Tafseer e Namoona

Topic

											

									  پاک اورصالح گفتار و کردار خدا کی طرف لے جاتے هیں

										
																									
								

Ayat No : 8-10

: فاطر

أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ۸وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ ۹مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ ۱۰

Translation

تو کیا وہ شخص جس کے بفِے اعمال کو اس طرح آراستہ کردیا گیا کہ وہ اسے اچھا سمجھنے لگا کسی مومن کے برابر ہوسکتا ہے - اللرُجس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے تو آپ افسوس کی بنا پر ان کے پیچھے اپنی جان نہ دے دیںاللہ ان کے کاروبار سے خوب باخبر ہے. اللرُ ہی وہ ہے جس نے ہواؤں کو بھیجا تو وہ بادلوں کو منتشر کرتی ہیں اور پھر ہم انہیں مفِدہ شہر تک لے جاتے ہیں اور زمین کے لَردہ ہوجانے کے بعد اسے زندہ کردیتے ہیں اور اسی طرح مفِدے دوبارہ اٹھائے جائیں گے. جو شخص بھی عزّت کا طلبگار ہے وہ سمجھ لے کہ عزّت سب پروردگار کے لئے ہے - پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انہیں بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے اور ان کا مکر بہرحال ہلاک اور تباہ ہونے والا ہے.

Tafseer

									  تفسیر 
                 پاک اورصالح گفتار و کردار خدا کی طرف لے جاتے هیں 
 چونکہ گزشتہ آیات میں لوگوں کی دو گروہوں میں تقسیم ہوئی تھی ، ایک "گروہ مؤمن" اور "ایک گروہ کافر" یاایک گروه "حزب اللہ اور شیطان کا دشمن" اور دوسراگروہ" اس کا پیرو اور اس کاحزب" و پہلی زیر بحث آیت ان دونوں گروہوں کی ایک اہم خصوصیت کو ، جو واقع میں ان کے تمام پروگراموں کا سرچشمہ ہے ، بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: کیا وہ شخص کہ جس کے عمل کی برائی اس کی نظروں میں زنیت دے دی گئی ہے ، اور وہ اس کو ایک اچھی اور خوبصورت بات سمجھتا ہے ، اس شخص کی مانند ہے کہ جو واقعات کو بعینہ اسی طرح سے جیسے کہ وہ ہیں - اچھے یا برے - درک کرتاہے"؟ (افمن زین له سوء عمله فراه حسنًا)۔ 
 حقیقت میں یہ مسئلہ گمراہ اور ہٹ دھرم قوموں کی سب بدبختیوں کی کلید ہے، کیونکہ ان کے تمام برے اعمال ، ان کے سیاہ دل اور خواہشات نفسانی سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے ان کی نظر میں خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ 
 یہ بات محتاج ثبوت نہیں ہے کہ اس قسم کا آدمی نہ تو وعظ و نصیحت کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی ان تنقید کو سننے کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور نہ کی اپنی رفتار کو بدلنے پر تیار ہوتا ہے۔ 
 اور وہ اپنے اعمال کے سلسلہ میں تجزیه وتحلیل کرتا ہے اور نہ ہی ان کے انجام سے ڈرتا ہے۔ 
 اور اس سے بالا تربات یہ ہے کہ جس وقت برائی اوراچھائی یا قباحت و زیبائی کی بات چھڑتی ہے ، توا چھائیوں اورزیبائیوں ضمیر کا مرجع اپنی ذات کو سمجھتا ہے، اور برائیوں اور قباحتوں ضمیر کا مرجع مومنین کو ۔ اور کتنے ہی کفار لجوج ایسے ہیں کہ جس وقت انہوں نے حزب شیطان پرگزرے ہوۓ  عذاب اور ان کے انجام کے بارے میں سنا تو انہوں نے اس کو سچے مومنین پر منطبق کردیا اور خود اپنے  آپ کو حزب اللہ کا مصداق شمار کیا ۔ 
 اور یہ ایک بہت ہی بڑی مصیبت اور دکھ کی بات ہے۔ 
 لیکن وہ کون ہے کہ جو بدکاروں کے برے اعمال کو ان کی نظر میں جلوہ دیتا ہے؟ کیا خدا ؟ 
 یاہواءے نفس ؟ یا شیطان؟ 
