب پر قدرت رکھتا ہے کہ جو تمام زمانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک معجزہ کی صورت میں اور باقی رہے گی اور کوئی طاقت اس کی عظمت کو دلوں سے نہیں کرسکتی۔ 
 خدا کی  "رحیمیت" کا ذکر یہ حقیقت بیان کرنے کے لیے ہے کہ اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ اس قسم کی عظیم نعمت انسانوں کو دے۔ 
 بعض مفسرین نے ان دو اوصاف کو دو قسم کے ردعمل کا بیان سمجھا ہے ہو ممکن ہے، اس کتاب آسمانی کے نزول اور اس رسول کے بھیجنے پر لوگوں کی طرف سے ظاہر ہو۔ 
 اگر وہ انکار پرتل جائیں تو خدا نے انہیں اپنی عزت و قدرت کے ساتھ تہدید کی ہے اور اگر اسے دل تسلیم اور قبول کرلیں تو خدا نے انہیں اپنی رحمت کی بشارت دی ہے۔ ؎3 
 اس بناء پر اس نے اپنی عزت و رحمت کو باہم ملا دیا ہے جن میں سے عزت ڈرا وے کی منظر ہے اور 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1    "علٰى صراط مستقیم" کی ترکیب کے بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے. بعض "جارومجرور" کو "مرسلین"  سے متعلق جانتے ہیں ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ "تیری رسالت جادۂ مستقیم پر ہے" بعض نے اسے خبر کے بعد خبر جانا ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ تو صراط مستقیم پر قائم ہے۔ بعض نے اسے موضع نصب میں "حال" ہونے کے معنی میں لیا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ تو مرسلین میں سے ہے جبکہ تو صراط مستقیم پر ہے (البتہ معنی کے لحاظ سے ان تینوں احتمالوں میں چنداں فرق نہیں ہے)۔ 
  ؎2   "تنزيل" کا منسوب ہونا اس بنا پر ہے کہ وہ فعل مقدر کا مفعول ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا : 
 نزل تنزيل العزيز الرحيم 
 اس جملے کی ترکیب کے بارے میں دوسرے احتمال بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ 
  ؎3   تفسیرکبیر، فخررازی زیر بحث آیت کے ذیل میں۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
رحمت بشارت کی مظہر ہے گویا اس نے اپنی عزت و رحمت کی بنا، پرعظیم آسمانی کتاب انسانوں کو دی ہے۔ 
 یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی پیغمبر یا آسمانی کتاب کی حقانیت کو قسم اور تاکید کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے؟ 
 اس سوال کا جواب خود زیر نظر آیات میں چھپا ہوا ہے کیونکہ ایک طرف تو قرآن کی حکیم ہونے کے ساتھ توصیف کی گئی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی حکمت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور اپنی حقانیت کی دلیل آپ ہے۔ 
 دوسری طرف یہ کہ پیغمبر کی صراط مستقیم پر گامزن ہونے کے ساتھ توصیف کی گئی ہے یعنی ان کی دعوت کے مطالب خود یہ بات بیان کرتے ہیں کہ ان کی راہ سیدھی ہے ۔ ان کی سابقہ زندگی کے حالات بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صراط مستقیم کے سوا ان کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ 
 ہم نے انبیاء کی حقانیت کے دلائل میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کی حقانیت کو معلوم کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی دعوت کے مضامین و مطالب کا بڑے غور کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔ اگر وہ فطرت عقل اور وجدان کے ساتھ ہم آہنگ ہوں اور اسی سطح پر ہوں کہ جو ایک انسان - بشری قوت کے ساتھ ممکن نہ ہوں ، اس کے علاوہ خود پیغمبر کی زندگی کے سابقہ حالات بھی ایسے ہوں کہ جو اس بات کی نشاندہی کریں کہ وہ امین و صادق ہے اور اس میں دروغ و فریب نہیں ہے تو یہ امور اس بات کے زندہ قرائن ہوں گے کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا ہے اور زیر بحث آیات حقیقت میں ان ہی دو مطالب کی طرف اشارہ ہیں . اس بناء پر یہ قسم اور دعوٰی ہرگز بے دلیل نہیں ہے۔ 

