یہ جهوٹے معبود توتمہاری آواز تک نہیں سنتے
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ ۱۳إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ۱۴
وہ خدا رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں اس نے سورج اور چاند کو تابع بنادیا ہے اور سب اپنے مقررہ وقت کے مطابق سیر کررہے ہیں وہی تمہارا پروردگار ہے اسی کے اختیار میں سارا ملک ہے اور اس کے علاوہ تم جنہیں آواز دیتے ہووہ خرمہ کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اختیار کے مالک نہیں ہیں. تم انہیں پکارو گے تو تمہاری آواز کو نہ سوُ سکیں گے اور صَن لیں گے تو تمہیں جواب نہ دے سکیں گے اور قیامت کے دن تو تمہاری شرکت ہی کا انکار کردیں گے اور ان کی باتوں کی اطلاع ایک باخبر ہستی کی طرح کوئی دوسرا نہیں کرسکتا.
تفسیر
یہ جهوٹے معبود توتمہاری آواز تک نہیں سنتے
ان آیات میں قرآن ایک مرتبہ پھر توحید کی نشانیوں اور پروردگار کی بے پایاں نعمتوں کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتا ہے تاکہ انسان کے احساس تشکر کو ابھار کر اسے معبودحقیقی کی شناخت کی طرف لایا جائے اور اسے ہر قسم کے شرک اور بے ہودہ عبادتوں سے باز رکھا جائے، فرمایا گیا ہے۔ "وہ وہی ہے کہ جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے "( يولج اليل في النهار و ليولج النهار في اليل)۔
"يولج" "ایلاج" کے مادہ سے داخل کرنے کے معنی میں ہے ۔ ممکن ہے اس لفظ سے ذیل کےدومعانی میں سے ایک کی طرف یا دونوں کی طرف اشارہ ہو۔
1- سال بھر میں رات دن کی تدریجی زیادتی اور کمی کہ جو ــــ اپنے تمام آثار و برکات کے ساتھ۔ ــــ مختلعت موسموں کی پیدائش کا سبب ہے۔
شفق اور بین الطلوعین کے ذریعے رات کا دن میں اور دن کا رات میں بتدریج منتقل ہونا ، کہ جو اچانک اور ناگہانی طور پر ظلمت سے نور کی طرف اور نور سے ظلمت کی طرف منتقل ہونے کے خطرات سے روکتا ہے اور انسان کو مکمل اور بے خطر ایک کیفیت سے دوسری میں جانے کے قابل بناتا ہے ۔ ؎1
اس کے بعد سورج اور چاند کی تسخیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :"اس نے سورج اور چاند کو تمھارے لیے مسخرکیا ہے" (وسخر الشمس والقمر)۔
اس سے بڑھ کر اور تسخیر کیا ہوگی کہ وہ سب انسان کے فائدے میں حرکت کر رہے ہیں اور انسانی زندگی میں انواع و اقسام کی برکات کا سرچشمہ ہیں ۔ ابر ، ہوا ، سورج ، چاند اور فلک سب کے سب کام میں لگے ہوئے ہیں تاکہ انسان اپنی زندگی کو سنوار سکے اورغفلت میں وقت نہ گزارے اورمسلسل ان نعمات کے اصل منبع کی یاد میں رہے۔ (سورج اور چاند کی تسخیر کے سلسلے میں ہم جلد 10 سورہ رعد کی آیہ 2 اور سورہ ابراہیم کی آیه 33 کے ذیل میں تفصیلی بحث کرچکے ہیں)۔
لیکن یہ سورج اور چاند باوجود یکہ پورے طور پرمنظم طریقے سے اپنے راستے پر چل رہے ہیں اورانسان
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 رات اور دن کی تدریجی تبدیلی کے بارے میں جلد دوم میں سورہ آل عمران کی آیہ 28 کے ذیل میں بحث ہوچکی ہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کے اچھے خدمت گزار ہیں ، تاہم جو نظام ان پر حاکم ہے وہ جادوانی اور ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ، یہاں تک کہ یہ عظیم سیارے بھی باوجود اس نور کے آخر کارتاریک اور بے کار ہوجائیں گے۔
