Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2- واپسی کی کوئی راہ نہیں

										
																									
								

Ayat No : 36-38

: فاطر

وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ ۳۶وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ ۳۷إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ۳۸

Translation

اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے آتش جہّنم ہے اور نہ ان کی قضا ہی آئے گی کہ مرجائیں اور نہ عذاب ہی میں کوئی تخفیف کی جائے گی ہم اسی طرح ہر کفر کرنے والے کو سزا دیا کرتے ہیں. اور یہ وہاں فریاد کریں گے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریں گے اس کے برخلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرسکتے تھے اور تمہارے پاس تو ڈرانے والا بھی آیا تھا لہٰذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہے. بیشک اللہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا ہے اور وہ دُلوں کے چھپے ہوئے اسرار کو بھی جانتا ہے.

Tafseer

									 2- واپسی کی کوئی راہ نہیں : 
         یقینًا قیامت اور موت کے بعد کی زندگی دنیا کی نسبت ایک مرحله تکامل و ارتقاء ہے اور وہاں سے اس جہان کی طرف بازگشت کوئی معقول بات نہیں ہے۔ کیا هم گزرے ہوئے کل کی طرف لوٹ سکتے ہیں ؟ کیا نومولود بچہ جنینی دور کی طرف لوٹ سکتا ہے؟ کیا وہ پھل جو شاخ سے جدا ہوگیا ہے ممکن ہے کہ پھر شاخ کی طرف لوٹ جائے؟ اسی بناء پر آخرت والوں کے لیے دنیا کی طرف بازگشت ممکن نہیں ہے۔ 
 اگر بالفرض ممکن بھی ہو تو کبھی فراموش کار انسان اپنی اس گزشتہ روش کو برقرار رکھے گا۔ 
 دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، ہم نے بارہا خود اپنے آپ کو آزمایا ہے کہ خاص حالات میں جبکہ ہم کسی تنگی یا سختی میں گرفتار ہوتے ہیں ، تو اس وقت اپنے خدا کے ساتھ مخلصانہ عہد و پیمان کرتے ہیں، لیکن جس وقت وہ حالات بدل جاتے ہیں تو ہم تمام قول و قرار بھول جاتے ہیں ، سوائے ان لوگوں کے جو سچ مچ اپنے اندر ایک گہری تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں ۔ ایسی تبدیلی نہیں کہ جو حالات کے ساتھ مشروط ہو۔ 
 یہ حقیقت قران مجید کی متعدد آیات میں بیان ہوئی ہے۔ سوره انعام کی آیہ 28 میں قرآن صريحًا ایسے افراد کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا ہے: 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    عالم کی بزرگوار مرحوم کاشف انعطاء کی " اصل الشیعہ و اصولھا"۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 " اگر یہ پلٹ بھی جائیں تو ان کا طرز عمل دہی پہلے والا ہوگا"۔ 
 لیکن سوره اعراف کی آیہ 53 میں صرف اسی بات پر قناعت کی گئی ہے کہ وہ زیاں کار لوگ ہیں لیکن ان کی بازگشت کی درخواست کا صراحت کے ساتھ جواب نہیں دیا گیا : 
  فهل انا من شفعاء فيشفعوا لنا اونردفنعمل غيرالذي كنا نعمل قد خسروا 
  انفسھم وضل عنهم ما كانوا يفترون ۔ 
  "کیا آج ہمیں کوئی شافعی مل جائیں گے کہ جو ہماری شفاعت کریں یا پھر ہمیں اجازت ملے 
  کہ ہم واپس چلے جائیں اور جو عمل ہم پہلے کیا کرتے تھے اس کے بجائے نیک عمل انجام دیں؟   
  انہوں نے اپنے وجود کا سرمایہ گنوادیا ہے اور اپنا ہی نقصان کیا ہے اور وہ سارے جھوٹے 
  معبود جو انہوں نے گھڑرکھے تھے گم ہو گئے اور ان کے بناوٹی معبودوں کا کوئی نام و نشان 
  وہاں نہیں ملے گا"۔ 
 یہی مطلب سوره مومنون کی آیہ  107 ، 108 میں دوسری طرح بیان ہوا ہے: 
  ربنا اخرجنا منها فان عدنا فانا ظالمون قال اخسئوا فيها ولا تكلمون ۔
  پروردگارا ! ہمیں دوزخ سے نکال ، اگر ہم پلٹ گئے (اور پھر انہیں اعمال کو دہرایا) توپھر 
  ہم ظالم ہیں ،وہ ان کے جواب میں فرمائے گا : دور ہو جائو اور مجھ سے بات نہ کرو"۔ 
 بہرحال یہ ایک بے بنیاد تقاضا ہے اور محال آرزو ہے۔ شاید وہ بھی کم و بیش یہ جانتے ہیں لیکن شدت بیچارگی کی وجہ سے اس تقاضے کو دہرائیں گے لہذا آج ہی  جبکہ ہمیں موقع میسر ہے ہم جو کچھہ چابتے ہیں وہ انجام دینا چاہیئے ۔