2- کیا مردے کسی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے؟
وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۱۹وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ۲۰وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ۲۱وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ۲۲إِنْ أَنْتَ إِلَّا نَذِيرٌ ۲۳
اور اندھے اور بینا برابر نہیں ہوسکتے. اور تاریکیاں اور نور دونوں برابر نہیں ہوسکتے. اور سایہ اور دھوپ دونوں برابر نہیں ہوسکتے. اور زندہ اور مفِدے برابر نہیں ہوسکتے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بات صَنا دیتا ہے اور آپ انہیں نہیں سناسکتے جو قبروں کے اندر رہنے والے ہیں. آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں.
2- کیا مردے کسی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے؟:
اوپر والی آیات میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر توجہ دینے سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں :
پہلا یہ کہ قرآن یہ کیسے کہتا ہے کہ: "تم اپنی آواز مردوں کے کانوں تک نہیں پہنچا سکتے"، حالانکہ مشہور حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے جنگ بدر کے دن یہ حکم دیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر کفار کے بدنوں کو کنویں میں پھینک دیا جائے ۔ اس کے بعد آپؐ نے انہیں پکار کر فرمایا :
هل وجد تم ما وعد الله ورسوله حقًا ؟ فاني وجدت ما وعدني
اللہ حقاً۔
"کیا تم نے اس چیز کو کہ جس کا خدا اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا حق پایا ہے؟
میں نے تو جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ کیا تھا سے پایا ہے۔"
اس موقع پر حضرت عمر نے کہا کہ اے خدا کے رسولؐ ! آپ ایسے اجساد سے کس طرح گفتگو کر رہے ہیں جن میں روح ہی نہیں ہے؟ پیغمبراکرمؐ نے فرمآیا :
ما انتم باسمع لما اقول منهم ، غير انهم لا يستطيعون أن يردوا شيئا۔
"تم میری باتوں کو ان سے بہتر طور پر نہیں سنتے، بات صرف اتنی ہے کہ وہ جواب
دینے کی توانائی نہیں رکھتے۔ 1
اسی طرح آداب میت میں سے ایک یہ ہے کہ عقائد حقہ کی اسے تلقین کی جا ئے ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات زیر بحث آیات کے ساتھ کس طرح مناسبت رکھتی ہے؟
اس سوال کا جواب ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ زیر بحث کے ساتھ بیان ہوتی ہے
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیر روح البیان ، زیربحث آیت کے ذیل میں ۔ صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث تھوڑے سے فرق کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ (صحیح بخاری جلد 5 ، ص 97 باب قتل ابی جہل)۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
آیات مردوں کے عدم ادراک کو معمول کے لحاظ سے اورطبعی حوالے سے بیان کرتی ہیں لیکن جنگ بدر کی روایات یا تلقین میت والی روایت فوق العادۃ شرائط وحالات کے ساتھ مربوط ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبر کی باتیں فوق العادۃ طور پر ان مردوں کے کانوں تک پہنچائیں ۔
دوسرے لفظوں میں عالم برزخ میں انسان کا ربط عالم دنیا سے منقطع ہوجاتا ہے ، سوائے ان موقعوں کے کہ جن کے بارے میں خدا حکم دے دے کہ یہ ارتباط برقرار رہے اسی بناء پر عام حالات میں ہم مردوں کے ساتھ ارتباط پیدا نہیں کرسکتے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہماری آواز مردوں کے کانوں تک نہیں پہنچتی تو پھر پیغمبراکرمؐ اور آئمہ پرسلام بھیجنا اور انہیں وسیلہ قرار دینا اور ان کی قبور کی زیارت کرنا اور بارگاہ خدا وندی میں ان سے شفاعت کا تقاضا کرنا کیا مفہوم رکھتا ہے؟
وہابیوں کی ایک جماعت ہے جو عام طور پر فکری جمود کے حوالے سے مشہور ہے ۔ قرآن کی دوسری آیات کا مطالعہ کیے بغیر ابتدائی ظواہر سے یہی بات کرتی ہے ۔ یہ لوگ بہت سی احادیث کو کہ جو پیغمبرؐ سے منقول ہوتی ہیں کوئی وقعت نہ دیتے ہوئے ، مسلہ توسل کی نفی کردیتے ہیں اور یوں انہوں نے اپنے گمان ناقص سے ان پرخط بطلان کھینچ دیا ہے۔
اس سوال کا جواب بھی اسی سے کہ جو ہم نے پہلے سوال کے جواب میں دیا ہے واضح ہوجاتا ہے کیونکہ پیغمبراکرمؐ اور اولیائے خدا کا معاملہ دوسرے لوگوں سے الگ ہے۔ وہ شہداء کے مانند (بلکہ ان کی پہلی صف میں قرار پاتے ہیں، اور زندہ جاوید ہیں ، اور "احیاء عند ربهم يرزقون " کے مصداق پروردگار کی روزی سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں ۔ خدا کے حکم سے اس جہان کے ساتھ ان کا ارتباط باقی رہتا ہے ۔ جیسا کہ اس جہان میں رہتے ہوئے وہ مردوں کے ساتھ ارتباط برقرار رکھ سکتے ہیں جیسا کہ مقتولین بدرکی مثال موجود ہے۔
اسی بناء پر بہت سی روایات میں کہ جو اہل سنت اور اہل تشیع کی کتابوں میں منقول ہوئی ہیں یہ بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبراکرمؐ اور آئمہ کچھ لوگوں کی باتیں جو دور یا نزدیک سے ان پر سلام بھیجتے ہیں ، سنتے ہیں اور انہیں جواب دیتے ہیں ، یہاں تک کہ امت کے اعمال بھی ان کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں ۔ ؎1
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ نماز کے تشہد میں پیغمبراکرمؐ پرسلام بھیجیں اور یہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت ، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آںحضرت سے ایسی بات کریں کہ جسے آپؐ بالکل نہیں سنتے۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 کشف الارتياب ص 109 ، آیه 105 سورہ توبہ کے ذیل میں ہم نے بھی "اعمال پیش ہونے کا مسئلہ "کی طرف اشارہ کیا ہے"
(جلد 8 تفسیر نمونہ ص 108 اردو ترجمہ کی طرف رجوع کریں۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
متعدد روایات میں صحیح مسلم میں ابو سعید خدری اور ابوہریرہ سے خود پیغمبراکرمؐ سے منقول ہے
کہ آپ نے فرمایا :
لقنوا موتاكم لا اله الا الله .
"اپنے مردوں کو لا اله الا الله کی تلقین کرو"۔ ؎1
نہج البلاغہ میں بھی مردوں کی ارواح کے ساتھ ارتباط کے مسئلے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ حضرت علیؑ نے ان مومنین کے ارواح سے کہ جو کوفے کے نواحی قبرستان میں سے گفتگو کی ۔ ؎2