Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ميراث انبیاء کے حقیقی وارث

										
																									
								

Ayat No : 31-32

: فاطر

وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ۳۱ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ۳۲

Translation

اور جس کتاب کی وحی ہم نے آپ کی طرف کی ہے وہ برحق ہے اور اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور بیشک اللہ اپنے بندوں کے حالات سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے. پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا کہ ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خدا کی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور درحقیقت یہی بہت بڑا فضل و شرف ہے.

Tafseer

									  تفسیر 
             ميراث انبیاء کے حقیقی وارث 
 گزشتہ آیات میں پاک دل مومنین کے بارے میں گفتگو تھی کہ جو کتاب اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں ، زیر بحث آیات میں اس آسمانی کتاب اور اس کی صداقت کے دلائل اور اسی طرح اس کتاب کے حقیقی حاملین کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے گزشتہ آیات میں توحید کے بارے میں بحث تھی اور یہاں نبوت کے متعلق گفتگو سے سلسلہ کلام کی تکمیل کی گئی ہے ، ارشاد ہوتا ہے: "ہم نے کتاب میں سے جو کچھ تجھے وحی کیا ہے وہ حق ہے اور جو کچھہ گزشتہ کتب میں آیا ہے یہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔ خدا اپنے بندوں کے بارے میں آگاہ اور بینا ہے (والذي اوحينا اليك من الكتاب هوالحق مصدقًا لما بين يديه ان الله بعباده لخبیربصير)۔ 
 حق کا معنی ہے "ایسی چیز جو واقعیت سے ہم آہنگ اور اس کے مطابق ہو"یہ تعبیراس مطلب کو ثابت کرنے کے لیے ایک دلیل ہے کہ یہ آسمانی کتاب میر پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ ہم اس کے مضامین میں جس قدر بھی غوروفکرکرتے ہیں اسے اتنا ہی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ پاتے ہیں۔ 
 اس میں کوئی تناقض ہے، نہ جھوٹ اور نہ کوئی بیہودہ پن ۔ اس کے اعتقادات و معارف عقلی منطق سے ہم آہنگ ہیں ، اس کی تاریخ افسانوں اور من گھڑت قصوں سے خالی ہے اور اس کے قوانین انسانی احتیاجات کے موافق ہیں ۔ اس کی حقانیت اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ یہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ 
 اس مقام پر تو قرآن کے مقام اور حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے لفظ "حق" سے استفادہ کیا گیا ہے جبکہ قرآن کی دوسری آیات میں لفظ  "نور" "برہان"  "فرقان" "ذکر" "موعظہ " اور " ہدٰی" سے استفادہ کیا گیا ہے کہ جن میں سے ہر ایک قرآن کی مختلف برکتوں اور پہلوؤں میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کرتا ہے . اور "حق" لفظ ان سب کا جامع ہے۔ 
 راغب مفردات میں کہتا ہے کہ "حق"  دراصل مطابقت اور موافقت کے معنی میں ہے اور یہ لفظ کئی معانی کے لیے بولا جاتا ہے: 
 پہلاوہ ذات کہ جوکسی چیز کو حکمت کی اساس پر ایجاد کرے ۔ اسی بناء پر خدا کو حق کہا جاتا ہے : 
  فذالكم الله ربكم الحق (بونس ــــــ 32) - 
  دوسرا وہ چیز کہ جو حکمت کی بنیاد پر ایجاد ہوئی ہے اسے بھی حق کہا جاتا ہے اور چونکہ عالم ہستی خدا کا فعل ہے اور حکمت کے موافق ہے لہذا وہ سب کا سب حق ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے: 
  ما خلق الله ذالك الا بالحق۔ 
