برهان امکان و وجوب (فقروغنٰی) کی وضاحت
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ۱۵إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ۱۶وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ ۱۷وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَنْ تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ۱۸
انسانو تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اوراللہ صاحب هدولت اور قابلِ حمد و ثنا ہے. وہ چاہے تو تم سب کو اٹھالے جائے اور تمہارے بدلے دوسری مخلوقات لے آئے. اوراللہ کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے. اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کسی کو اٹھانے کے لئے بلایا بھی جائے گا تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جاسکے گا چاہے وہ قرابتدار ہی کیوں نہ ہو آپ صرف ان لوگوں کو ڈراسکتے ہیں جو ازغیب خدا سے ڈرنے والے ہیں اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو بھی پاکیزگی اختیار کرے گا وہ اپنے فائدہ کے لئے کرے گا اور سب کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہے.
برهان امکان و وجوب (فقروغنٰی) کی وضاحت
تمام موجودات کہ جنہیں ہم اس جہان میں دیکھتے ہیں ، وہ سب کے سب ایک دن معدوم تھے، پھرا نہوں نے لباس وجود پہنا یا زیادہ دقیق تعبیر کے مطابق ایک دن وہ کچھ بھی نہ تھے اور پھر وجود میں آئے ۔ یہ امر اس چیز کی دلیل ہے کہ وہ کسی اور وجود کے "معلول" ہیں اور وہ خود سے کوئی وجود و ہستی نہیں رکھتے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہم معلول وجود اپنی "علت" سے وابستہ اور اس کے ساتھ قائم ہے اور سراپا نیاز و احتیاج ہے ۔ اب اگر وہ علت بھی کسی اورعلت کی معلول ہو تو وہ بھی اپنے مقام پر محتاج اور نیازمند ہوگی اور اگر یہ امر لامتناہی ہو تو نیازمند اور محتاج موجودات کا ایک مجموعہ بن جاۓ ۔ مسلم ہے کہ اس قسم کا مجموعہ ہرگز وجود میں نہیں آسکتا ، کیونکہ لامتناہی احتیاج بہرحال احتیاج ہے اور لامتناہی فقرونیاز بہرحال و فقر و نیاز ہے اور لامتناہی صفر کسی عدد کو وجود نہیں بخش سکتے اور لامتناہی وابستہ اور غیرمستقل سے استقلال حاصل نہیں ہوسکتا۔
تو اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انجام کار ہمیں ایک ایسے وجود کا پہنچنا چاہیئے کہ جو قائم بالذات ہو اور تمام جہات سے مستقل ہو۔ وہ خود علت ہو لیکن کسی اور کا معلول نہ ہو، اور وہی واجب الوجود ہے۔ ؎1
یہاں یہ سوال سامنے آیا ہے کہ زیر بحث آیت میں صرف انسانوں اور ان کی خدا کی طرف احتیاج کے بارے میں گفتگو کیوں کی گئی ہے ، جبکہ یہ فقره احتیاج عالم ہستی میں عمومی حیثیت رکھتا ہے اور کائنات کی ہر چیز محتاج ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انسان جو کہ اس جہان کاگل سرسبد ہے، سرتاپا اس کا محتاج ہے تو پھر باقی موجودات کی حالت واضح ہے۔ دوسرے لفظوں میں باقی موجودات بھی علت فقر یعنی امکان وجود میں انسان کے ساتھ شریک ہیں ۔
انسان کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ اس بناء پر گفتگو کی گئی ہے کہ اسے مرکب غرور وتکبر سے نیچے اتاراجائے ، اور وہ ہرحال میں ہرچیز کےلیے اور ہر جگہ اپنی حاجت کی خاطر خدا ہی کی طرف توجہ دے ۔ وہی توجہ کہ جو صفات فاضلہ اور ملکات اخلاقی کی اصل بنیاد ہے۔ وہی توجہ کہ جو تواضع و انکساری، ترک ظلم و ستم، ترک غرور وتکبر اور ترک بخل و حرص و حسد کی رمز ہے اور حق کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی محرک ہوتی ہے۔
بعد والی آیت میں انسانوں کی اسی احتیاج و فقر کی تاکید کے لیے ان سے فرمایا گیا ہے: "اگروہ چاہے تو نہیں اٹھالے اور ایک نئی مخلوق سے آئے" (ان يشأ يذهبکم ویأت بخلق جديد).
