1- ایمان و کفر کے آثار
وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۱۹وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ۲۰وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ۲۱وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ۲۲إِنْ أَنْتَ إِلَّا نَذِيرٌ ۲۳
اور اندھے اور بینا برابر نہیں ہوسکتے. اور تاریکیاں اور نور دونوں برابر نہیں ہوسکتے. اور سایہ اور دھوپ دونوں برابر نہیں ہوسکتے. اور زندہ اور مفِدے برابر نہیں ہوسکتے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بات صَنا دیتا ہے اور آپ انہیں نہیں سناسکتے جو قبروں کے اندر رہنے والے ہیں. آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں.
چند اهم نکات
1- ایمان و کفر کے آثار :
ہم جانتے ہیں کہ قرآن جغرافیائی ، نسلی اور طبقاتی قسم کی سرحدوں میں سے کہ جو انسانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں کسی کا قائل نہیں ہے اس نے تو صرف ایک ہی سرحد شمار کی ہے اور وہ ایمان و کفر کی سرحد ہے ، اور وہ اس طرح سے تمام انسانی معاشرے کو دو گروہوں ۔ مؤمن اور کافر میں تقسیم کر دیتا ہے۔
قرآن نے ایمان کے تعارف میں متعدد مواقع پر اسے نور کے ساتھ یہ تشبیہ دی ہے اور کفر کوظلمت کے ساتھ اوریہ تشبیہ ــــ نتیجہ خیزی کےلیے - ایک زندہ ترین تشبیہ ہے۔ ؎1
ایمان ایک قسم کا باطنی ادراک اور بصیرت ہے۔ قلبی عقیدے اور جنبش و حرکت سے تو ام یہ ایک قسم کا علم و آگاہی ہے۔ یہ ایک قسم کا یقین ہے کہ جو انسان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اترجاتاہے اور ایسے اسلامی کاموں کا سرچشمہ بن جاتا ہے کہ جو معاشرے کی رشد و نمو کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن کفر و جہالت ہے ، نا آگاہی اور بے یقینی ہے کہ جس کا نتیجہ عدم تحرک ، احساس مسئولیت کا فقدان اور شیطانی اور مخرب حرکات ہیں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ "نور" عالم مادہ میں انسان ، حیوان اور نباتات کے لیے ہر قسم کی حیات، حرکت ، نمو اور رشد کا مبداء ہے اور اس کے برعکس ظلمت و تاریکی خاموشی اور خواب و غفلت کی عامل ہے اورمسلسل جاری رہنے کی صورت میں موت ہے اور زندگی کے خاتمے کا سبب ہے۔
اس بنا پر یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان آیات میں ایمان و کفر کو نور وظلمت سے ، حیات و موت سے اور آرام بخش سائے اور بادسموم سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسی طرح مومن و کافر کو بینا و نابینا سے تشبیہ دی گئی ہے۔
کہنے کے لائق تمام باتیں ان پاتشبیہوں میں بیان ہوگئی ہیں ۔
ہم زیادہ دور نہ جائیں ، جس وقت ہم ایک مومن کے ساتھ نشست و برخاست کرتے ہیں، تو ہم اس کے تمام وجود میں اس نور کا اثر محسوس کرتے ہیں اس کے افکار ضیابخش ہوتے ہیں ، اس کی باتیں درخشنده ہوتی ہیں اور اس کے اعمال و اخلاق ہمیں حقیقت زندگی اور حیات واقعی سے آشنا کرتے ہیں۔
لیکن کافر کے تمام وجود سے تاریکی برستی ہے، وہ اپنے مادی اور وقتی مفادات کے علا وہ کچھ نہیں
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بقره ــــ 257، مائده ــــــ 15 ، 16 ابراہیم - 1 ، 5 زمر- 22، حدید-9 اورطلاق 11 کی طرف رجوع فرمائیں۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سوچتا اس کی فکر کا افق اور فضا اس کی شخصی زندگی کی چار دیواری سے اوپر نہیں جاتے وہ شہوات کے طوفانوں میں غوطہ زن ہوتا ہے اور اس کی ہمنشینی انسان کے قلب و روح کو ظلمات و تاریکی کی موجوں میں ڈبو دیتی ہے کیونکہ:
؎ ہمدمی مرده دھد مردگی صحبت افسردہ دل افسردگی
مردے کی ہمنشینی سے مردگی حاصل ہوتی ہے ۔ اور افسردہ دل کی صحبت سے افسردگی ملتی ہے۔
اور اس طرح سے قرآن نے جو کچھ ان آیات میں بیان کیا ہے اسے ہم محسوس بھی کرسکتے ہیں سمجھ بھی سکتے ہیں یعنی وہ قابل ادراک ہے۔