 اس میں شک نہیں کہ عامل اصلی تو ہوائے نفس اور شیطان ہی ہے ، لیکن چونکہ یہ اثر خدا نے ان کے اعمال میں پیدا کیا ہے لہذا انہیں خدا کی طرف بھی منسوب کیا جاسکتا ہے کیونکہ انسان جب و کسی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو ابتداء میں چونکہ ان کی فطرت پاک اور ان کا وجدان بیدار اور ان کی عقل واقع بیں ہوتی ہے لہذا وہ اپنے برے عمل سے بے چین اور پریشان ہوتے ہیں ، لیکن جس  قدر وه اس عمل کو دہراتے ہیں تو ان کی پریشانی میں کمی ہوتی جاتی ہے۔ 
 آہستہ آہستہ وہ بے پرواہی کے مرحلہ تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر پھر بھی اس عمل کو دہراتے رہیں تو برائیاں ان کی نظر میں اچھائیاں ہوجاتی ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے لیے افتخارات اور فضائل شمار کرنے لگ جاتے ہیں ، حالانکہ وہ بدبختی کی منجدھار میں غوطہ زن ہوتے ہیں ۔ 
 قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس وقت قرآن اس سوال کو پیش کرتا ہے کہ : "کیا وہ شخص کہ جس کے د عمل کی برائی اس کی نظر میں مزین کر دی گئی ہے اور وہ اسے زبیا اور خوبصورت نظر آتی ہے ....  " تو اس کے نقط مقابل کو صراحت کے ساتھ ذکر نہیں کرتا ۔ گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ سننے والے کو ایک وسیع گنجائش دے تاکہ وہ ان مختلف امور کو کہ جو نقطہ مقابل بن سکتے ہیں اپنی نظر میں مجسم کرے ۔اور انہیں زیادہ سے زیا دہ سمجھ سکے ۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ کیا اس قسم کے افراد واقع ہیں افراد کی طرح ہیں ؟ 
 کیا اس قسم کے آدمی کے لیے بھی نجات کی امید ہے۔ ؎1 
 اس کے بعد قرآن ان دونوں گروہوں کے درمیان فرق کا سبب بیان کرتے ہوئے مزید کہتا  ہے : "خدا جس شخص کو چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے ہدایت کرتا ہے"۔ ( فان الله يضل من يشاء ويهدي من يشاء) ۔ 
 اگر پہلے گروہ کے اعمال ان کی نظر میں زینت دے دیئے گئے ہیں تو یہ خدا کی طرف سے انہیں  گمراہی میں رکھنے کا نتیجہ ہے، وہی خدا ہے کہ جس نے برے اعمال کی تکرار میں یہ خاصیت قرار دے دی ہے کہ نفس انسانی اس کا خوگرہوجاتا ہے اور اس کے ہم رنگ اور ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ 
 اور وہی خدا ہے کہ جو پاک دل مومنین کو ایسی ناقد و بینا آنکھیں اور ایسے کان ۔ کہ جو حقائق کو اس  طرح درک کرنے والے ہوں جیسے کہ وہ ہیں۔ بخشتا ہے۔ 
 واضح رہے کہ یہ مشیت الٰہی اس کی حکمت کے ساتھ توام ہے۔ اور ہر شخص کو جس کا وہ لائق ہے اس کو وہی دیتا ہے۔ 
 اسی لیے آیت کے آخر میں فرماتا ہے : مبادا ان کی وضع و کیفیت پر شدت تاسف اور حسرت کے زیر اثر تو اپنی جان دے بیٹھے"، (فلاتذهب تفك عليهم حسرات)۔ 
 یہ تعبیراسی تعبیر کی طرح ہے کہ جو سورۂ شعراء کی آیہ 3 میں بیان ہوئی ہے: (لعلك باخع نفسك  الا يكونوا مؤمنین)۔  "گویا تو چاہتا ہے کہ اپنی جان گنوا بیٹھے کہ وہ ایمان نہیں لاتے"۔ ؎2 
 "حسرات"  کی تعبیر کہ جو اصطلاح کے مطابق  "مفعول لاجله"  ہے گزشتہ جملہ کے لیے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تو نہ صرف ایک ہی حسرت ان کے لیے رکھتا ہے، بلکہ تجھے ان پر کئی حسرتیں ہیں۔ 
 نعمت ہدایت کو ہاتھ سے دینے کی حسرت ، گوہرانسانیت ضائع کرنے کی حسرت تشخیص کی جس ہاتھ سے دے بیٹھنے کی حسرت ، یہاں تک کہ وہ برائی کو اچھائی سمجھنے لگے ہیں ، اور آخر میں پروردگار کے قہر و غضب کی آگ میں گرفتار ہونے کی حسرت. 