  "خدا نے ان موجودات (سورج اور چاند اور ان کی منازل) کو حق کے سوا پیدا 
  نہیں کیا"۔ (یونس - 5) 
 تیسرا ان عقائد کو کہ جو حقیقت کے مطابق ہیں حق کہا جاتا ہے: 
  فهدى الله الذين آمنوا لما اختلفوا فيه من الحق -  
  "خدا نے مومنین کی اس بات کی طرف کہ جس میں انہوں نے حق سے اختلاف کیا تها ہدایت فرمائی"۔ (بقره - 213) 
 چوتھا ان باتوں اور افعال کو بھی کہاجاتا ہے جو زمہ داری کے مطابق اور وقت مقررہ پرانجام پاتے ہیں جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ تیری بات حق ہے اور تیرا کردار حق ہے۔  ؎1 
 اس بناء پر قرآن مجید کا حق ہونا اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ مصلحت اور حقیقت کے مطابق گفتگو کرتا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس میں موجود عقائد و معارف حقیقت سے ہم آہنگ ہیں اور یہ خدا کا کام بھی ہے کہ جسے اس نے حکمت کی بنیاد پر ایجاد کیا ہے ۔ خود خداوند عالم کہ جو عین حق ہے کی اس میں تجلی ہے اورعقل اس چیز کی تصدیق کرتی ہے کہ جو حق اور واقعیت ہے۔ 
 "مصدقًا لما بين يديه" کاجملہ اس کتاب آسمانی کی صداقت کی دوسری دلیل ہے کیونکہ وہ ایسی نشانیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو گزشتہ کتب میں اس کے بارے میں اور اس کے لانے والے کے بارے میں آئی ہیں (اس سلسلے میں ہم سورہ بقرہ کی آیہ 41 اس کے ذیل میں تفصیلی بحث کرچکے ہیں)۔ ؎2 
 "ان الله بعبادة الخبیر بصیر" کا جملہ قرآن کی حقانیت کی علت ہے اور حقائق اور انسانی تقاضوں کے ساتھ اس کی ہم آہنگی کو بیان کرتا ہے کیونکہ یہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے کہ جواپنے بندوں کو اچھی طرح سے پہچانتا ہے اور ان کی احتیاجات کے بارے میں بصیرو بیناہے۔ 
 "خبیر" اور  "بصیر" کے درمیان کیا فرق ہے، اس بارے میں عرض ہے کہ "خبیر" توانسان کے باطن ، اس کے عقائد ، نیت اور روح کے معنی میں ہے اور "بصير" اس کے ظواہر اور رونما ہونے والے جسمانی امور کے بارے نہیں بینا ہونے کے معنی میں ہے ۔ ؎3 
 بعض مفسرین "خبیر" کو انسان کی اصل خلقت کی طرف اور "بصیر" کو اس کے اعمال و افعال کی طرف اشارہ کہتے ہیں۔ ؎4 
 البتہ پہلی تفسیر زیا دہ مناسب معلوم ہوتی ہے اگرچہ آیت سے دونوں معانی مراد ہونا بھی بعید نہیں ہے۔ 
 بعد والی آیت میں اس عظیم آسمانی کتاب کے حاملین کا ذکر ہے۔ یعنی وہ لوگ کہ جنہوں نے پیغمبراکرمؐ 
 ۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
   ؎1    مفردات راغب ماده "حق"۔
   ؎2    جلد اول ص 178 (اردو ترجمہ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔ 
   ؎3    فخر رازی تفسیر کبیر زیر بحث آیت کے ذیل میں - 
   ؎4   روح البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں۔ 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
کے پاکیزہ دل پر قرآن کے نزول کے بعد اس مشعل فروزاں کو ہر زمانے میں روشن رکھا اور اس کی پاسداری کی ۔ ارشاد ہوتا ہے: " پھر ہم نے یہ آسمانی کتاب اپنے برگزیدہ بندوں میں سے ایک گروہ کو میراث میں دےدی" (ثم او رثنا الكتاب الذين اصطفيينا من عبادنا)۔ 
 واضح رہے کہ یہاں  "کتاب" سے مراد وہی چیز ہے جوگزشتہ آیت میں بیان ہوئی ہے (یعنی قرآن مجید) اور اصطلاح کے مطابق اس میں الف اورلام عہد کا ہے اور یہ جو بعض علماء نے اسے تمام کتب آسمانی پر اشارہ سمجھا ہے اور اسے جنس کے لیے آنے والا الف لام سمجھا ہے بہت ہی بعید نظر آتا ہے اور گزشتہ آیایت سے مناسبت نہیں رکھتا۔ 
