1- "ذات الصدور" سے کیا مراد ہے؟
وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ ۳۶وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ ۳۷إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ۳۸
اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے آتش جہّنم ہے اور نہ ان کی قضا ہی آئے گی کہ مرجائیں اور نہ عذاب ہی میں کوئی تخفیف کی جائے گی ہم اسی طرح ہر کفر کرنے والے کو سزا دیا کرتے ہیں. اور یہ وہاں فریاد کریں گے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریں گے اس کے برخلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرسکتے تھے اور تمہارے پاس تو ڈرانے والا بھی آیا تھا لہٰذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہے. بیشک اللہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا ہے اور وہ دُلوں کے چھپے ہوئے اسرار کو بھی جانتا ہے.
چند اهم نکات
1- "ذات الصدور" سے کیا مراد ہے؟
قرآن مجید کی دس سے زیادہ آیات میں بعینہ یہی قبلہ آیا ہے یا گھوڑے سے فرق کے ساتھ یہ بات آئی ہے
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 مجمع البیان ، زیربحث آیت کے ذیل میں ۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ان الله عليم بذات الصدور .
ذات کا لفط کہ جس کا مذکر "ذو" ہے اصل میں "صاحب" کے معنی میں ہے۔ اگرچہ فلاسفہ کی تعبیرات میں، عین و حقیقت اور گوہر اشیاء کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،لیکن مفردات میں راغب کے قول کے مطابق یہ ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جو کلام عرب میں موجود نہیں ہے۔ اس بنا پر "ان الله عليم بذات الصدور" کا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا دلوں کے صاحب و مالک سے باخبر ہے"۔ یہ جملہ انسا نوں کے عقائدونیات کے بارے میں ایک لطیف کتایہ ہے کیونکہ عقیدے اور نیتیں جس وقت دل میں گھر کرلیں تو گویا وہ قلب انسان کی مالک ہوجاتی ہیں اور اس پر حکومت کرتی ہیں اور اسی بناء پر یہ عقائدونیات انسانی دل کے صاحب و مالک شمار ہوتے ہیں۔
یہ وہی بات ہے کہ جس سے جس سے بعض بزرگ علماء نے استفادہ کرتے ہوئے اسے اس عبارت میں مجسم کیا ہے:
الإنسان أراثه وافكاره، لاصورته واعضائه۔
"انسان تو بس اس کے عقائد و افکار ہی ہوتے ہیں ، نہ کہ اس کی شکل و صورت اور
اعضاء بدن"۔ ؎1