3- تعبیرات کا تنوع فصاحت کا ایک حصہ ہے
وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۱۹وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ۲۰وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ۲۱وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ۲۲إِنْ أَنْتَ إِلَّا نَذِيرٌ ۲۳
اور اندھے اور بینا برابر نہیں ہوسکتے. اور تاریکیاں اور نور دونوں برابر نہیں ہوسکتے. اور سایہ اور دھوپ دونوں برابر نہیں ہوسکتے. اور زندہ اور مفِدے برابر نہیں ہوسکتے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بات صَنا دیتا ہے اور آپ انہیں نہیں سناسکتے جو قبروں کے اندر رہنے والے ہیں. آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں.
3- تعبیرات کا تنوع فصاحت کا ایک حصہ ہے :
ان چارتشبہیوں ہوں میں کہ جو اوپر والی و آیات میں بیان ہوئی ہیں مختلف تعبیرات نظر آتی ہیں۔ مثلًا "اعمٰی" و "بصيره" - "ظل" و "حرور" مفرد کی صورت میں آئی ہیں ۔ جبکہ "احیاء" و "اموات" دونوں جمع کی صورت میں ہیں اور "ظلمات" و "نور" میں سے ایک لفظ مفرد اور دوسرا جمع کی صورت میں آیا ہے۔
نیز پہلی اور دوسری تشبیہ میں جومنفی صورت رکھتے ہیں انہیں مقدم رکھا ہے (ا عمٰی و ظلمات) و جبکہ تیسری اور چوتھی تشبیہ میں جو کہ مثبت صورت رکھتے ہیں ، "ظل" اور "احیاء" کو مقدم رکھا گیا ہے ۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ پہلی تشبیہ میں حرف نفی کا تکرار نہیں ہوا جبکہ باقی تین تشبیہات میں نفی و
کا تكرار ہوا ہے۔
چوتھا پہلو یہ ہے کہ "مایستوی" ، صرف پہلی اور آخری تشبیہ میں آیا ہے اور باقیوں میں نہیں ہے
بعض مفسرین نے اس تفادت کے لیے کچھ نکات بیان کیے ہیں ۔ جن میں سے کچھ تو قابل و ملاحظہ ہیں اور قابل اعتراض -
منجملہ ان نکات کے کہ جو قابل ملاحظہ ہیں ایک یہ ہے کہ "ظلمات" کا جمع ہونا اور "نور" کا منفرد ہونا اس بناء پر ہے کہ ظلمت یعنی کفر کے بہت سے شعبے ہیں ، لیکن ایمان اور توحید کی صرف ایک ہی حقیقت ہے۔ ایمان خط مستقیم ہے کیونکہ دو نقطوں کے درمیان ایک خط مستقیم کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہوتا لیکن ظلمت ، کفر ٹیڑھے خطوط کی طرح ہے کیونکہ دو نقطوں کے درمیان ہزار ہزار تھے خطوط کرتے ہیں -
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 صحیح مسلم ، کتاب الجنائز ، حدیث 1 ، 2 جلد 2 ص 631).
؎2 نہج البلاغہ ، كلمات قصار جملہ 130 -
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
پہلی دو مثالوں میں منفی صورتوں کو مقدم رکھتا آغاز اسلام کی طرف اشارہ ہے کہ لوگوں نے جاہلیت کی نابینائی اور شرک کے ظلمات سے اسلام کی روشنی اور بینائی کی طرف ہدایت پائی .
لیکن دو دوسری مثالیں دوسرے مراحل کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جب اسلام نے اپنی جڑوں کو والوں کی زمین میں محکم کرلیا تھا اور اپنی اثباتی صورتوں کو معاشرے میں وسعت دی تھی۔
لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظر اصولی طور پر بیان میں تنوع گفتگو میں ایک خاص قسم کی روح اور تازگی پیدا کر دیتا ہے اور اسے دل نشین ، خوبصورت اور پرکشش بنا دیتا ہے ، جبکہ ایک ہی طرح کے کلام کی تکرار ـــــــ سوائے استثنائی مواقع کے ـــــ گفتگو کی لطافت ختم کردیتی ہے ۔ اسی بناء پر فصحاء وبلغاء ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی گفتگو کی تعبیروں کو متنوع اور دل نشیں بنائیں اور ہم جانتے ہیں کہ قرآن فصاحت و بلاغت کے اعلی درجہ پر ہے۔
اس بناء پر اگر فصاحت و بلاغت کے علاوہ ان تعمیرات میں اور کوئی نکتہ نہ بھی ہوتا تب بھی یہی چیز کافی تھی ۔ اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے حضرات ان اسرار کے علاوہ کہ جو ہم نے انہیں کیسے ہیں، ان تعمیرات میں دوسرے اسراری تلاش کرسکیں کہ جو اس وقت ہم سے پوشیدہ ہیں ۔