 قرآن مجید میں یہاں اور اس کے مشابہ دوسرے مواقع پر "ارث" کی تعبیر اس بناء پر ہےکہ "ارث" ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جوکسی زحمت کے بغیر ہاتھ آئے اور خدا نے بھی یہ بہت ہی عظیم کتاب اسی طرح مسلمانوں کو عطا کردی ہے۔ 
 اس مقام پر اہل بیتؐ کے حوالے سے بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں ان سب میں خدا کے برگزیدہ بندوں سے مراد آئمہ معصومین لیے گئے ہیں۔ ؎1 
 یہ روایات جیسا کہ ہم نے بارہا بیان کیا ہے، واضح اور درجہ اول کے مصادیق بیان کرتی ہیں ۔ یہ بات اس میں مانع نہیں کہ امت کے علماء ، صالحین اور شہداء کہ جنہوں نے اس کتاب آسمانی کی حفاظت و پاسداری اور اس کے فرامین کو دوام بخشنے کے لیے کوشش کی ہے  "الذين اصطفينامن عبادنا" (خدا کے برگزیدہ بندے) کے مفہوم میں داخل ہوں۔ 
 اس کے بعد اس سلسلے میں لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:"ان میں سے کسی گروہ نے اپنے اوپر ظلم کیا ،کسی نے درمیانی راہ اختیارکی اورکسی گروہ نے حکم خدا سے نیکیوں میں دوسروں سے سبقت حاصل کرلی اور یہ بہت بڑی فضیلت ہے"۔ (فمنهم ظالم لنفسه ومنهم مقتصد و منھم سابق بالخيرات باذن الله ذالك ھو الفضل الكبير)۔ 
 آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ یہ تینوں گروہ "خدا کے برگزیدہ بندوں" میں سے ہیں کہ جو وارث و حامل کتاب الٰہی ہیں- 
 زیادہ واضح تعبیر میں خدا نے اس کتاب آسمانی کی پاسداری اور حفاظت اپنے پیغمبرؐ کے بعد اس امت کے ذمہ رکھی ہے۔ وہ امت کہ جو خدا کی برگزیدہ ہے لیکن اس امت کے درمیان مختلف طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ان میں سے بعض اس کتاب کی پاسداری اور اس پر عمل کرنے کی عظیم ذمہ داری میں کوتاہی کرتے ہیں اور انہوں نے حقیقت میں اپنے اوپر ظلم کیا ہے، یہ "ظالم لنفسه" کے مصدق ہیں۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
  ؎1    تفسیر نورالثقلین ، جلد 4 ص 361 کی طرف رجوع کریں۔  
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
  دوسر گروہ کافی حد تک اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے اور کتاب پرعمل کرنے کی کوشش کی ہے، اگرچہ ان سے کچھ لغزشیں اورخطائیں بھی ہوئی ہیں یہ "مقتصد" کے مصداق ہیں۔ 
 ایک ممتازگروه وہ ہے جس نے اپنی بھاری ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دیا ہے اور مقابلہ کے اس عظیم میدان میں یہ لوگ سب سے بازی لے گئے ہیں ۔ یہ ان سب کے پیشوا ہیں جہنیں آیت میں "سابق بالخيرات باذن الله" کہا گیا ہے۔ 
 ممکن ہے کہ یہاں یہ کہا جائے کہ  "اصطفينا" اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تمام گروہ خدا کے برگزیدہ ہیں لیکن یہاں ایک ظالم گروہ کا ذکر اس امر کے منافی ہے۔ 
 ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے بنی اسرائیل کے بارے میں سورہ مومن کی آیہ 53 میں ہے کہ جس میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے: 
  ولقد اتینا موسٰى الهدى واور ثنا بنی اسرائیل الكتاب . 
  "ہم نے موسٰی کو ہدایت ( آسمانی کتاب) دی اور یہی آسمانی کتاب ہم نے بنی اسرائیل کو میراث کے طور پر عطا کی"۔ 
 حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ سارے بنی اسرائیل نے اپنی اس عظیم میراث کے بارے میں اپنا فریضہ انجام نہیں دیا۔ 
 اسی طرح سوره آل عمران کی آیہ 110 میں بھی ہے کہ : 
  كنتم خيرامة اخرجت للناس. 
  "تم مسلمان بہترین امت ہوکہ جہنوں نے انسانوں کے نمائندہ کے لیے عرصہ حیات میں قدم رکھا"۔ 
 اسی طرح سوره جاثیہ کی آیہ 16 میں بنی اسرائیل کے بارے میں ہے: 
