Tafseer e Namoona

Topic

											

									  نوروظلمت یکساں نہیں هیں

										
																									
								

Ayat No : 19-23

: فاطر

وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۱۹وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ۲۰وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ۲۱وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ۲۲إِنْ أَنْتَ إِلَّا نَذِيرٌ ۲۳

Translation

اور اندھے اور بینا برابر نہیں ہوسکتے. اور تاریکیاں اور نور دونوں برابر نہیں ہوسکتے. اور سایہ اور دھوپ دونوں برابر نہیں ہوسکتے. اور زندہ اور مفِدے برابر نہیں ہوسکتے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بات صَنا دیتا ہے اور آپ انہیں نہیں سناسکتے جو قبروں کے اندر رہنے والے ہیں. آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں.

Tafseer

									  تفسیر
               نوروظلمت یکساں نہیں هیں 
 ان مباحث کی مناسبت سے کہ جو ایمان و کفر کے سلسلے میں گزشتہ آیات میں بیان ہوئے تھے ، زیربحث آیات میں چار پرکشش مثالیں مومن اور کافر کے بارے میں بیان کی گئی ہیں جن میں "ایمان وکفر" کے آثار نہایت واضح طور پر مجسم ہو گئے ہیں۔ 
 پہلی مثال میں کافر و مومن کونابینا اور بینا کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے : "نابینا اور بینا ہرگز برابر نہیں ہیں"۔ (وما يستوي الاعمٰى والبصیر)۔ 
 ایمان نور ہے اور روشنی بخشنے والا ہے اور انسان کو کائنات شناسی ، اعتقاد ، عمل اور تمام زندگی میں روشنی اور آگاہی بخشتا ہے ۔ لیکن کفر ظلمت اور تاریکی ہے اور اس میں نہ تو سارے عالم ہستی کے بارے میں صحیح دانش و بینش ہے اور نہ صحیح اعتقاد اور عمل صالح کی کوئی خبر ہے۔ 
 قرآن مجید اسی سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیہ ، 257 میں حق مطلب ادا کرتے ہوئے کہتا ہے: 
  الله ولى الذین امنوا يخرجھم من الظلمٰت الى النور والذين کفروا 
  اوليائهم والطاغوت يخرجونھم من النور الي الظلمات اولئك اصحاب 
  النار هو فيها خالدون 
  "خدا مومنوں کا ولی ، راہنما اور سرپرست ہے. وہ انہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف 
  ہدایت کرتا ہے لیکن کافروں کا ولی طاغوت ہے کہ جو انہیں روشنی سے ظلمتوں کی طرف 
  کھینچ لےجاتاہے، وہ اصحاب دوزخ ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے" ۔ 
 چشم بینا تنہا کافی نہیں ہے ، لہذا روشنی اور نور بھی ہونا چاہیئے تاکہ انسان ان دوعوامل کی مدد سے موجودات کا مشاہدہ کرسکے ۔ بعد والی آیت میں مزید فرمایا گیا ہے: "نہ ہی تاریکیاں نور کے برابر ہیں"۔ (ولا الظلمات ولا النور). 