 اس سے قطع نظرفن مناظرہ کے لحاظ سے، ہٹ دھرم منکرین کے دلوں میں نفوز کے لیے جس قدر زیادہ محگم ، زیادہ قاطع اور بیشتر تاکید کے ساتھ عبارتیں آئیں گی اتنا ہی وہ ان پراثرانداز ہوں گی ۔ 
 پھر ایک اور سوال سامنے آتا ہے کہ اس جملے میں ذات پیغمبرؐکو کیوں مخاطب کیا گیا ہے اور مشرکین  اور عام لوگوں کو کیوں نہیں؟ 
 اس کا جواب یہ ہے کہ مقصد یہ تھا کہ اس بات کی تاکید کی جائے کہ تو حق پر اور صرط مستقیم پرہے، چاہے وہ قبول کریں یا نہ کریں۔ بنا بریں تو اپنی عظیم ذمہ داری کی ادائیگی میں کوشاں رہ اور مخالفین کے قبول نہ کرنے کی وجہ سے فعالیت میں ہرگز کمی نہ آنے دے۔ 
 بعد والی آیت نزولِ ان کے اصل مقصد کو اس طرح پیش کرتی ہے: 
 "ہم نے تجھ پرقرآن نازل کیا ہے تا کہ تو اس قوم کو خبردار کرے کہ جن کے آباءاجداد کو خبردار نہیں کیا گیا ۔ اس بناء پر وہ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں"۔ ـلتنذر قومًا ما انذراٰباؤهم فهم غافلون)۔ ؎1 
 یقینا اس قوم سے مراد وہی مشرکین عرب ہیں: ہوسکتا ہے یہ کہاجائے کہ کوئی قوم انذار کرنے والے کے بغیر نہیں تھی اور زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہی ، اس کے علاوہ سورہ فاطر کی آیہ 24 میں یہ بیان ہوا ہے کہ:
  وان من امة الاخلا فيهانذیر 
  "کوئی امت ایسی نہیں تھی کہ اس میں کوئی ڈرانے والانہ آیا ہو"۔ 
 اس کا جواب یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں ایسا عظیم اور آشکار ڈرانے والا پیغمبرمراد ہے کہ جس کی شہرت ہر جگہ بنی ہوئی ہو۔ ورنہ مشتاق اور طالبان حق کے لیے ہر زمانے میں حجت الٰہی موجود ہوتی ہے ، اور اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ کے دور اور پیغمبراسلامؐ کے درمیانی عرصہ کو فرت کا زمانہ شمار کرتے ہیں تو یہ اس معنی میں نہیں کہ ان کے لیے حجت خدا مطلقًا موجود ہی نہیں تھی، بلکہ یہ عظیم اور اولوالعزم پیغمبروں کے حال سے فرت کازمانہ تھا۔ 
 امیرالمومنین علیؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: 
  ان الله بعث محمدًا وليس احد من العرب يقرء كتابًا ولايدعی نبوة - 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1          اس بارے میں کہ اوپر والی آیت میں "ما" نافیہ ہے یا کوئی اور مختلف احتمال ذکر کیے گئے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے اسے "نافیہ"  قرار دیا ہے اور ہم نے بھی مذکورہ بالا تفسیرمیں یہی معنی اپنایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً فهم غافلون" اس معنی پر گواہ ہے کیونکہ انداز کرنے والے کا نہ ہونا غفلت کا سبب بنتا ہے ۔ سورہ سجدہ کی آیہ 3 بھی اسی کی بات پر شاہد ہے ، جہاں قرآن کہتا ہے :
 لتنذر قومٰا ما اتاهم م نذير من قبلك لعلھم یھتدون 
 مقصد یہ ہے کہ "تُو ایسی قوم کو انذار کرے کہ جس کے لیے مجھ سے پہلے کوئی انذار کر نے وا لی نہیں آیا شاهد کہ وہ ہدایت حاصل کریں"۔ 
 بعض "ما" کو موصولہ سمجھتے ہیں کہ جس سے اس کا مفهوم یہ ہوگا: 
 "وہ انہیں اسی طرح انذار کرتا ہے کہ جس طرح ان کے آباؤ اجدا د کو انذار کیا گیا تھا: 
