Tafseer e Namoona

Topic

											

									  آیات سے سوء استفاده اورانحرافي تفاسير 

										
																									
								

Ayat No : 13-14

: فاطر

يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ ۱۳إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ۱۴

Translation

وہ خدا رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں اس نے سورج اور چاند کو تابع بنادیا ہے اور سب اپنے مقررہ وقت کے مطابق سیر کررہے ہیں وہی تمہارا پروردگار ہے اسی کے اختیار میں سارا ملک ہے اور اس کے علاوہ تم جنہیں آواز دیتے ہووہ خرمہ کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اختیار کے مالک نہیں ہیں. تم انہیں پکارو گے تو تمہاری آواز کو نہ سوُ سکیں گے اور صَن لیں گے تو تمہیں جواب نہ دے سکیں گے اور قیامت کے دن تو تمہاری شرکت ہی کا انکار کردیں گے اور ان کی باتوں کی اطلاع ایک باخبر ہستی کی طرح کوئی دوسرا نہیں کرسکتا.

Tafseer

									              آیات سے سوء استفاده اورانحرافي تفاسير 
 اگرچہ آیات کی تفسیر کے دوران میں واضح ہوگیا ہے کہ آخری زیربحث آیت" ان تدعوهم لايسمعوادعائکم" سے مراد بت ہیں کہ جو اول تو اپنی عبادت کرنے والوں کے تقاضوں کو سننے والا کان ہی نہیں رکھتے، اور اگر رکھتے بھی تو ان کی مشکل کرنے پر قادر نہیں ہیں ، اور نہ ہی دو عالم ہستی میں سوئی کی نوک کے برابر مالکیت و حاکمیت رکھتے ہیں۔ 
 لیکن بعض ہٹ دھرم وہابیوں نے پیغمبر اسلامؐ اور ہادیان برحق پیشواؤں سے توسل اور شفاعت طلب کرنے کے خلاف اس آیت اور اسی قسم کی دوسری آیات کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ وہ تمام لوگ کہ جنہیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو یہاں تک کہ انبیاء اور پیغمبربھی تمہاری بات نہیں سنتے اور اگر سنیں بھی تو جواب نہیں دے سکتے یا جیسا کہ سورہ اعراف کی آیہ 197 میں بیان ہوا ہے کہ :  
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    یہ احتمال تفسیر مجمع البیان، تفسیر آلوسی اور قرطبی میں مذکور ہے۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------   
  والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصرکم ولا انفسهم بینصرون: 
  "خدا کے علاوہ جن جن کو تم پکارتے ہو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے اور نہ اپنی مشکلات 
  میں ایک ہی مدد کر سکتے ہیں"۔ 
 وہ لوگ اس قسم کی آیات اور اس طرح سے پیغمبروں اور آئمہ کے ارواح سے ہر قسم کے توسل کی نفی کرتے ہیں ، اور اسے توحید کے مخالف شمارکرتے ہیں۔ 
 حالانکہ ان آیات سے پہلے اور بعد کی آیات پر ایک سرسری سی نگاہ اس حقیقت کے ادراک کے لیے کافی ہے کہ اس سے مرادبت ہیں کیونکہ ان تمام آیات میں بتوں ہی کے بارے میں گفتگو ہے پتھر اور لکڑی کے متعلق گفتگو ہے کہ جنہیں وہ خدا کا شریک خیال کرتے تھے اور وہ ان کے لیے خدا کی قدرت کے مقابلے میں قدرت کے قائل تھے۔ 
 لیکن کون نہیں جانتاکر شهداء راہ خدا کی طرح ــــــ کہ جن کی زندگی کے بارے میں قرآن صراحت کے ساتھ بات کرتا ہے ۔ــــ انبیاء واولیاء بھی حیات برزخی کے حامل ہیں ، اور ہم جانتے ہیں کہ برزخی زندگی میں روح کی فعالیت زیادہ وسیع اور کشادہ ہے کیونکہ وه مادی حجابات اور دنیوی تعلقات سے رہائی پاچکی ہوتی ہے ۔
 دوسری طرف ان الرواح پاک سے توسل اسی معنی میں نہیں ہے کہ ہم ان کے لیے خدا کے مقابلے میں کسی استقلال کے قائل ہوں ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کی جاہ و منزلت جو بارگاہ خدا میں ہے اسی سے کم مدد طلب کریں اور عظمت و احترام وہ درگا و خدا میں رکھتے ہیں اس سے مدد چاہیں اور یہ عین توحید اور عبودیت پروردگار ہے۔ (غور کیجئے گا)۔ 
 اس بناء پر جیسا کہ قرآن صراحت کے ساتھ مسئلہ شفاعت کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ خدا کے اذن اور فرمان سے شفاعت کریں گے: 
  من ذا الذي يشفع عنده الاباذنه 
  "کون ہے کہ جو بارگاہ خدا میں اس کے فرمان کے بغیرشفاعت کر سکے" ۔ (بقره - 255) 
 اسی طرح ان سے توسل بھی اسی طریقے سے ہے۔ 
 کون شخص ہے کہ جو توسل کی صریح آیات کا انکارکرسکے؟ یا اسے شرک خیال کرے اور قرآن سے مقابلے میں کھڑا ہوجائے اور پھر توحید کا دم بھرے سوائے ایسے مغرورجاہلوں کے کہ جنہوں نے ایسے منحوس راگ الاپے ہیں کہ جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے کا سبب ہیں۔ 
 لہذا ہم پرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کے حالات میں پڑھتے ہیں کہ وہ مشکلات کے وقت رسول اکرمؐ کی قبر کے پاس آتے تھے اور توسل قائم کرتے ہوئے آپؐ کی روح پاک سے بارگاہ خداوندی میں مدد طلب کرتے تھے۔ 
 جیسا کہ اہل سنت کے مشہور محدث "بہقی" نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ دوم کے زمانہ میں خشک سالی اور قحط پڑگیا، تو حضرت بلال صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی قبر کے پاس آئے اور اس طرح کیا : 
  یارسول الله استقلامتك .... فانهم قد هلكوا 
  "اے خدا کے رسولؐ ! اپنی امت کے لیے بارش طلب کیجئے ....... کہ وہ ہلاک ہوگئی ہے"۔ ؎1 
 آلوسی کے مانند اہل سنت کے بعض مفسرین نے اس سلسلے میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں ، آلوسی ان احادیث کے بارے میں سختی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں: 
 میں ان تمام باتوں کے باوجود بارگاہ خدا میں پیغمبر کے مرتبے سے توسل میں کچھ مانع نہیں دیکھتا، چاہے وہ حیات ہوں یا ان کی وفات کے بعد ... 
 اس کے بعد کچھ دوسرے لوگوں کا کہ جو بارگاہ خدا میں مرتبہ و مقام رکھتے ہیں اضافہ کرتے اور کے اعتراف کرتے ہیں کہ ان سے توسل رکھنا جائز ہے ۔ ؎2  اس سلسلے میں ہم تفصیلی بحث جلد 4 میں سورۂ مائدہ کی آیت 35 کے ذیل میں کر چکے ہیں۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
  ؎1   ازالكتاب "التوصل الى حقيقة التوسل"۔ 
  ؎2   روح المعانی۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------