  وفضلناهم على العالمين - 
  "ہم نے انہیں عالمین پر فضیلت دی"۔ 
 اسی طرح سورہ حدید کی آیہ 26 میں ہے کہ : 
  ولقدارسلنا نوحًا وابراهيم وجعلنا في ذريتهما النبوة والكتاب 
  فمنهم مھتد وكثير منهم فاسقون - 
  ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی ان میں 
  سے بعض تو ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سے فاسق اورگنہگار ہیں"۔ 
 مختصر یہ کہ اس قسم کی تعبیرات کا مقصد امت کا ہر فرد نہیں ہے بلکہ پوری امت مراد ہے، اگرچہ اس میں مختلف طرح کے گروہ اور لوگ پائے جاتے ہیں۔ ؎1 
 بہت سی روایات میں کہ جو اہل بیتؑ کے طرق سے وارد ہوئی ہیں" سابق با الخیرات" سے امام و معصوم مراد لیا ہے اور "ظالم لنفسه" سے وہ افراد کے جو امام کی معرفت اور شناخت نہیں رکھتے اور "مقتصد" سے امام کے عارف پیروکار مراد لیے گئے ہیں۔ ؎2 
 یہ تفاسیر اس بات کی واضح گواہ ہیں کہ اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ وارثان کتاب الٰہی میں یہ تینوں گروہ شامل ہیں جیسا کہ ہم نے تفسیر آیت میں کہا ہے۔ 
 شاید اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت نہیں کہ مذکورہ بالا روایات کی تفسیر واضح مصادیق کا بیان ہے ، یعنی امام معصوم  "سابق بالخیرات" کی صف اول میں ہے اور علماء اور دین الٰہی کے محافظین دوسری صفوں میں ہیں ۔ 
 وہ تفسیر کہ جو ان روایات میں "ظالم" و "مقتصد" کے بارے میں بیان کی گئی ہے وہ بھی مصداق بیان کرتی ہے۔ 
ہے۔ 
 جو ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ روایات میں آیت کے مفہوم میں علماء کی بالکل نفی کی گئی ہے تو ایسا درحقیقت ان صفوں کے آگے آگے امام معصوم کے وجود کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہے ۔
 یہ بات قابل توجہ ہے کہ گزشتہ اور موجودہ مفسرین میں سے بعض نے ان تینوں گروہوں کے با رے میں دوسرے بہت سے احتمال بھی ذکر کیے ہیں کہ جو سارے کے سارے اس کے مصداق کا ہی بیان ہیں۔ ؎3 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1   بعض نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ تقسیم "عبادنا" کے ساتھ مربوط ہے نہ کہ برگزیدہ افراد کے ساتھ ۔ اس بناء پریہ تینوں گروه وار ثان کتاب الہی میں شامل نہیں ہیں بلکہ وہ تمام بندگان  خدا میں تو شامل ہیں لیکن برگزیدہ اور چنے ہوئے صرف تیسرے گروہ کے افراد یعنی سابق بالخيرات ہوں گے لیکن یہ تفسیربہت بعید نظرآتی ہے ۔ کیونکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ گروہ ان لوگوں کا ہے جن کا آیت میں ذکر کیا جارہاہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ آیت تمام عباد کے با رے میں ہیں بلکہ برگزیدہ لوگوں کے متعلق گفتگو ہے۔ اس سے قطع نظر "عباد" کی "نا" کی طرف اضافت ایک طرح  مدح کو بیان کرتی ہے کہ جو دوسری تفسیر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ 
  ؎2    تفسیر نورالثقلین جلد 4 ص 361 اس کے بعد اسی طرح اصول کافي جلد اباب ان من اصطفاه الله من عباده :... -  
  ؎3    بعض نے تو یہ کہاہے کہ "سابق باالخيرات" ، اصحاب پیغمبر ہیں اور "مقتصد" "تابعین کا طبقہ ہے" اور "ظالم النفسة" دوسرے افراد ہیں۔ 
 بعض دوسروں سے  "سابق"  سے وہ لوگ مراد لیے ہیں جن کا باطن ان کے ظاہر سے اچھاہے اور "مقتصد" سے وہ لوگ کہ جن کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہے اور ظالم وہ کہ جن کا ظاہران کے باطن سے بہتر ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ  "سابقون" صحابہ ہیں اور "مقتصدون" ان کے تابعین ہیں اور "ظالمون" منافق ہیں ۔ 