اس سے قرآن تسخیرکے بارے میں بات کرنے کے بعد مزید کہتا ہے : ان دونوں میں سے ہر ایک ، ایک خاص زمانے کے جو ان کے لیے معین ہو ہے اپنی حرکت جاری رکھے گا"۔ (کل یجری لاجل مسمی)۔
اور " اذا الشمس كورت ، واذا النجوم انکدرت" ( تکویر - 1 ، 2 ) کے تقاضے کے مطابق آخر کار یہ سب کے سب تاریکی اور خاموشی میں ڈوب جائیں گے ۔
بعض مفسرین نے "اجل مسمی" (معین وقت) کے لیے ایک دوسری تفسیر کی ہے اور وہ سورج اور چاند کی حرکت دوری ہے کہ جن میں سے پہلی ایک سال میں مکمل ہوتی ہے اور دوسری ایک ماہ میں ختم ہوتی ہے۔ ؎1
لیکن قرآن مجید کی متعدد آیات میں یہ تعبیر عمر کے ختم ہونے کے معنی میں آتی ہے۔ ان مواقع استعمال کی جانب توجہ کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ مذکورہ تفسیر درست نہیں ہے اور بیلی تفسیرہی درست ہے یعنی چاند اور سورج کی عمر کا اختتام - (نحل - 61 ، فاطر - 45 ، زمر-42 ، نور. 4 اور مؤمن - 67، کی طرف و رجوع فرمائیں)۔
پھرتوحید کی اس بحث سے یہ نتیجہ نکالنے کے طور پر فرمایا گیا ہے: "یہ ہے خدا تمھاراعظیم پوروردگار"۔ (ذالكم الله ربكم)۔
وہ خدا کہ جس نے سورج اورچاند کے نور و ظلمت اور حرکات کے حساب شده نظام کو تمام برکات کے ساتھ مقرر فرمایا ہے ۔
"عالم ہستی میں حاکمیت اسی کے ساتھ مخصوس ہے"۔ (له الملك)۔
"اور وہ معبود کہ جنہیں تم ا سے چھوڑ کر پکارتے ہو ، وہ تو کھجور کی گٹھلی کے اوپر کی نازک جھلی کے برابر بھی عالم ہستی حق حاکمیت اور مالکیت نہیں رکھتے" (والذين تدعون من دونه مايملكون من قطمیر)۔ ؎2
"قطمیر" مفردات میں راغب کے مطابق وہ جھلی ہے کہ جو کھجور کی گٹھلی کی پشت پر ہوتی ہے اور مجمع البیان میں طبرسی کے مطابق اورتفسير قرطبی کے مطابق یہ ایک پتلا سا سفید رنگ کا چھلکاہے کہ جو پوری گٹھلی کو چھپائے ہوتا ہے،
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیرروح المعانی اور ابوالفتوح رازی -
؎2 الذين کی تعبیر کہ جو عام طور پر جمع مذکر عاقل کے لیے آتی ہے، بتوں کے بارے میں مشرکین کے توہم کی بناء پر ہے کہ جو وہ ان بے جان موجودات سے متعلق رکھتے تھے قران انہی کی تعبیر ذکر کرکے ، پھر اس کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بہرحال یہ بہت ہی چھوٹی اور حقیرچیز کی طرف اشارہ ہے۔
جی ہاں ! یہ بت نہ تو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان ، نہ وہ تمہارا دفاع کرسکتے ہیں اورنہ ہی اپنا ، نہ وہ حاکمیت رکھتے ہیں اور نہ ہی مالکیت۔ یہاں تک کہ کھجور کی گٹھلی کے اوپر کی جھلی بھی نہیں ۔ اس حالت میں تم بے عقل کس طرح ان کی پرستش کرتے ہو اور اپنی مشکلات کا حل ان سے چاہتے ہو۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: "اگر تم انہیں اپنی مشکلات کے حل کے لیے پکارو تو وہ ہرگز تمهاری پکارنہیں سنتے"۔ (ان تدعوهم لايسمعوا دعائكم)۔
کیونکہ وہ چند پتھروں اور لکڑی کے ٹکڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ، وہ بےشعور جمادات ہی تو ہیں۔
"اور بالفرض وہ تمہارے نالہ و فریاد کوسن بھی لیں تب بھی وہ تمہاری حاجات کا جواب دینے کی توانائی نہیں رکھتے" ۔ (ولو سمعوا ما استجابوا لكم).
