کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاۓگا
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ۱۵إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ۱۶وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ ۱۷وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَنْ تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ۱۸
انسانو تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اوراللہ صاحب هدولت اور قابلِ حمد و ثنا ہے. وہ چاہے تو تم سب کو اٹھالے جائے اور تمہارے بدلے دوسری مخلوقات لے آئے. اوراللہ کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے. اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کسی کو اٹھانے کے لئے بلایا بھی جائے گا تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جاسکے گا چاہے وہ قرابتدار ہی کیوں نہ ہو آپ صرف ان لوگوں کو ڈراسکتے ہیں جو ازغیب خدا سے ڈرنے والے ہیں اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو بھی پاکیزگی اختیار کرے گا وہ اپنے فائدہ کے لئے کرے گا اور سب کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہے.
تفسیر
کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاۓگا
گذشتہ آیات میں توحید کی دعوت تھی اور ہرقسم کے شرک اور بت پرستی کی نفی کی گئی تھی ۔ممکن ہے کہ اس سے بعض کے دل میں یہ توہم پیدا ہو کہ خدا کو ہماری پرستش کی کیا ضرورت ہے۔ اس قدر اصراراور تاکید کیوں کی گئی ہے، اس لیے زیربحث آیات میں اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے کہ ہمیں تو ضرورت ہے کہ اس کی عبادت کریں ، وہ ہماری عبادت کا محتاج نہیں ہے، فرمایا گیا ہے:" اے لوگو! تم خدا کے محتاج ہو اور وہ ہر لحاظ سے بے نیاز اور حمد و ستائش کے لائق ہے " (یاایها الناس انتم الفقراء الى الله والله هو الغني الحميد)۔
یہ کتنی اہم اور قیمتی گفتگو ہے کہ جو عالم ہستی میں ہمیں ہستی بخشنے والے کے سامنے ہماری حیثیت واضح کرتی ہے اور بہت سے عقدے کھولتی ہے اور بہت سے سوالات کا جواب دیتی ہے۔
ہاں! حقیقی بے نیاز اور تمام عالم مستی میں قائم بالذات ایک ہی ہے اور وہ خدا ہے۔ تمام انسان بلکہ تمام موجودات سرتاپا احتیاج وفقر ہیں اور اس مستقل وجود کے ساتھ وابستہ ہیں، کہ اگر ایک کے لیے بھی ان کا ربط اس سے ٹوٹ جائے تو وہ بے کار ہوکر رہ جائیں۔
جیسا کہ وہ بے نیاز مطلق ہے، انسان فقیر مطلق ہے اور جس طرح کہ وہ قائم بالذات ہے، ساری مخلوق اس کے ساتہ قائم ہے ، کیونکہ وہ ہر لحاظ سے ایک لا متناہی وجود ہے اور ذات وصفات میں واجب الوجود ہے۔
توان حالات میں اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ہماری عبادت کا محتاج ہو ، یہ تو ہم ہی ہیں کہ جو اس کی عبادت اور اطاعات کے ذریعے تکامل و ارتقاء کی راہ طے کرتے ہیں اور بے پایال فیض کے مبداء سے اس کی عبادت کے سائے میں لمحہ بہ لمحہ زیادہ سے زیادہ نزدیک ہوتے جاتے ہیں ، اور اس کی ذات و صفات کے انوار سے بہرہ اندوز ہیں ۔
حقیقت میں یہ آیت ان گزشتہ آیات کی ایک وضاحت ہے کہ جن میں فرمایا گیا ہے کہ:
" ذالكم الله ربکمله الملك ..........
"یہ ہے خدا ، تمہارا پروردگار ، عالم ہستی کی مالکیت و حاکمیت اسی کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرے موجودات تو کھجور کی گٹھلی کی نازک جھلی کے برابر بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں رکھتے "۔
اس بناء پرانسان اس کے محتاج ہیں نہ کسی اور کے ۔ انہیں ہرگز اس کے غیر کے آستانے پر سر نہیں جھکاناچاہیئے۔
اور اپنی حاجت اس کے غیر سے طلب نہیں کرنا چاہیئے ، کیونکہ وہ سب کے سب اس مانگنے والے کی طرح کی نیازمند اور محتاج ہیں ، یہاں تک کہ خدائی پیمغبروں اور پیشوایان کی بزرگی و عظمت بھی اس بناء پر ہے کہ وہ اس کے بھیجے ہوئے نمائندے ہیں ، نہ کہ وہ اپنی طرف سے قائم ہیں۔
اس بناپروہ غنی بھی ہے اور حمید تھی یعنی بے نیاز ہونے کے ساتھ ساتھ اسی قدر عطا والا ہے کہ ہرقسم کی حمد و ستائش کے لائق ہے، اور بخشندگی اور بندہ نوازی کے ساتھ ساتھ کا سب سے بے نیازی بھی ہے۔
اس حقیقت پر توجہ مومن انسانوں میں دو مثبت اثر رکھتی ہے ۔ ایک طرف تو وہ انہیں غرور وتکبر اور خودخواہی اور سرکشی سے بچاتی ہے اور انہیں خبردارکرتی ہے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں رکھتے کہ جس پر فخر کرسکیں جو کچھ بھی ان کے پاس ہے پروردگارکی امانت ہے۔
دوسری طرف اس کے غیر کی بارگاہ میں دست نیاز دراز نہ کریں اور غیراللہ کی عبودیت کا طوق اپنی گردن میں نہ ڈالیں اور ان تمام بندھنوں سے آزاد ہو کر ہمت سے کام لیں۔
مومنین اس نظر سے عالم میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے اسی کے وجود کا پر تو سمجھتے ہیں اور ان کے اسباب کی طرف توجہ انہیں ہرگز مسبب الاسباب سے غافل نہیں کرتی ۔
بعض فلاسفہ نے اس آیت کو "فقر و امکان " یا " امکان و وجوب واجب اور الوجود" کے بارے میں مشہور دلیل کی طرف اشارہ سمجھانہے اگرچہ آیت وجود خدا کا استدلال پیش نہیں کررہی بلکہ اس کے اوصاف بیان کر رہی ہے لیکن مذکورہ برہان کو مفہوم آیت کا ایک لازمی نتیجہ سمجھاجاسکتا ہے ۔