جہاں غم ھے نہ تھکان
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ۳۳وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ۳۴الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ ۳۵
یہ لوگ ہمیشہ رہنے والی جنّت میں داخل ہوں گے انہیں سونے کے کنگن اور موتی کے زیورات پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس جنّت میں ریشم کا ہوگا. اور یہ کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم سے رنج و غم کو دور کر دیا اور بیشک ہمارا پروردگار بہت زیادہ بخشنے والا اور قدرداں ہے. اس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے ایسی رہنے کی جگہ پر وارد کیا ہے جہاں نہ کوئی تھکن ہمیں چھو سکتی ہے اور نہ کوئی تکلیف ہم تک پہنچ سکتی ہے.
تفسیر
جہاں غم ھے نہ تھکان
جو کچھ گزشتہ آیات میں گزرچکا ہے، یہ آیات حقیقت میں اسی کا ایک نتیجہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
"نیکیوں میں پیش قدمی کرنے والوں کے لیے دائمی بہشت کےباغات ہیں جس میں وہ سب کے سب داخل ہوں گے"۔ (جنات عدن يدخلونها)۔ ؎1
"جنات" "جنۃ" کی جمع ہے اور باغ کے معنی میں ہے اور"عدن" "استقراروثبات" کے معنی ہے اور معدن کو اس وجہ سے معدن کہتے ہیں کیونکہ وہ مختلف دھاتوں اور جواہرات کے استقرار کي جگہ ہے۔ اس بناء پر "جنات عدن" کا معنی ہے "بہشت کے ہمیشہ رہنے والے باغات"۔
بہرحال یہ تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بہشت کی عظیم نعمتیں جاودانی اور قائم رہنے والی ہیں اور مادی دنیا کی نعمتوں کی طرح ان کے بارے میں زوال کا خوف نہیں ہے بہشت میں رہنے والوں کے لیے بہشت کا ایک ہی باغ نہیں ہوگا بلکہ بہشت کے باغات ان کے پاس کریں گے۔
اس کے بعد جنت کی نعمتوں کے تین حصوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے بعض مادی اور ظاہری پہلو رکھتے ہیں ، بعض روحانی اور باطنی اور ایک حصہ ہر قسم کے مزاحم کی نفی کرتا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:- "نیکیوں میں بڑھ جانے والے یہ لوگ بہشت جاودانی میں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ ہوں گے اور وہاں ان کا لباس ریشم کا ہوگا"۔ (يحلون فيها من اساور من ذهب ولؤلؤًا ولباسهم فيهاحریر) -
انہوں نے اس دنیا میں اس کے زرق برق سے بےاعتنائی برتی تھی اور خود کو سونے اور زیورات کا اسیر نہیں بنایا تھا۔ محروم لوگ سوتی لباس سے بھی محروم تھے تو انہوں نےبھی فاخره لباس نہیں پہنا تھا خدا اسی چیز کی تلافی کے طور پر انہیں دوسرے جہان میں بہترین لباس اور زیورپہنائےگا۔
انہوں نے اس جہان ظاہر میں اپنے آپ کو راہ خدا میں خیرات کے ساتھ آراستہ کیا تھا، خدا بھی دوسرے جہان میں کہ جوتجسم اعمال کا جہان ہے انہیں طرح طرح کے زیورات سے آراستہ کرے گا۔
ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہمارے الفاظ اس جہان کی محدود زندگی کے لیے وضع کیے گئے ہیں ۔یہ قیامت کے منظر عالم سے مفاہیم ہرگز بیان نہیں کرسکتے ۔ ان نعمتوں کے بیان کے لیے کسی اور طرح کی الف ۔ با اور کوئی دوسری زبان اور لغت کی ضرورت ہے لیکن بہرحال اس غرض سے کہ اس جہان میں مقید افراد کو ان عظیم نعمتوں کا ایک تصور پیش کرنے کے لیے انہی ناچیز اور نارسا الفاظ سے مدد لینا پڑتی ہے۔
اس مادی نعمت کا ذکر کرنے کے بعد ایک خاص روحانی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 جنات عدن ...... ممکن ہے کہ مبتدائے محزوف کی خبر ہو اور تقدیر میں "جزاهم جنات عدن .. " یا " اولئك لهم جنات عدن » تھا (نظیر آیہ 13 سورہ کہف) بعض نے اسے فضلل کبیر سے بدل سمجھا ہے۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ "فضل کبیر" کتاب آسمانی کی میراث کی طرف اشارہ ہے لہذا "جنت" اس سے بدل نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ ہم مسبب کو سبب کا جانشین بنالیں۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
گیا ہے: "وہ کہیں گے کہ حمد وستائش اس خدا کے ساتھ مخصوص ہے کہ جس نے ہم سے غم دور کردیا" (وقالوا الحمد لله الذي اذهب عنا الحزن)۔