 بعض نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ "ما" مصدریہ ہے اور اس لحاظ سے ا س جملہ کا معنی اس طرح ہوگا: 
 تاکہ تُو اس قوم کو انذار کرے اسی مقدار میں کہ جتنا ان کے آباؤاجداد ڈرائے گئے تھے "۔ 
 لیکن یہ دونوں احتمال ضعیف ہیں ۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 " خدانے ایسے وقت میں محمدؐ کو مبعوث فرمایا کہ جس وقت عرب میں کوئی بھی کتاب آسمانی نہیں پڑھتا تھا اور نہ ہی کسی کو دعوی نبوت تھا"۔ (نہج البلاغہ خطبہ 33 ، 104)۔
 بہرحال نزول قرآن کا مقصد یہ تھا کہ غافل اور سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کیا جائے ، جن خطرات نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے انہیں ان کی طرف متوجہ کیا جائے اور جن گناہوں اور شرک وفساد میں وہ آلودہ ہیں انہیں ان سے نکلنے کی دعوت دی جائے۔ 
 ہاں! قرآن تو آگاہی و بیداری کی ایک بنیاد ہے اور قلب و روح کو پاک کر دینے والی کتاب ہے۔ 
 اس کے بعد قرآن کفروشرک کے سرغنوں کے بارے میں ایک پیشگوئی کے طور پر کہتا ہے: "ان میں سے اکثر کے اوپر وعده الٰہی حق بن کر نافذ ہو چکا ہے ، پس وہ  ایمان نہیں لائیں گے"۔ (لقدحق القول على اکثرهم فهم لا يؤمنون)۔ 
 "قول" سے یہاں کیا مراد ہے، اس ضمن میں مفسرین نے مختلف احتمال ذکر کیے ہیں کلین ظاہرًا اس سے مرادشیطان کے پیرو کاروں کے لیے جہنم کے عذاب کا وعدہ ہی ہے ۔ جیسا کہ سورہ سجدہ کی آیہ 13 میں ہے کہ: 
  ولكن حق القول من لاملئن جھنم من الجنة والناس أجمعين 
  "لیکن میری بات ان کے لیے نافذ ہوچکی ہے کہ میں دوزخ کو جن وانس سے بھردوں گا"۔ 
 سوره زمر کی آیہ 71 میں بھی ہے :
  لكن حقت كلمة العذاب على الکافرين 
  "لیکن عذاب کا حکم اور وعدہ کافروں کے بارے میں حق ہوکر نافذ ہو چکا ہے"۔ 
 بہرحال یہ ایسے افراد کے بارے میں ہے کہ جنہوں نے خدا سے ہر قسم کا ربط منقطع کرلیاتھا ، ہرقسم کے رشتے توڑ لیے تھے اور اپنے لیے ہدایت کے تمام دریچے بند کرلیے تھے اور ہٹ دھرمی اور عناد کو آخری حد تک پہنچا دیا تھا۔ ہاں! یہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور ان کے لیے بازگشت کی کوئی راہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پیچھے کے تمام پل خود تباہ کر دیئے ہیں - 
 حقیقت یہ ہے کہ انسان اسی صورت میں اصلاح پذیر اورقابل ہدایت ہے جبکہ اس نے برے اعمال اور اپنے پست اخلاق کے ذریعے اپنی فطرت توحیدی کو بالکل پامال نہ کردیاہو . ورنہ مطلق تاریکی اس کے دل پر غالب آجائے گی اور امید کے سارے دریچے اس بند ہوجائیں گے۔ 
 ضمنی طور پر اس بات سے واضح ہوگیا کہ اس اکثریت سے مراد کہ جو ہرگز ایمان نہیں لائے گی شرک و کفر کے سرغنے ہیں کہ جن میں سے کچھ تو اسلامی جنگوں میں شرک اور بت پرستی کی حالت میں مارے گئے اور کچھ جو باقی رہ گئے تھے آخر عمر تک دل سے ایمان نہ لائے ورنہ مشرکین مکہ کی اکثریت توفتح مکہ کے بعد: 
  يدخلون في دين الله أفواجًا (نصر 20)۔
  کے مطابق گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہو گئی تھی۔ 
  اس کے بعد کی آیات کے مطابق ان کے سامنے اور پیچھے دیوار موجود ہے اور وہ نابینا ہیں اور آیہ کی تصریح بھی کرتی ہے کہ ان کے لیے انذار کرتا اور نہ کرنا یکساں ہے۔ یہ آیت بھی اسی مذکورہ معنی  کی شاہد ہے۔ ؎1 
 بہرحال بعد والی آیت اس اثر ناپذیرگردہ کے تعارف میں ہے۔ ان کے پہلے تعارف میں کہتی ہے:  "ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں کہ جوان کی ٹھوڑیوں تک آئے ہوئے ہیں اور ان کے سروں کو اوپر کیا ہواہے"۔ (انات جعلنا في اعناقهم واغلا لًا فهي الى الاذقان فهم مقمعون)۔
