1- تمام "عزت" خدا کے لیے ہے
أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ۸وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ ۹مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ ۱۰
تو کیا وہ شخص جس کے بفِے اعمال کو اس طرح آراستہ کردیا گیا کہ وہ اسے اچھا سمجھنے لگا کسی مومن کے برابر ہوسکتا ہے - اللرُجس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے تو آپ افسوس کی بنا پر ان کے پیچھے اپنی جان نہ دے دیںاللہ ان کے کاروبار سے خوب باخبر ہے. اللرُ ہی وہ ہے جس نے ہواؤں کو بھیجا تو وہ بادلوں کو منتشر کرتی ہیں اور پھر ہم انہیں مفِدہ شہر تک لے جاتے ہیں اور زمین کے لَردہ ہوجانے کے بعد اسے زندہ کردیتے ہیں اور اسی طرح مفِدے دوبارہ اٹھائے جائیں گے. جو شخص بھی عزّت کا طلبگار ہے وہ سمجھ لے کہ عزّت سب پروردگار کے لئے ہے - پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انہیں بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے اور ان کا مکر بہرحال ہلاک اور تباہ ہونے والا ہے.
چند نکات
1- تمام "عزت" خدا کے لیے ہے
عزت کی حقیقت کیا ہے؟ کیا ناقابل شکست ہونے کے مرحلہ تک پہنچنے کے علاوہ کوئی چیزہے؟ اگر اس طرح ہے تو پھرعزت کو کہاں تلاش کرناچاہیئے؟ اور کونسی چیز انسان کو عزت دے سکتی ہے؟
ہم ایک واضح تحلیل و تجزیہ کے ذریعے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عزت کی حقیقت پہلے درجہ میں ایک ایسی کی قدرت ہے کہ جو انسان کے دل وجان میں ظاہر ہوتی ہے اور وہ اس کو طاغیوں ، باغیوں اور سرکشوں کے مقابلہ میں خضوع وخشوع کرنے اور سر تسلیم خم کرنے سے روکتی ہے۔
ایسی قدرت کہ جس کے ہوتے ہوئے انسان خواہشات کا اسیر نہیں ہوتا، اور ہوا و ہوس کے مقابلہ میں سے نہیں جھکاتا۔
ایسی قدرت کہ جو اسے نفوذ ناپذیری کے مرحلہ میں "زر" و "زور" کے مقابلہ میں ارتقا تکامل بخشتی ہے۔
کیا اس قدرت کا سرچشمہ ایمان بخدا یعنی قدرت و عزت کے اصل منبع سے ارتباط کے بغیر ہوتا ہوسکتا ہے؟
یہ بات توتھی فکروعقیدہ اور روح و جان کے مرحلہ میں لیکن عمل کے مرحلہ میں عزت کا سرچشمہ ایسے اعمال ہیں کہ جو صحیح بنیادوں اور حساب شده پروگرام اور طریقہ کے حامل ہوں، دوسرے لفظوں میں اسے عمل صالح میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے یہی وہ دو چیزیں ہیں کہ جو انسان کو سربلندی و عظمت دیتی ہیں اور اُسے عزت اور ناقابل شکست ہونے کا شرف بخشتی ہیں۔
فرعون کے زمانے کے دنیا پرست جادوگروں نے اپنے عجائبات کا اس کے نام اور اس کی عزت کے ساتھ آغاز کیا : (وقالوا بعزة فرعون انالنحن الغالبون) "اور انہوں نے کہا فرعون کی عزت کی قسم کہ ہم ہی کامیاب ہوں گے"۔ (شعراء --- 44)
لیکن وہ بہت ہی جلد موسٰی کے عصا سے شکست کھاگئے لیکن وہی جس وقت فرعون کے ذلت بار پرچم کے سائے سے باہر نکلے اور توحید کے سائے میں قرار پائے اور ایمان لے آئے، تو ایسے طاقتور اور ناقابل شکست ہو گئے کہ فرعون کی سخت ترین و دھمکیاں بھی ان پر اثرانداز ہوئیں ۔ انہوں نے اپنے ہاتھ پاؤں یہاں تک کہ اپنی جان بھی عاشقانہ راہ خدا میں دے دی اور شربت شهادت نوش کرلیا ۔ انہوں نے اپنے اس عمل کے ذریعے یہ واضح کر دیا کہ وہ کہ زر اور زور کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے اور وہ ناقابل شکست ہیں اور ان کی ہی پُرافتخار تاریخ آج ہمارے لیے ایک سبق آموز دینا ہے۔