 لیکن توحسرت نہ کر: "اس لیے کہ خدا ان کے اعمال سے آگاہ ہے ، اور وہ جس چیز کے لائق ہیں وہی چیزانہیں دے گا" (ان الله عليم بما یصنعون)۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     اس سے واضح ہو گیا ہے کہ اس آیت میں ایک جملہ مقدر ہے جو ممکن ہے کہ اس طرح ہو: "کمن ليس كذالك .... کمن یحساب نفسه ويری القبيع قبيحا... هل یرجی له صلاح و متاب۔ 
  ؎2     اوپر والی آیت کے لیے مفسرین نے ایک اور تفسیر بھی بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ پیغمبیر ان کے آزاروں اور مخالفتوں کی شدت اور سختی سے پریشان نہ ہو کیونکہ خدا ان کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے اور ان سے برمحل انتقام لے گا۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 آیت کے لب ولہجہ سے پیغمبراسلامؐ کی گمراہوں اور منحرفین کے بارے میں دل سوزی پورے طور پر ظاہر ہے۔
اور ایک سچے خدائی رہبر کی حالت میں ہوتی ہے ، کہ وہ لوگوں کے حق کو قبول نہ کرنے ، اور باطل کے سامنے سرتسلیم خم کرنے ، اور سعادت و نیک بختی کے تمام وسائل کو پس پشت ڈال دینے سے اس  طرح غمگین ہوتا ہے جیسے کہ وہ اپنی جان ہی دے دے گا۔ 
 بعد والی آیت میں گزشتہ مباحث کی طرف توجہ کرتے ہوئے ۔ کہ جو ہدایت و ضلالت اورایمان و کفر کے سلسلے میں گزرچکی ہیں ۔ مبدأ و معاد کے بارے میں مختصراور واضح بیان کر رہا ہے، اور "مبداء ومعاد" کے اثبات کو ایک عمدہ دلیل میں ایک دوسرے کے قریب کرتے ہوئے فرماتا ہے : "خدا وہی ہے کہ جس نے ہواؤں کو بھیجا تاکہ وہ بادلوں کو چلائیں" (والله الذي ارسل الرياح فتشير سحابًا)۔ ؎1 
 "پھر ہم ان بادلوں کو مردہ اور خشک زمین کی طرف چلاتے ہیں" (فسقناه الى بلد ميت). 
 "اور اس کے ذریعہ ہم زمین کومردہ ہونے کے بعد زندہ کرتے ہیں"  (فاجينا به الارض بعد موتها)۔ 
 "ہاں! مردوں کا موت کے بعد زنده ہونا بھی اسی طرح ہے (کذالك النشور)۔ 
 ایک جچاتُلا نظام جو ہواؤں کے چلنے، اور اس کے بعد بادلوں کی حرکت اور اس کے بعد بارش و کے حیات بخش قطرات کے برسنے اور اس کے بعد مردہ زمینوں کے زندہ ہونے پرجاری ہے وہ خود بہترین دلیل اور عمدہ ترین گواہ ہے اس حقیقت پر کہ ایک حکیم و دانا کا دست قدرت اس کارخانے کے پیچھے برقرار ہے اور وہ اس کی تدبیرکررہا ہے۔ 
 پہلے گرم اور جلا دینے والی ہواؤں کو حکم دیتا ہے کہ وہ مناطق استواء سے سرد منطقوں کی وطرف جائیں اور اپنے راستے میں پڑنے والے سمندروں کے پانی کو بخارات میں تبدیل کرتے ہوئے آسمان کی اس طرف بھیجیں ، اس کے بعد قطبین کی طرف سے منظر طور پر چلنے والی ٹھنڈی ہواؤں کو ــــــ کہ جو ہمیشہ پہلے چلنے والی ہواؤں کے مخالفت سمت میں چلتی ہیں ــــ حکم دیتا ہے کہ وہ حاصل شده بخارات کو جمع کر کے بادلوں کی تشکیل دیں۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   ؎1   اس بارے میں کہ پہلا فعل ماضی کی شکل میں کیوں آیا ہے (ارسل) اور دوسرا فعل مضارع کی صورت میں (فتشیر) ایک غائب کی صورت میں آیا ہے (ارسل) اور