 "اغلال"  "غل"  کی جمع ہے اور اس میں مادہ "غل" سے ایسی چیز کے معنی میں ہے کہ جو چند چیزوں کے درمیان موجود ہو، مثلًا وہ جاری پانی کہ جو درختوں کے درمیان سے گزرتا ہے اسے "غلل" (بروزن "عمل") کہتے ہیں اور "غل" وہ حلقہ تھا کہ جے گردان یا ہاتھ میں ڈالتے تھے پھر اسے زنجیر کے ساتھ باندھ دیتے تھے اور چونکہ گردن یا ہاتھ اس کے درمیان ہوتا تھا لہذا یہ لفظ اس کے بارے میں استعمال ہوا ہے ۔ کبھی وہ طوق جو گردن میں ہوتے تھے انہیں علٰیده زنجیر کے ساتھ باندھاجاتاتھا اور ہاتھ کے حلقے علیحدہ ہوتے تھے ،لیکن کھبی کھبی ہاتھوں کو حلقوں میں ڈال کر اس حلقے کے ساتھ کے جو گردن میں ہوتاتھا باندھ دیتے تھے اور قیدی کو انتہائي اذیت دی جاتی تھی۔ 
 نیز پیاس یا شدت غم اور غصے کی حالت کو "غلہ"  (بروزن "قلہ") کہا جاتا ہے تو یہ بھی اس حالت کے انسان کے دل اور جسم پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے ہے ۔  اصولًا ماده "غل" (بروزن "جد") بھی  داخل ہونے اور داخل کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ اسی سے گھر کے اناج اور زراعت وغیرہ کو بھی "غلہ" کہتے ہیں۔ ؎2
 ہر صورت میں جب طوق "غل" گردان میں ڈالا جاتا تھا تو وہ تھوڑی تک پہنچا ہوا ہوتا تھا اور سر کو اوپر کرودیتا تھا اور جب قیدی اور اسیر اس کی وجہ سے بہت سختی میں ہوتا تھا تو اپنے گرد و پیش کو بھی نہیں دیکھ  سکتا تھا۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1       جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ "اکثرھم" کی ضمیر "قوم" کی طرف کہ جو اس سے پہلے ہے نہیں لوٹتی بلکہ قوم کے سرغنوں کی طرف لوٹتی ہے اور اس کی شاہد اس کے آیات ہیں۔ 
  ؎2    مفردات راغب اور قطرالمحیط اورمجمیع البحرین ( مادہ "غلل") .
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 ہٹ دھرم بت پرستوں کی حالت کی یہ تشبیہ کتنی عمدہ ہے کہ جو ایسے انسانوں کے سا تھ دی گئی ہے کہ جنہوں نے "تقلید" کا طوق اور بیہودہ عادات و رسوم کی زنجیر و طوق کو اپنی گردان اور ہاتھ پاؤں باندھ لیا ہے ، اور ان کے وہ طوق ایسے ہیں کہ انہوں نے ان کے سروں کو اوپرکررکھا ہے اور حقائق کو دیکھنے سے محروم کردیا ہے وہ ایسے قیدی ہیں کہ نہ تو حرکت کر سکتے ہیں اور نہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ؎1 
 بہرحال زیر بحث آیت اس سے بے ایمان گروہ کے حالات دنیا کی ایک تصویر ہے اور آخرت میں ان کے حالات کا ایک بیان بھی ہے ، جواس جہان کی کیفیت کا ایک مرقع ہے۔ اور اگر یہ لفظ ماضی کی شکل میں ذکرہ ہوا ہے تو اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی کیونکہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں آہندہ ہونے والے مسلمہ اور یقینی واقعات صیغہ ماضی میں بیان ہوئے ہیں ۔ یہ وہی چیز ہے کہ جو ادبا ء کی زبان میں معروف ہے کہ "متحقق الوقوع مضارع ، ماضی کی شکل اختیار کرلیتا ہے" اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں معانی کی طرف اشاره ہو، ان کی اس عالم میں حالت کے بارے میں بھی اور دوسرے جہان کے بارے میں بھی۔ 
