Tafseer e Namoona

Topic

											

									   ملائکہ قرآن مجید میں

										
																									
								

Ayat No : 1-3

: فاطر

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۱مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۲يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ۳

Translation

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا اور ملائکہ کو اپنا پیغامبر بنانے والا ہے وہ ملائکہ جن کے پر دو دو تین تین اور چار چار ہیں اور وہ خلقت میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ کردیتا ہے کہ بیشک وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے. اللرُ انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کھول دے اس کا کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جس کو روک دے اس کا کوئی بھیجنے والا نہیں ہے وہ ہر شے پر غالب اور صاحبِ حکمت ہے. انسانو! اپنے اوپراللہ کی نعمت کو یاد کرو کیا اس کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے وہی تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو تم کس طرف بہکے چلے جارہے ہو.

Tafseer

									  نكته 
             ملائکہ قرآن مجید میں 
 قرآن مجید میں ملائکہ کا بہت زیادہ بیان ہوا ہے۔ 
 بہت سی آیات قرآن فرشتوں کی صفات ، خصوصیات ، فرائض اور وظائف اور ذمہ داریوں کے سلسلہ میں گفتگو کرتی ہیں ، یہاں تک کہ قرآن نے ملائکہ پر ایمان رکھنے کو خدا ، انبیاء اور کتب آسمانی پرایمان رکھنے کی ردیف میں قرار دیا ہے ، اور یہ چیز اس مسئلہ کی بنیادی اہمیت کی دلیل ہے ، (امن الرسول و بما انزل اليه من ربه والمؤمنون على أمن بالله وملائكته وكتبه ورسله) ۔
  پیغمبراسلام اس چیز پر کہ جو ان کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے ایمان لائے ، اور مومنین بھی خدا ، اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں اور رسولوں سب پر ایمان لائے ہیں ( بقرہ ــــــــــــــــ  285) 
 اس میں شک نہیں کہ فرشتوں کا وجود امور غیبیہ میں سے ہے کہ جس کے ثابت کرنے کے لیے ان صفات و خصوصیات کے ساتھ اولہ نقلیہ کے علاوہ کوئی اور راہ نہیں ہے اور ایمان بالغیب کے حکم کے مطابت انہیں قبول کرنا چاہیئے 
 قرآن مجید ان کی خصوصیات کو مجموعی طور پر اس طرح شمار کرتا ہے: 