دوسرامتکلم کی صورت میں (فسقناه) اس کی مفسرین سے کئی وجوہ بیان کی ہیں لیکن اور ان میں کوئی دقیق بات نہیں لہذا ان سے صرف نظرکیاگیاہے ، ممکن ہے کہ یہ بیان میں تغتن اور گفتگو میں تنوع کےلیےہو۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 پھر انہیں ہواؤں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بادلوں کو اپنے دوش پر اٹھا کرمردہ بیابانوں کی طرف دھکیل کرلےجائیں تاکہ بارش کےزندہ کرنے والے قطرات وہاں برسیں ۔ 
 پھرمخصوص حالات میں زمین اور ان نباتات کے بیجوں کو کہ جو اس میں بکھیرے ہوئے ہیں ، پانی اورنشوونما کو قبول کرنے کا حکم دیتا ہے اور ظاہراً پست و بے قدروقیمت موجود سے زندہ اور بہت ہی متنوع اور زیبا ، خرم دسرسبز اورپُربار موجودات کو وجود میں لاتا ہے۔ یہ اس کی قدرت کی بھی دلیل ہے ، اس کی حکمت پر بھی گواہ ہے ، اور قیامت کبرٰی کی نشانی بھی ہے۔ 
 حقیقت میں اوپر والی آیت چند جہات سے توحید کی طرف دعوت دیتی ہے۔ 
 برہان نظم اور برہان حرکت کے لحاظ سے ، کہ ہر متحرک موجود کے لیے کسی محرک کی ضرورت ہے ، اور نعمتوں کے بیان کے لحاظ سے کہ جو فطری ہونے کی بناء پر منعم کا شکر ادا کرنے کا محرک ہے، اور کئی جہات سے معاد پربھی دلیل ہے۔ 
 موجودات کے سیر تکامل و ارتقاء کے لحاظ سے، اور مردہ زمین سے زندگی اور حیات کے چہره کے نمودار ہونے کے لحاظ سے ، یعنی اے انسان معاد کا منظرہرسال کی مختلف فصلوں میں تیری آنکھ کے سامنے اور تیرے پاؤں کے نیچے ہے۔ 
 اس نکتہ کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ ، "فتشیر" کا جملہ "اثارہ" کے مادہ سے منتشر کرنے اور پراگندہ کرنے کے معنی میں ہے اور اس مقام پر سمندروں کے اوپر ہواؤں کے چلنے کے اثر سے بادلوں کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے ، چونکہ بادلوں کے چلنے کا مسئلہ بعد والے جملہ (فسقناه الٰى بلد میت) میں آیا ہے۔ 
 یہ بات لائق توجہ ہے کہ جو ایک حدیث میں پیغمبراکرمؐ سے منقول ہوئی ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا کہ: 
  "یارسول الله کیف یحي الله الموتٰى وما أية ذالك في خلقه"۔ 
  اے اللہ کے رسولؐ! خدا  مُردوں کو کیسے زندہ کرے گا ، اور عالم خلقت میں اس کی نشانی اور نمونہ کیا ہے؟ 
 پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : 
  "اما مررت بوادی اھلك ممحلا ثم مررت به بهتر خضرا ؟" 
  کیا تو کبھی اپنے قبیلہ کی سرزمین سے نہیں گزرا درانحا لیکہ وہ مردہ اورخشک تھی اور پھر تو وہاں سے اس حالت میں نہیں گزرا کہ وہ خرم و سرسبز ہونے کی وجہ سے ایسے لگتی ہے جیسے کہ حرکت میں آگئی ہے۔ 
   "قلت نعم يارسول الله" 
  "میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول"  
  "قال : فكذالك يحي الله الموت وتلك اٰيته في خلقه"  
  آپؐ نے فرمایا : خدا اس طرح سے مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یہ عالم خلقت میں اس کا نمونہ اورنشانی ہے"۔ ؎1 