 مفسرین کی ایک جماعت نے زیر بحث آیت اور اس کے بعد کی آیت کی نئی شان نزول بیان کی ہیں ، ان کے مطبق یہ "ابوجہل" کے بارے میں یا قبیلہ بنی مخزوم یا قریش کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے قتل کا بارہامصمم ارادہ کیا لیکن خدا نے انہیں معجزانہ طور پہ اس کام سے باز رکھا اور اس حساس لحمے میں جب کہ وہ پیغمبر اکرم کے نزدیک پہنچ کریہ چاہتے تھے کہ آپ پر ضرب كاری لگائیں ، تو ان کی آنکھیں بے کارہوگئیں یا حرکت کی طاقت ان سے سلب ہوگئی۔ ؎2 
 لیکن یہ تمام بیان کردہ شان نزول آیت کے مفہوم کی عمومیت اور اس کے معنی کی وسعت سے مانع نہیں ہے اور یہ کفر کے تمام سرغنوں اور ہٹ درهم متعصب لوگوں کے بارے میں ہے۔ ضمن طور پر ہم نے جو کچھ "فهم لا يؤمنون" کی تفسیر میں بیان کیا ہے یہ اس کی ایک تائید ہے کہ اس سے مرا د مشرکین کی اکثریت نہیں ہے بلکہ شرک ، کفر اور نفاق کے سرغنوں کی اکثریت مراد ہے ۔
 بعد والی آیت میں انہیں افراد ایک اور صفت بیان کی گئی ہے اور ان کی اثر ناپذیری کے عوامل کی ایک بولتی ہوئی تصویر ہے۔ فرمایا گیا ہے: "ہم نے ایک دیوار تو ان کے سامنے بنا دی ہے اور ایک دیواراُن 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    ہم نے جو کچھ سطوربالا میں بیان کیا ہے اس سے معلوم ہواکہ "ھی" - کی ضمیر (فھي الى الاذقان) میں (اغلال) کی طرف لوٹتی ہے کہ وہ ان کی ٹھوڑی تک کھیچے ہوئے ہیں اور "فهم مقمحون" اس پر تفریع ہے اوریہ جو ایک جماعت نے خیال کیا ہے کہ "ھی"  کی ضمیر (ایدی) "ہاتھوں" کی فطرت لوٹتی ہے کہ جس کا آیہ میں ذکرنہیں ، بہت ہی بعید نظرآتا ہے۔ 
  ؎2     تفسیر آلوسی ، جلد 22 ص 199 - 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
کے پیچھے" (وجعلنا من بين ايديهم سدًا ومن خلفهم سدًا )- 
 وہ ان دونوں دیواروں کے درمیان اس طرح سے محصور ہو کر رہ گئے ہیں کہ نہ تو آگے جانے کے لیے ان کے پاس کوئی راستہ ہے اور نہ ہی واپس لوٹنے کے لیے " اور اس حالت میں ہم نے ان کی آنکھوں کوڈھانپ دیا ہے ، لہذا وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے" (اغشيناهم فهم لا يبصرون) - 
 کیسی عجیب بولتی ہوئی تصویر ہے ۔ ایک طرف سے تو وہ ایسے قیدیوں کی مانند ہیں اور جو طوق و زنجیرمیں جکڑے ہوئے ہیں اور دوسری طرف سے گردن میں پڑے ہوئے طوق کا حلقہ اتنا بڑا ہے کہ اس نے ان کے سروں کو آسمان کی طرف اٹھا رکھا ہے اور وہ اپنے اطراف کی کوئی چیز نہیں دیکھ پاتے۔ 
 ایک دیوار نے ان کے آگے سے اور ایک نے پیچھے سے محاصرہ کیا ہوا ہے اور آگے اور پیچھے کا راستہ ان کے لیے بند کردیا ہے ۔
 نیز ان کی آنکھیں بھی بند کر دی گئی ہیں اور دیکھنے کی بصارت بے کار ہوگئی ہے۔ 
 خوب غور کریں کہ جو شخص ایسی کیفیت سے دوچارہو وہ کیا کرسکتا ہے ، کیا سمجھ سکتا ہے، کیا دیکھ سکتا ہے اور کس طرح قدم بڑھا سکتا ہے؟ خود وغرض و خود بین مستکبرین اندھے ، بہرے مقلدین اور ہٹ دھرم متعصبین کی کیفیت حقائق کے سامنے ایسی ہی ہے ۔
 اسی بناء پر آخری زیر بحث آیت میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے؛" ان کے لیے برابر ہے چاہے تو انہیں ڈرائے یا نہ ڈرائے، وہ ایمان نہیں لائیں گے" (وسواء عليهم ء انذرتهم ام لم تنذ رهم لايؤمنون) - 
 تیری گفتگو چاہے جتنی بھی پُرتاثیر ہو اور وحی آسمانی چاہے جس قدر بھی مؤثر ہو ، جب تک دلوں کی زمین ابل اور تیار نہ ہراثرنہ کرے گی ۔ اگر آفتاب عالم تاب ہزاروں سال شوره زار پر چمکتا رہے اور پُربرکت بارشیں اس پر برستی رہیں اور نسیم بہار مسلسل اس کے اوپر سے گزرتی رہے ، خس و خاشاک کے سوا اس سے کچھ حاصل نہ ہو گا کیونکہ فاعل کی فاعلیت کے ساتھ ساتھ قابل کی قابلیت بھی شرط ہے۔