یہ بات واضح ہے کہ وہ تو کھجور کی گٹھلی کی جھلی کے برابر تھی عالم ہستی میں سود و زیاں کے مالک نہیں ہیں، اس کے باوجودتم کس طرح سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہارے لیے کوئی کام کر سکیں گے یا تمهاري کوئی مشکل آسان کر سکیں گے۔
"اس سے بھی بڑھ کریہ کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ تمہاری عبادت اور شرک کاانکارکردیں گے" (ويوم القيامة يكفرون بشر ککم)۔
اور کہیں گے کہ خداوندا ! یہ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے، بلکہ حقیقت میں یہ تو اپنے نفس کی پرستش کرتے تھے۔
یہ گواہی یا تو زبان حال کےساتھ ہے، کہ جو شخص بتوں کی حالت کو دیکھے تو وہ گوش ہوش کے ساتھ یہ بات ان سے سنتا ہے اور یا یہ بات ہے کہ وہ خدا جو اس دن انسان کے اعضاء و جوارح اور بدن کی جلد کو قوت گویائی دے گا ، انہیں بھی بات کرنے کا فرمان جاری کرے گا ، تاکہ وہ یہ گواہی دیں کہ منحرف بت پرست حقیقت میں اپنے اوہام اور خواہشات کی پرستش کرتے تھے۔
سورہ یونس کی آیت 28 میں بھی ایسی بات بیان کی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے :
ويوم نحشرهم جميعًا ثم نقول للذين اشركوامكانکم انتم وشركاؤكم
فزتیلنا بینهم وقال شرکاؤ هم ما كنتم ايانا تعبدون -
"اور اس دن کو یاد کرو کہ جب ہم ان سب کو جمع کریں گے ، پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے معبود اپنی جگہ پرٹھہرو (تاکہ تمہارا حساب کتاب چکایا جائے) پھر ہم انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیں گے ، (تاکہ ہر ایک سے الاگ الاگ سوال ہو) تو وہاں ان کے معبود ان سے کہیں گے ، تم ہرگز ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔
مفسرین کے ایک گروہ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ تعبیر ملائکہ اور حضرت عیسٰی جیسے "معبودوں" کے بارے میں ہے ، کیونکہ قیامت میں صرف وہی بات کر سکیں گے اور "ان تدعوهو لايسمعوا دعائکم" ، کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں ایسے مشغول ہوں گے کہ اگر تم ان کو پکارو گے تو وہ تمہاری باتوں کو نہیں سنیں گے ۔ ؎ 1
لیکن "والذين تدعون من دونه" کے مفہوم کی وسعت کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ مراد بُت ہی ہیں: "ان تدعوهم لا يسمعوادعائکم" (اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری آواز کو نہیں سنتے) یہ جملہ ظاہرًا دنیا کے ساتھ مربوط ہے ۔
آیت کے آخرمیں مزید تاکید کے لیے فرمایا گیا ہے: "خدا کے مانند کہ جو ہر چیز سے آگاہ ہے، کوئی بھی تجھے باخبر نہیں کرے گا" ( ولاینبئك مثل خبیر)۔
اگر وہ یہ کہتا ہے کہ بت قیامت میں تمہاری پرستش کا انکار کر دیں گے اور تم سے بیزاری اختیار کریں گے ، تو اس سے تعجب نہ کرو ، کیونکہ ایسی ذات اس موضوع کی خبر دے رہی ہے کہ جو تمام عالم ہستی اور اس کے ذرہ ذرہ سے آگاہ ہے، اس کے علم کی بارگاہ میں مستقبل بھی ماضی اور حال کی طرح آشکار ہے۔
اگرچہ اس جملے میں ظاہرًا ذات میں مخاطب ہے ، لیکن یہ بات واضح ہے کونظر تمام انسانوں پر ہے۔