 ہم نے تفسیر نمونہ کی سولہویں جلد میں سورہ روم کی آیہ 48 کے ذیل میں ایک دوسری بحث اس  سلسلہ میں بیان کی ہے۔ 
 توحید کی اس بحث کے بعد مشرکین کے ایک بہت بڑے اشتباہ اور غلطی کی طرف ۔ کہ وہ اپنے لیے بتوں سے عزت کے خواستگار تھے، اور پیغمبرؐ پر ایمان لانے کو اپنے گرد جمع شدہ لوگوں کی پراگندگی کا سبب سمجھتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ: "ان نتبع الهدٰى معك نتخطف من ارضنا" اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت کو قبول کرلیں ، تو طاقتور دشمن ہمیں اس سرزمین سے اچک لیں"۔ (قصص ـــــــ 57 ) ــــــ اشاره کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: "جو لوگ عزت چاہتے ہیں وہ خدا سے طلب کریں کیونکہ ساری عزت خدا ہی کے ساتھ مخصوص ہے"۔ (من كان يريد العزة فلله العزة جميعًا)۔ 
 "عزت" "مفردات" میں راغب کے قول کے مطابق اصل میں وہ حالت ہے کہ جو انسان کو محکم ، مضبوط اور ناقابل شکست بنا دیتی ہے ، سخت اور محکم زمینوں کو بھی اسی لیے "اعزاز" (بروزان اساس) کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ صرف اسی کی ذات پاک ہے کہ جو ناقابل شکست ہے ، ورنہ تمام مخلوقات اپنی محدودیت کی بناء پر قابل شکست ہے۔ لہذا ساری عزت اسی کے لیے ہے۔ اورجو شخص بھی عزت حاصل کرتا ہے وہ اسی کے غیر متناہی دریائے عزت کی برکت سے ہے۔ 
 ایک حدیث میں انس سے منقول ہے کہ پیغمبر نے فرمایا : 
  "ان ربکم يقول كل يوم انا العزیزفمن اراد عز الدارين فليطع العزیز!" 
  "تمہارا پروردگارہر روز کہتا ہے کہ عزیز میں ہوں پس جو شخص دونوں جہانوں کی عزت 
  چاہتا ہے وہ عزیز کی اطاعت کرے"۔ 
  حقیقت میں آگاہ اور باخبر انسان کو چاہیئے کہ وہ پانی سرچشمہ سے حاصل کرے کیونکہ وہاں صاف شفاف اور فراواں پانی ہوتا ہے، نہ کہ چھوٹے چھوٹے برتنوں سے، کیونکہ ایک تو وہ محدود ہیں اور دوسرے آلودہ بھی اور وہ اس کے اور اس کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں ۔ ۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
  ؎1   تفسیر قرطبی جلد 8 ص 5409 (زیر بحث آیت کے ذیل میں) ۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 امام حسن علیہ السلام کے حالات زندگی میں ہم پڑھتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری وقت میں جبکہ آپ کے ایک صحابي ، جنادہ بن ابی سفیان" نے آپ سے وعظ ونصحیت کی درخواست کی تو آپ نے قیمتی اور موثر نصیحتیں اس کے لیے بیان کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ : 
  "واذا اردت عزًابلاعشيرة وهيبة بلاسلطان نا خرج من ذل 
  معصية الله الي عز طاعة الله"۔ 
  جب تو یہ چاہے کہ قبیلہ وعشرہ کے بغیر عزیز رہے، اور اقتدار سلطنتی کے بغیر اور ہیبت 
  رکھے تو خدا کی معصیت کی ذلت سے نکل کر اس کی اطاعت کی عزت کی پناہ میں آجا"۔ (بحارالانور -ج 44 ۔ص 139) 
 اور اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیات میں ، "عزت" کو خدا کے علاوہ پیغمبر اور مومنین  کےلیے بھی قرار دیتا ہے : " والله العزة ولرسوله وللمؤمنين"۔ (المنافقون ۔ 8) 
 اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بھی پروردگار کی عزت کے سایہ سے عزت حاصل کی ہے، اور اس کی اطاعت کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں۔ 
 اس کے بعد عزت حاصل کرنے کی راہ کی اس طرح تشریح کرتا ہے کہ : پاکیزہ باتیں اس کی طرف صعود کرتی ہیں، (اليه يصعد الكلم الطيب )- "اور وہ عمل صالح کو اوپر لے جاتا ہے" (والعمل الصالح يرقعه) - 
 "الكلم الطيب"  پاکیزه باتوں کے معنی میں ہے، اور باتوں کی پاکیزگی اس کے مضمون کی پاکیزگی سے ہوتی ہے اور مضمون کی پاکیزگی ان مفاہیم کی بناء پر ہوتی ہے کہ جو پاک و درخشان عینی واقعیتوں اورحقیقتوں کے مطابق ہوتے ہیں ، اور خدا کی ذات پاک سے بالاتر اور اس کے حق و عدالت کے آئین سے بالاتر ، اور ان نیک اور پاک ہستیوں سے کہ جو اس کی نشرواشاعت کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں،  سے بڑھ کر اور کونسی حقیقت ہوگی؟
  اسی لیے "الكلم الطيب" ، کی ، مبداء و معاد اور دین خدا کے بارے میں صحیح اعتقادات کے ساتھ تفسیر کی گئی ہے۔ 
 ہاں ! ایسا ہی پاک و پاکیزہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جو خدا کی طرف بلند ہوتا ہے، اور اپنے حامل کوبهی پر پرواز دیتا ہے، تاکہ وہ حق تعالٰی کے قرب میں جگہ حاصل کرے اور خدائے عزیز کی عزت میں غلطاں ہوجائے۔ 
 یقینًا اس پاک و پاکیزہ اصل سے ایسی شاخیں پھوٹتی ہیں کہ جن کا پھل عمل صالح ہے ہرشائستہ ، مفید اور اصلاحی کام ، چاہے وہ حق کی طرف دعوت ہو، چاہے مظلوم کی حمایت ہو ، چاہے مظلوم کی حمایت ہو،چاہے ظالم و ستمگر کے ساتھ مبارزہ ہو ، چاہے خود سازی و عبادت ہو اور چاہے تعلیم و تربیت ہو ، خلاصہ یہ کہ ہر وہ چیز کہ جو اس وسیع و عریض مفهوم میں داخل ہو، اگر وہ خدا کے لیے اور اس کی رضا کے لیے انجام پائے تو وہ بھی بلند ہوجاتی ہے اور لطف پروردگار کے آسمان پر عروج کرتی ہے، اور اپنے حامل کی معراج اور کامل واراتقاء کا سبب بنتی ہے، اور حق تعالٰی کی عزت سے بہرہ اندوز ہوتی ہے۔ 
 یہ وہی چیز ہے کہ جس کی طرف سورة ابرا ہیم کی آیہ 24 میں اشارہ ہوا ہے: " الم تر کیف ضرب الله مثلا كلمةً طيبةً كشجرة طيبةٍ أصلها ثابت وفرعها في السماء تؤتي أكلها كل حين باذن ربها"  "کیا تونے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاکیزه باتوں کے لیے کیسی مثل بیان کی ہے؟ جیسا کہ وہ ایک پاک درخت ہے کہ جس کی جڑ ثابت اور برقرار ہے اور اس کی شاخ آسمان میں پھیلی ہوئی ہے ، وہ ہر وقت اپنے پروردگار کے اذن سے اپنے پھل (اشتیاق رکھنے والوں کو) دیتا ہے"۔ 
 ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جو بعض مفسرین نے کلمہ طیبہ کی "لااله الا اللہ" سے اور بعض دوسروں نے "سبحان الله والحمد الله ولا اله الا الله والله اكبر" سے اوربعض نے توحید سے ، توحید کے بعد "محمد رسول الله، و علی ولی الله و خليفة رسوله" کے ساتھ تفسیر کی ہے ، یا بعض روایات میں "الکلم طيب"و "العمل الصالح"  "ولایت اہل بیت یا اسی کے مانند دوسری چیزوں سے تفسیرکی ہے ، اور یہ سب اسی وسیع وعریض مفہوم کے واضح مصادیق کے بیان کی قبیل سے ہیں اور اس کے مفہوم کو محدود نہیں کرتے کیونکہ ہر وہ بات کہ جو پاک و پاکیزہ اور بلند مفہوم کی حامل ہو وہ سب اس عنوان میں جمع ہوجاتی ہیں ۔ 
