Tafseer e Namoona

Topic

											

									  کتاب الہی کے پاسدارکون ھیں؟

										
																									
								

Ayat No : 31-32

: فاطر

وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ۳۱ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ۳۲

Translation

اور جس کتاب کی وحی ہم نے آپ کی طرف کی ہے وہ برحق ہے اور اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور بیشک اللہ اپنے بندوں کے حالات سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے. پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا کہ ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خدا کی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور درحقیقت یہی بہت بڑا فضل و شرف ہے.

Tafseer

									
  کتاب الہی کے پاسدارکون ھیں؟ 

 قران مجید کی گواہی کے مطابق خداوند تعالٰی نے امت اسلامیہ کو اتنی عظیم نعمتیں عطا کی ہیں کہ جن میں سے زیادہ اہم خدا کی عظیم میراث قرآن مجید کی ہے۔ 
 اس نے امت مسلہ کو ساری امتوں پر برتری عطا کی اور اسے پرنعمت دی لیکن انہیں اپنے لطف خاص سے نوازا ہے تو ان پر اسی نسبت سے ذمہ داری بھی عائد کی ہے۔ 
 وہ صرف اسی صورت میں اس میراث عظیم کی پاسداری کا حق ادا کر سکتے ہیں کہ اپنے آپ کو "سابق بالخیرات" کی صف میں داخل کرنے کے قابل بنالیں یعنی تمام امتوں سے نیکیوں کی انجام دہی میں آگے بڑھ جائیں علم و دانش کے حصول میں سبقت حاصل کریں اور تقوی و پرہیزگاری میں عبادت و خدمت خلق میں ، جہاد و کوشش میں ، نظم و ضبط اور حساب و کتاب میں اور ایثار و فداکاری میں سب سے بڑھ کر رہیں ۔ اس صورت کے علاوہ وہ اس کا حق ادا نہ کرسکیں گے۔ 
 خصوصًا  "سابق بالخيرات" کی تعبیراتنا وسیع اور کشادہ مفہوم رکھتی ہے کہ جو زندگی کے تمام مثبت پہلوؤں میں اور نیک اعمال میں تقدم حاصل کرنے کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ 
 ہاں ! اس قسم کی میراث کے حامل ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ 
 یہاں تک کہ وہ لوگ جو اس عظیم آسمانی عنایت کی طرف پشت کر لیتے ہیں اور اس کی حرمت کا خیال نہیں رکھتے، "ظالم النفسۃ" کا مصداق ہیں اور خود اپنے ہی اوپر ظلم کرتے ہیں کیونکہ اس کے مطالب ان کی نجات ، خوش و بختی اور کامیابی کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ۔ وہ آدمی کہ جوکسی شفا بخش نسخہ کو استعمال نہیں کرتا اس نے اپنے درد اور تکلیف کے باقی رہنے میں خود کمک کی ہے اور جو شخص کسی تاریک راستے کو طے کرنے کے موقع پر اپنے روشن چراغ کو توڑ دیتا ہے وہ خود کو بے راہی اور ہلاکت کے گڑھے کی طرف لےجاتاہے۔ کیونکہ خدا سب سے بے نیاز اورمستغنی ہے۔ 
 اس کے باوجود اس گنہگار گروہ کو حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ وہ بھی زیربحث آیت کے مضمون کے مطابق "پروردگار کے برگزیدہ لوگوں" کے زمرے میں آتا ہے اور یہ استعداد رکھتا ہے کہ مرحلہ ظلم کو پس پشت ڈال کر مقتصد کے مرحلے میں قدم رکھے اور وہاں سے پرواز کرکے "سابق بالخيرات" کے اوج افتخار پرجاپنہچے کیونکہ وہ بھی فطرت اور روحانی ساخت کے لحاظ سے حق تعالٰی کے برگزیدہ ہیں۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