 1- فرشتے عاقل اور باشعور موجودات ہیں اور خدا کے گرامی قدر اور معزز بندے ہیں :( بل عباد مكرمون)  (انبیاء ـــــــ 26)۔ 
 2- وہ خدا کے تابع فرمان ہیں اور ہرگز اس کی معصیت و نافرمانی نہیں کرتے (لايبقونه بالقول وهم باهر يعملون) (انبیاء ـــــــ 27)۔
 3- وہ خدا کی طرف سے اہم اور بہت ہی متنوع ذمہ داریاں اور وظائف اپنے ذمہ رکھتے ہیں۔ 
  ایک گروہ حاملین عرش کا ہے۔  (حاقہ - 17) 
  ایک گروه مدہر امرہے۔   (نازعات - 5 )
  ایک گروه قابض ارواح فرشتوں کا ہے۔   (اعراف - 37) 
  ایک گروہ اعمال انسانی کا نگران ہے۔  (سورہ انفطار- 10 تا 13) 
  ایک گروہ انسان کی خطرات و حوادث سے حفاظت کرتا ہے  (انعام - 61) 
  ایک گروہ سرکش اقوام کو عذاب اور سزا دینے پر مامور ہے۔   (ہود - 77) 
  ایک گروہ جنگوں میں خدا کی طرف سے مومنین کی مدد کرنے والا ہے۔  (احزاب - 4) 
  اور بالآخر ایک گروہ انبیاء کے لیے وحی کا پہنچانے والا اور ان کے پاس کتب آسمانی کا لانے والا ہے ۔ (نحل - 2 )
 اگر ہم چاہیں کہ ان کی ایک ایک ذمہ داری اور ماموریت کو شمار کریں تو بحث طویل ہوجائےگی۔ 
 4- وہ ہمیشہ خدا کی تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں جیسا کہ سورہ شورٰی کی آیت 5 میں بیان ہوا ہے: (والملائكة يسبحون بحمد ربهم ويستغفرون لمن في الارض) "فرشتے اپنے پروردگارکی تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں ، اور جو لوگ زمین میں ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں"۔ 
 5-  اس کے باوجود انسان تکامل و ارتقاء کی استعداد کے مطابق ان سے بھی برتر و الفضل تر ہے ، یہاں تک کہ تمام فرشتے بغیراستثناء کے آدمؑ کی خلقت کے وقت اس کے سجدے میں گرپڑے ، اور آدمؑ ان کے معلم قرار پائے۔ ( البقره - 30 - 34) 
 6- وہ کبھی انسان کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور انبیا بلکہ غیرانبیاء کے سامنے بھی آتے ہیں ، جیسا کہ سوره مریم میں بیان ہوا ہے کہ :"ایک عظیم خدائی فرشتہ ایک موزوں اور ٹھیک ٹھاک انسان کی شکل میں مریم کے سامنے ظاہرہوا  "(فارسلنا اليها روحنا فتمثل لها بشرًا سوتًیا) (مریم -  17) 
 دوسرے مقام پر انسانوں کی شکل میں ابراہیمؑ و لوطؑ  پر ظاہر ہوئے۔ (ہود ـــ  69 - 77) 
 یہاں تک کہ ان آیات کے ذیل میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط نے بھی انہیں موزوں انسانی شکلوں میں لکھا تھا ۔ ( ہود ــ 78)  
 کیا چہره انسانی میں ظہور ایک واقعیت عینی ہے، یا قوت ادراک میں تمثیل و تصرف ہے۔ آیات قرآنی کا ظاہر پہلا معنی ہے۔ اگرچہ بعض بزرگ مفسرین نے دوسرے معنی کا انتخاب کیا ہے۔ 
 7- روایات اسلامی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ کسی طرح بھی انسان کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہیں جیسا کہ ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جس وقت لوگوں نے آنحضرتؐ سے پوچھا کہ کیا فرشتوں کی تعداد زیادہ ہے یا انسانوں کی تو آپ فرمایا : 
  "قسم ہے اس خدا کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، آسمانوں میں 
  خدا کے فرشتوں کی تعداد زمین کے خاک کے ذرات سے بھی زیادہ ہے اور آسمان 
  میں ایک قدم رکھنےکی جگہ نہیں ہےمگریہ کہ وہاں ایک فرشتہ خدا کی تسبیح و تقدیس 
  کرتا ہے"۔ ؎1
 8- وہ نہ غذا کھاتے ہیں ، نہ پانی پیتے ہیں اور نہ ہی نکاح و ازدواج کرتے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں امام صادقؑ سے منقول ہے: 
  "ان الملائكة لايا کلون ولايشربون ولاینکحون وانمایعیشون 
  بنسيما لعرش "۔
  "فرشتے نے کھانا کھاتے ہیں نہ پانی پیتے ہیں اور نہ ہی نکا ح و ازدواج کرتے ہیں وہ 
  توصرت نسیم عرش سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ؎2 
 9- نہ انہیں نیند آتی ہے نہ سستی وغفلت ان پر طاری ہوتی ہے جیسا کہ حضرت علیؑ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ: 
  "ليس فيهم فترة ، ولا عند ھم غفلة ، ولأنه معصية ...............لا 
  يغشاهم نوم العيون ولا سهوالعقول ، ولا فترة الابدان ، لو یسکنوا 
  الأصلاب ولم تضمھم الارحام"۔ 
  نہ ان میں سستی ہے اور نہ غفلت ، نہ عصیان و نافرمانی ہے اور نہ ہی 
  ان پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے ۔ ان کی عقل سہودنسیان میں گرفتار نہیں ہوتی ،
  ان کا بدن سستی کی طرف مائل نہیں ہوتا ، اور وہ باپوں کے صلب اور ماؤں کے رحم میں 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1    بحارالانوار ، جلد 59 ص 176 (حدیث -7) اس سلسلے کی اور دوسری بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔ 
  ؎2    بحارالانوار ، جلد 59 ص 174 (حدیث -7)
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
قرار نہیں پاتے۔ ؎1 
 10- وہ مختلف مقامات اور متفاوت مدارج رکھتے ہیں بعض ہمیشہ رکوع میں ہیں ، اور بعض ہمیشہ سجدے میں ہیں۔ 
  "مامنا الاله مقام معلوم وانا لنحن الصافون وانا 
  لنحن المسبحون"۔ 
  "ہم میں سے ایک معلوم مقام رکھتا ہے ، ہم ہمیشہ صف کشیده اس کے 
  فرمان کے منتظر رہتے ہیں اورمسلسل اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں " (صافات : 164 تا 166) 
 امام صادقؑ فرماتے ہیں: 
  "وان لله ملائكة ركعًا الي يوم القيامة وان الله ملائکه سجدًا 
  الٰى يوم القيامة"۔ 
  "خدا کے کچھ فرشتے ایسے ہیں کہ جو قیامت تک رکوع میں ہیں اور کچھ فرشتے ایسے ہیں 
  کہ جو قیامت تک سجدے میں ہیں "۔ ؎2 
  ملائکہ کے اوصاف اور ان کے اصناف سے زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرنے کے لیے 
کتاب "السماء" والعالم" ، - بحارالانوار ، ابواب الملائكہ (جلد 59 ص 144 تا 326 ) کی طرف رجوع فرمائیں ، اسی طرح نہج البلاغہ خطبہ ہائے اول و 91 خطبه اشباح: 109 و 171، سے رجوع فرمائیں، اسی طرح البلاغہ خطبہ ہاۓ اول ، 91 - خطبہ اشباح: 109 ، 171 سے رجوع کریں۔ 
 