 چونکہ تاریکی گمراہی کا سبب ہے ، تاریکی سکون و جمود کی عامل ہے اور تاریکی طرح طرح کے خطرات کی عامل ہے لیکن نور اور روشنی حیات و حرکت ، رشد ونمود اور تکامل و ارتقاء کا منشاء ہے ۔ اگر نورختم ہوجاۓ تو عالم کی تمام قوتیں اور طاقتیں ختم ہوجائیں اور موت سارے مادی عالم کو گھیر لے ، اور اسی طرح عالم روحانی میں نورایمان ہے کہ وہ رشد و تکامل کا عامل ہے اور حیات وحرکت کا سبب ہے۔ اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : "(آرام بخش ) سایہ گرم ہوا اور جلانے والی لُو کے برابر نہیں ہے"۔ (ولا الظل ولا الحرور)۔ 
 مومن اپنے ایمان کے سائے میں سکون اور امن و امان سے زندگی بسر کرتا ہے لیکن کافراپنے کفر کی وجہ سے تکلیف اور رنج میں جلتا رہتا ہے۔ 
 راغب مفردات میں کہتا ہے  "حرور" (بروزن "قبول")  گرم اور جلانے والی ہوا کے معنی میں ہے (مارنے والی اور خشک کردینے والی ہوا)۔ 
 بعض اسے باد سموم کے معنی میں سمجھتے ہیں اور بعض سورج کی سخت اور شدید حرارت کے معنی میں ۔ 
 زمخشری کشاف میں کہتا ہے کہ "سموم" موذی اور ہلاک کرنے والی ہواؤں کو کہتے ہیں ۔ جو دن کے وقت چلتی ہیں لیکن "حرور" کہا تو انہیں ہواؤں کو جاتا ہے لیکن بغیر اس تمیز کے کہ وہ دن کے وقت چلیں یا رات کو بہرحال اس قسم کی ہوائیں کہاں اور ٹھنڈا اور نشاط آفریں کی سایہ کہاں کہ جو انسان کی روح اور جسم کو نوازتا ہے۔ 
 آخری تشبیہ میں فرمایا گیا ہے: "اور زندہ اور مردہ ہرگز برابر نہیں ہے" (وما يستوی الأحياء ولاالاموات)۔ 
 مومنین زندہ ہیں اور سعی و کوشش ، حرکت و جنبش اور رشد و نمو کے حامل ہیں ۔ وہ شاخیں ، پتے پھول اور پھل رکھتے ہیں ان کا فر خشک لکڑی کی طرح ہیں کہ جس میں نہ طراوت ہے نہ پتا، نہ پھول اور نہ کوئی سایہ اور سوائے جلانے کے اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ 
 سوره انعام کی آیہ 122 میں ہے کہ : 
  اومن كان ميتًا فاحييناه وجعلنا له نورًا يمشي به في الناس کمن 
  مثله في الظلمات ليس بخارج منها. 
  "کیا وہ شخص کہ جو مردہ تھا اور ہم نے اسے زندہ کیا ، اور ہم نے اسے نورعطا کیا کہ 
  جس کے ذریعے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے ، اُس شخص کے مانند ہے کہ جو ظلمات اور 
  تاریکیوں میں غوطہ زن ہے اور ہرگز اس سے نہیں نکلے گا"؟ 
 آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: "خدا جسے چاہتا ہے سننے والا بنا دیتا ہے "تاکہ وہ حق کی عورت کو دل کے کان سے سنے اور توحید کی منادی کرنے والوں کی خدا پر لبیک کہے "( انا لله يسمع من يشاء)" اور تم اپنی بات ہرگز ان مردوں کے کانوں تک نہیں پہنچاسکتے جو قبروں میں سوئے ہوۓ ہیں" (وما انت بمسمع من في القبور) - 
 تمہاری فریاد چاہے جس قدر رسا ہو اور تمهاری گفتگو جس قدر بھی دل نشین ہو اور تمهارابیان جتنا بھی فصیح و بلیغ ہو مُردے اس میں سے کسی چیز کو سمجھ نہیں سکتے اور وہ لوگ کہ جو گناہ پر اصرار اور تعصب ،عناد ، ظلم اور فساد میں غوطہ زن ہونے کی وجہ سے اپنی روح انسانی کو کھو بیٹھے ہیں ، یقینًا تمهاری دعوت قبول کرنے کی استعداد نہیں رکھتے ۔
 اس بناء پران کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے پریشان اور بے تاب نہ ہو ۔ تمهاری ذمہ داری تو صرف بات کو پہنچانا اور ڈرانا ہے۔ "تم تو صرف ڈرانے والے ہو"۔ (ان انت الانذیر)۔