 بہرحال وہی خدا ہے جو گزشتہ آیت کے اقتضًا کے مطابق مردہ زمین کو بارش کے حیات بخش قطرات سے زندہ کرتا ہے ، وہی "کلاِم طیب" اور "عمل صالح"  کوبھی پرورش کرتا ہے، اور اپنے قرب اور جوار رحمت تک پہنچتاتا ہے۔ 
 اس کے بعد نقطۂ مقابل کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے: "وہ لوگ کہ جو بُرے منصوبے بناتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ (والذين يمكرون السيئات لهم عذاب شديد)۔ 
 "اور ان کی آلوده و ناپاک و فاسد سعی و کوشش نابود ہوجاتی ہے اور کسی مقام تک نہیں پہنچتی (ومكراولٰئك هو یبور)۔ 
 اگرچہ یہ فاسدین مفسد یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ظلم وستم اور جھوٹ اور مکاری کے ذریعہ اپنے لیے عزت حاصل کر سکتے ہیں ، اور مال ودولت اور طاقت و قدرت بھی لیکن انجام کار انہوں نے اپنے لیے عذاب الہی بھی فراہم کیا ہے اور ان کی ساری کوششیں بھی برباد ہو جاتی ہیں۔ 
 کچھ لوگ ایسے ہی تھے کہ جو قرآن کے بیان کے مطابق " بناوٹی خداؤں کو اپنے لیے باعث عزت خیال کرتے تھے" (واتخذوا من دون الله اليۃ ليكونوا لهم عزًا). (مريم ــــــــ 81) 
 اور ایسے منافق بھی تھے کہ جو اپنے آپ کو عزیز اور مومنین کو ذلیل خیال کرتے تھے اور: "وہ یہ کہتے تھے کہ اگر ہم مدینہ میں پلٹ کرگئے توعزت والے ذلیلوں کو باہر نکال پھینکیں گے“ (يقولون لئن رجعنا الى المدينة ليخرجن الاعزمنها الأذل) (المنافقون --- 8) 
 کچھ افراد ایسے بھی تھے کہ جو فرعونوں کے قرب کو اپنی عزت کا سبب تصور کرتے تھے" یاگناه و ظالم سے عزت و آبرو طلب کرتے تھے لیکن وہ سب تباہ ہو گئے اور یہ صرف ایمان و عمل صالح ہی ہے کہ جلد خدائے عزیز کی طرف اوپر جاتاہے۔ 
 "مکر" اگرچہ لغت میں ہر قسم کی چارہ جوئی کے معنی میں ہے لیکن بعض مواقع پر ایسی چارہ جوئی کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ جو فساد کے ساتھ توآم ہو - زیر بحث آیت اسی معنی میں ہے۔ 
 "سیئات" اوپر والی آیت میں تمام برائیوں اور قباحتوں کے لیے عام اس سے کہ وہ عقائد کی برائیاں ہوں یا عمل کی ، سب کوشامل ہے۔ 
 اور یہ جو بعض نے پیغمبر اسلامؐ کو قتل کرنے یا مکہ سے جلا وطن کرنے کے سلسلہ میں مشرکین کی سازشوں کے ساتھ تفسیر کی ہے تو یہ واقع میں اس کے ایک مصداق کو بیان کیا ہے، نہ کہ اس کے پورے مفہوم کو۔ 
 "یبور" کاجملہ  "بوار" اور "بوران"  کے مادہ سے اصل میں حد سے زیادہ کساد بازاری کے معنی میں ہے، اور چونکہ اس قسم کا کساد نابودی کا سبب بنتا ہے، اس لیے یہ لفظ ہلاکت و نابودی کے و معنی میں استعمال ہوتا ہے ، مشہورضرب المثل ہے، (کسدحتٰی فسد) "اس قدر کساد اور مندا ہوا کہ فاسد ہوگیا"۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