اسی بناء پر اسے تمہاری اور تماری عبادت کی کوئی احتیاج نہیں اور یہ تم ہو کہ جو اس کے محتاج بو.
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اس بات پر بھی توجہ رہے کہ امکان و وجوب کی برہان کی دو تفسیریں ہیں ۔ کیونکہ فلاسفہ نے امکان کے دومعانی کیے ہیں ۔ امکان ماعوی اور امکان وجودي ، اور چو نکہ محققین فلاسفہ کی نظر اصالۃ الوجود پر ہے اس بناء پر یہاں امکان کی امکان وجودی کی شکل میں تفسیر کرنا چاہیئے ہے کہ علت کی طرف نیاز و ابستگی اصل وجود میں ہے (اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لیے کتب فلسفہ کا مطالعہ کریں)۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ آیت اسی مطلب کی مثال ہے کہ جو سورہ انعام میں بیان ہوا ہے جہاں فرمایا گیا ہے:
وربك الغنی ذوالرحمة ان يشا يذھبكم ویستخلف من بعد كم ما
يشاء كما انشا كم من ذرية قوم أخرين -
"تیرا پروردگار بے نیازو مہربان ہے ، اگر وہ چاہے ہے تو تمہیں لےجائے اور جسے چاہے تمہاری جگہ لے آئے جیسا کہ تمہیں دوسری قوموں کی نسل سے وجود میں لایا ہے"۔ (اانعام ـــــــ 133)
وہ نہ تو تمہاری اطاعت کا محتاج ہے اور نہ ہی اسے تمہارے گناہوں کا خوف ہے لیکن اس کے باوجود اس کی وسیع رحمت تم سب پرسایہ فگن ہے ۔ نہ تو اس سارے جہان کے ختم ہو جانے سے اس کی عظمت میں کسی چیز کی کمی ہو گی اور نہ ہی اس عالم کی خلقت نے اس کے مقام کبریائی میں کوئی اضافہ کیا ہے۔
آیت کے آخر میں نئے سرے سے تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: "اور یہ کام خدا کے لیے ناممکن نہیں ہے"۔ (وما ذالك على الله بعزیز)۔
جی ہاں ! وہ جس چیز کا ارادہ کرتاہے حکم دیتا ہے کہ ہوجا ، وہ فورًا وجود میں آجاتی ہے تخلیقِ انسان تو معمولی سی بات ہے ، یہ بات تو تمام عالم بستی کے بارے میں صادق ہے۔
بہرحال اگر وہ تمہیں ایمان ، اطاعت اور پرستش کا حکم دیتا ہے تو سب تمہارے ہی فائدہ میں ہے اور اس کی برکات تمہیں ہی حاصل ہوتی ہیں ۔
آخری زیر بحث آیت گزشتہ آیات کے ربط میں پانچ "نکات" کی طرف اشارہ کرتی ہے :
اول یہ کہ گزشتہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ "اگر خدا چاہے تو وہ نہیں اٹھالے اور تمہاری جگہ دوسری قوم لے آئے۔ یہ گفتگو ممکن ہے کہ بعض افراد کے لیے یہ سوال پیدا کرے کہ اس آیہ کے مخاطب تمام گنہگارا فراد نہیں ہیں ، کیونکہ میرے زمانے میں مومنین صالح موجود رہے ہیں اور آج بھی ہیں ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ بھی دوسروں کے گناہوں کی سزا میں گرفتار ہوں اور وہ بھی فنا ہو جائیں؟
اسی سبب سے فرمایا گیا ہے: "کوئی شخص دوسرے کے گناہ کابار اپنے کندھے پر نہیں اٹھائے گا" (ولاتزر وازرة وزر أخرٰي)۔
"وزر" بوجھ کے معنی میں ہے اور "وزر" (بروزن "نظر") سے لیا گیا ہے کہ جو پہاڑوں کی پناہ گاہ کے معنی میں آیا ہے اور کسی مسئولیت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسا کہ " وزیر" کو اس لحاظ سے "وزیر" کہتے ہیں کہ وہ ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ اپنے کندھے پر اٹھاتا ہے،بھی معاونت کے معنی میں ہے، کیونکہ ہر شخص معاونت کرتے وقت دوسرے کے بار کا ایک حصہ اپنے کندھے پر اٹھاتا ہے۔