وہ اس عظیم نعمت کے لیے خدا کی حمد کرتے ہیں کہ جو انہیں نصیب ہوئی ہے اور خدا کے لطف کی برکت سے ان کی زندگی سے غم کے تمام عوامل دور ہو گئے ہیں اور ان کی روح کا آسمان رنج وغم کے تاریک بادلوں سے پاک ہوگیا ہے ۔ نہ تو انہیں خدا کے عذاب کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی مرگ و فنا سے کوئی وحشت۔ نہ دل کی بے اطمینانی کی کوئی وجہ ہے اور نہ بدخواہوں کی آزار نہ جابروں کا دباؤ ہے اور نہ ہی بُروں اور کم ظرفوں کی ہم نشینی ۔
بعض مفسرین نے اس حزن کو دنیاوی غموں کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو میدان حشر میں انہیں اپنے عمل کے نتیجہ کے بارے میں ہوگا ۔ یہ دونوں تفاسیر ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تضاد نہیں رکھتیں اور دونوں ہی آیت کے معنی میں جمع ہوسکتی ہیں۔
"حزن" (بروزن "عدم") اور "حزن" (بروزن "مزد"" جیسا کہ لغت اور تفسیر کی بہت سی کتابوں میں آیا ہے دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ اصل میں یہ زمین کی ناہمواری کے معنی میں ہے اور چونکہ غم و اندوه و روح انسانی کو ناہموار اور سخت کر دیتے ہیں اس لیے یہ تعبیر اس معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ ؎1
اس کے بعد بہشتی مومنین مزید کہیں گے کہ: "ہمارا پروردگار غفوروشکور ہے (ان ربنا لغفورشکور).
اپنی غفوریت کی صفت کی بناء پر اس نے لغزشوں اور گناہوں کا بھاری غم دور کردیا ہے اور اپنی شکوریت کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتیں کہ جن کے اوپر کبھی بھی غم و اندوہ کا منحوس سایہ نہیں پڑتا ہیں عطا کی ہیں۔
ہمارے بہت سے گناہوں کو اس کے غفران نے چھپا لیا ہے اور ہمارے حقیراور تھوڑے سے اعمال کا اپنی شکوریت کی بنا پر ہمیں بہت زیادہ اجر اور صلہ دیا ہے۔
آخرمیں آخری نعمت کا بیان ہے۔ ان کا قول نقل کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :حمد وستائش اس خدا کے لیے ہے کہ جس نے اپنے فضل سے ہمیں اس ابدی ٹھکانے میں جگہ دی کہ جس میں بے رنج وغم ہے ۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تاج العروس میں بعض علماء ادب سے منقول ہے کہ جس وقت یہ لفظ رفع اور جر کے اعراب کے ساتھ استعمال ہو تو پھر (ز) کے سکون کے ساتھ اس کا تلفظ ہوتا ہے اور جب نصب اور زبر کی صورت میں ہو تو پھر (ز) کی فتح کے ساتھ ۔ لیکن ادبیات عرب میں یہ امر ایک قانون کی صورت میں ہمیشہ کے لیے نہیں ہو سکتا اگرچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کیونک قرآن مجید میں بعض مواقع پر حالت نصب میں بھی (ز )کے سکوان کے ساتھ آیا ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور نہ ہی خستگی اور تھکان" (الذى احلنا دار المقامة من فضله لايمسنافیها نصب ولايمنا فيها لغوب)۔
ایک طرف تو وہ ٹھہرنے اور قیام کی جگہ ہے اور ایسا نہیں ہے کہ انسان ابھی اس ماحول سے آشنا ہورہا ہوگا اور اس کے ساتھ دل لگارہا ہو کہ کوچ کا نقارہ بج جائے گا۔
دوسری طرف اس کے باوجود کہ اس کی عمر طولانی اور ابدی ہوگی اور اس قسم کی مدت میں قاعدتًا تھکان تکلیف اور زحمت ہوتی لیکن وہاں ایسا نہیں ہوگا ۔ کیونکہ ہر روز نئی نعمت اورنعمتوں کی تازہ بہار اور پرروردگار کےجلوے اہل بہشت کو نظر آئیں گے۔
"نصب" (بروزن "حسب") مشقت اور رحمت کے معنی میں ہے اور "لغوب" کو بھی بہت سے ارباب لغت اور مفسیرین نے اسی معنی میں لیا ہے جبکہ بعض نے ان دونوں کے درمیان یہ فرق کیا ہے کہ "نصب" جسمانی مشقتوں اور "لغوب" روحانی تھکان کو کہتے هیں۔۔ ؎1
بعض نے "لغوب" کو بھی اس سستی اور تھکاوٹ کے معنی میں سمجھا ہے کہ جومشقت اور رنج سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح سے "لغوب" "نصب" کا نتیجہ ہوگا۔ ؎2
گویا وہاں نہ تومشقت جسمانی کے عوامل موجود ہیں اور نہ ہی روحانی رنج و تکلیف کے اسباب کی کوئی خبر ہے۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 ، ؎2 تفسییر روح المعانی جلد 22 ص 184 زیربحث آیت کے ذیل میں -
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------