 کیا ان اوصاف کے باوجود کہ جو فرشتوں کے بارے میں بیان ہوئے ہیں وہ کوئی مجرد وجود ہیں یا مادی ؟ 
 اس میں شک نہیں کہ وہ ان اوصاف کے ساتھ اس کثیف عنصری مادہ سے تو نہیں ہو سکتے ، لیکن اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے ، کہ وہ اجسام لطیفہ سے خلق ہوئے ہیں ، ایسے اجسام کہ جو اسم عام مادہ سے مافوق ہو کہ جس سے تم آشنا نہیں ۔ 
 فرشتوں کے لیے "تجرد مطلق" کا اثبات ، حتٰی زمان و مکان اور اجزاء سے "تجرد" کوئی آسان کام نہیں ہے، اور اس مسئلہ کے بارے میں تحقیق بھی کوئی زیادہ فائدہ مند نہیں ہے ، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم  فرشتوں کو ان اوصاف کے ساتھ کہ جن کے ساتھ قرآن اور مسلمہ روایات اسلامی نے ان کی توصیف کی 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1    بحارالانوار ، جلد 59 ص 175  
  ؎2    بحارالانوار ، جلد 59 ص 174 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہے انہیں پہچانیں ، اور انہیں خدا کی عظیم اور عمده موجودات میں سے ایک عظیم نوع سمجھیں ، بغیر اس کہ ہم ان کے لیے مقام بندگی اور عبودیت کے سواکسی اور مقام و مرتبہ کے ان کے لیے قائل ہوں اور انہیں خلقت یا عبادت میں خدا کا شریک سمجھیں، کیونکہ یہ شرک اور کفر محض ہے۔ 
 فرشتوں کے بارے میں ہم اسی قدربحث پر قناعت کرتے ہیں اور اس کی تفصیل ان کتب کے حوالہ کر تے ہیں کہ جو خصوصیات کے ساتھ اس سلسلہ میں لکھی گئی ہیں ۔ 
 تورات کی بہت سی عبارتوں میں فرشتوں کو "خداؤں" کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ، کہ جو شرک آلود تعبیر ہے۔ اور موجودہ تورات کی تحریف کی نشانیوں میں سے ہے ، لیکن قرآن مجید اس قسم کی تعبیروں سے پاک اور منزہ ہے۔ کیونکہ قرآن ان کے لیے مقام بندگی و عبادت اور احکام و فرامین الٰہی کے اجراء کے سوا اور کسی مقام کا قائل نہیں ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کی مختلف آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کامل کا مقام فرشتوں سے والا ترا ور بالاتر ہے۔

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