 بعض نے اس آیت کو اُن تینوں گروہوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جن کا ذکر سورہ واقعہ کی آیت 7 تا 11 میں آیا ہے: 
  وكنتم ازواجًا ثلاثه فاصحاب الميمنة ما اصحاب الميمنة واصحاب المشئهة ما اصحاب 
  المشئمة والسابقون السابقون اولئك المقربون. 
 ایک حدیث میں "سابق بالخيرات" سے ائمہ  بزرگوار حضرت علیؑ ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور شہیدان آل محمدؐ مراد لیا گیاہے 
 اور "مقتصد" سے متدین مجاہد ہیں اور "ظالم" سے وہ کہ جن کے نیک اعمال غیرصالح اعمال کے ساتھ ملے جلے ہیں۔
 یہ تمام تفسیرین بیان مصداق کے عنوان سے قابل قبول ہیں سوائے پہلی تفسیر کے کہ اس کا کوئی درست مفہوم نہیں ہے۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے ظالمین کے بارے میں پھر درمیانے افراد کے بارے میں اور سب سے آخر میں "سابق بالخيرات" کے بارے میں بات کیوں کی گئی ہے جبکہ کئی ایک جہات اسے الٹی ترتیب بہتر نظر آتی ہے۔ 
 بعض بزرگ مفسرین نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ اس کا مقصد سلسلہ کمال میں لوگوں کے مقامات کی ترتیب بیان کرنا ہے کیونکہ پہلا مرحلہ عصیان و غفلت کا ہے ، اس کے بعد توبہ و انابت کا مقام ہے اور انجام کار خدا کی طرف توجہ اور اس کے قرب کی منزل ہے ۔ جس وقت انسان سے گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ "ظالم" ہے اور جس وقت وہ مقام توبہ میں آتا ہے تو "مقتصد" ہے اور جس وقت اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے اور خدا کی راہ میں اس کی مساعی بہت بڑھ جاتی ہیں تو وہ اس کے مقام قرب میں پہنچ جاتا ہے اور "سابق بالخيرات" میں شمار ہونے لگتا ہے۔ ؎1 
 بعض نے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ یہ ترتیب ان تینوں گروہوں کے افراد کی زیادتی ، ورکمی کے لحاظ سے ہے ، ظالمین اکثریت میں ہوتے ہیں اور مقتصدين بعد والے مرحلہ میں اور سابقين بالخیرات کہ جو خاص اور پاک لوگ ہیں سب سے کم ہوتے ہیں اگر کیفیت کے لحاظ سے سب سے بلند مرتبہ ہیں۔ ؎2 
 قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک حدیث میں امام صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ آپؑ نے فرمایا :  
 ظالم کو اس سبب سے مقدم رکھا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائے اور سابق بالخیرات کو اس لیے موخر کیا ہے تاکہ وہ اپنے عمل پر مغرور نہ ہوں۔ ؎2 
 لہذا ممکن ہے کہ تینوں معانی مراد ہوں ۔ 
 آخری بات اس آیت کی تفسیرمیں یہ ہےکہ "ذالك هوالفضل الكبير" ( یہ بہت بڑی فضیلت ہے)کےجملےمیں مفسرین کےدرمیان اختلاف ہےکہ اس میں مشارالیہ کیاہے۔بعض نے کہا ہے 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    طبرسی "مجمع البیان"  زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔ 
  ؎2    تفسیر "فی ظلال القرآن" زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔ 
  ؎3    تفسير ابوالفتوح رازی ، جلد 9 زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔ 
 ۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کہ اس سے مراد کتاب الٰہی کی میراث ہی ہے اور بعض نے اسے اس توفیق کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو "سابق بالخیرات" کے شامل حال ہوتی ہے اور وہ اذن خدا سے اس راہ کو طے کرتے ہیں لیکن پہلامعنی ظاہرآیت کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