یہ جملہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے ، حقیقت میں سے ایک طرف تو عدل خدا وندی سے ارتباط رکھتا ہے کہ جو ہرشخص کو اس کے عمل کے بدلے گروی شمار کرتا ہے، اس کی سعی و کوشش کا اسے اجر دیتا ہے اور اس کے گناہوں کی اسے سزا دیتاہے۔ اور دوسری طرف قیامت کے دن کی شدت مجازات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھانے کے لیے تیارنہیں ہونا چاہے اس سے انہتا لگاؤ اور تعلق ہی کیوں نہ رکھتاہو ۔
اس مطلب کی طرف توجہ انسانوں کی خود سازی میں زیادہ اثر رکھتی ہے کیونکہ جو شخص اپنے کو بچانا چاہے وہ ہرگز اس بہانہ سے کہ اس کا ماحول یا اس کا معاشرہ خراب ہے ، برائی میں کودنے کے لیے تیار نہیں ہو گا اور ماحول کی خرابی کو اپنی بے راہ روی کے لیے وجہ جواز نہیں بنائے گا کیونکہ ہر شخص اپنے گناه کا بوجھ خود ہی اپنے کندھے پر اٹھاتا ہے ۔
عدل الہی کا یہ پہلو انسانوں کو یہ ادراک اور سوجھ بوجھ بھی دیتا ہے کہ خدا معاشروں کا مجموعی طور پر حساب نہیں لیتا ، بلکہ ہر شخص کا اپنا حساب لیا جائے گا یعنی اگر اس نے اپنی اصلاح کے لیے اور برائی کے خلاف جہاد کرنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو نبھایا ہو تو اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا چاہے اس کے علاوہ سارے جہان کے لوگ کفر و شرک اور ظلم و گناہ میں آلودہ ہوں۔
اصولی طور پر کوئی تربیتی پروگرام اس بنیادی اصول کی طرف توجہ دیئے بغیر مؤثر نہیں ہوسکتا۔ (غور کیجئے گا)۔
دوسرے جملے میں اسی مسئلے کو ایک دوسری شکل میں پیش کیا گیا ہے ، قرآن کہتا ہے : "اگر کوئی شخص بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہو اور وہ کسی دوسرے شخص کو اپنے گناہوں کو اٹھانے کے لیے کہے، تو وہ اس کا منفی جواب دے گا اور اس کے گناہ اور جواب دہی میں سے کسی چیز کو نہیں اٹھائے گا ، چاہے وہ اس کے قریبیوں اور رشتہ داروں میں سے ہو"۔ (وان تدع مثقلة الٰى حملها لايحمل منه شيء ولو کان ذا قربٰي) ۔ ؎1
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 " مثقلة" بھاری بوجھ کے معنی میں ہے اور یہاں وہ شخص مراد ہے جو گناہوں کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے اور "حمل" (بروزن "شعر") "مفردات" میں راغب کے قول کے مطابق وہ بوجھ ہے جو پشت پر اٹھایاجاتا ہے ۔" "حمل" "بروزن "حمد") کے مقابلے میں کہ یہ ایسا بوجھ ہے کہ جو پیٹ میں اٹھایاجاتا ہے۔ مثلًا "جنین" یا وہ پانی کہ جو بادل کے اندر ہے ، یا وہ پھل کہ جو درخت کے اوپر ہے اور چونکہ وہ زیر بحث آیت میں گناہ کو اس بوجھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جو کندھے پر اٹھایا جاتا ہے ، اس لیے "حمل" حاء کی زیر کے ساتھ آیا ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ایک حدیث میں ہے:
قیامت کے دن ایک ماں اور ایک بیٹے کو لایا جائے گا ۔ ان دونوں ہی کے کندھوں پر گناہوں کا ابھاری بوجھ ہوگا ۔ ماں بیٹے سے تقاضا کرے گی کہ ان تمام زحمتوں کے بدلے میں کہ جو میں نے تیرے نے دنیا میں جھیلی ہیں میرے گناہوں کی مسئولیت کا کچھ بوجھ اپنے کندھے پر اٹھا لے، اس پر بیٹا ماں سے کہے گا کہ تو مجھ سے دور ہوجا ، کیونکہ میں تو تجھ سے بھی زیاده گرفتار ہوں۔ ؎1
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا یہ آیت ان بہت سی روایات کے منافی تو نہیں جن میں سنت حسنہ و سنت سیئہ کا ذکر ہے ۔ کیونکہ وہ روایات یہ کہتی ہیں کہ جو شخص کوئی اچھی سنت قائم کرے گا تو ان تمام لوگوں کا اجر کہ جنہوں نے اس پر عمل کیا ہے اس کے لیے لکھا جائے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو اور جوشخص بری سنت کی بنیاد رکھے گا تو ان لوگوں کا بوجھ بھی کہ جو اس پر عمل کریں گے اس پر ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کوئی کمی ہو۔
لیکن ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ اس صورت میں ایک شخص کا گناہ دوسرے کے ذمہ نہیں لکھا جاتا کہ جب وہ کسی قسم کا دخل اس میں نہ رکھتا ہو لیکن اگر وہ کسی کام کی بنیاد رکھے ، معاونت کرے یا ترغیب دے ، اور اس طرح اس میں حصہ دار ہو تو پھر یقینًا یہ اس کا عمل شمار ہو گا اور وہ اس میں شریک قرار پائے گا۔
تیرے جملے میں اس حقیقت سے پرده اٹھایا گیا ہے کہ پیغمبرؐ کی تنبیہ صرف آماده دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : "تم صرف انہی لوگوں کو ڈرا پاتے ہو جو اپنے پروردگار سے غیب اور تنہائی میں ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں" (اما تنذر الذين يخشون ربھم بالغيب واقاموا الصلوة)۔
انبیاء اور اولیاء کے ڈراوے اس وقت اس بے اثر رہیں گے جب دل میں خوٖف خدا نہ اور انسان پنہاں و آشکار اپنے اوپر ایک مافوق قوت کی نگرانی کا احساس نہ کرے اور نماز کے ذریعے اس اندرونی احساس کو قومی نہ کرے کیونکہ نمازوں کو زندہ کرتی ہے اور ذکرخدا پرابھارتی ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اگرچہ یہ حدیث مختلف تفسیر میں ایسی فضیل بن عیاض سے اور کبھی ابن عباس سے نقل ہوئی ہے لیکن یہ بات بعید نظر آتی ہے کہ یہ بات تو انہوں نے خود اپنی طرف سے کہی ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ اصل حدیث پیغمبرؐ سے منقول ہو (تفسیر ابو الفتوح ،قرطبی اور روح البیان کی طرف رجوع کریں)
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ابتداء میں جبکہ انسان نے کوئی عقیدہ نہ اپنایا ہو اور ایمان نہ لایا ہو ، اگر اس میں حق جوئی اور حق طلبی کی روح موجود نہیں ہے ، اور اس میں حقائق کی شناخت کے سلسلے میں جوابدہی کا احساس بھی نہیں ہے تو وہ انبیاء کی دعوت پرکان نہیں دھرے گا اور عالم ہستی میں پروردگار کی نشانیوں میں غور و فکر بھی نہیں کرے گا۔
چوتھے جملے میں قرآن پھر اس حقیقت کی طرف لوٹتا ہے کہ خدا سب سے بے نیاز ہے اور مزید کہتا ہے کہ : "جو شخص پاکیزگی اور تقوٰی اختیار کرے تواس پاکیزگی کا نتیجہ خود اسی کو حاصل ہوگا" (ومن تزکی فانمای یتزکى لنفسه) -
آخر کار پانچویں اور آخری جملے میں قرآن خبردار کرتاہے کہ اگر نیک وبد افراد اس جہان میں اپنے اعمال کے نتائج نہ پائیں تو کوئی اہم بات نہیں ہے کیونکہ "سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے اور آخرکار وہ سب کا حساب چکائے گا"۔ (والى الله المصير) -
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