چند توجہ طلب امور
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۱مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۲يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ۳
تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا اور ملائکہ کو اپنا پیغامبر بنانے والا ہے وہ ملائکہ جن کے پر دو دو تین تین اور چار چار ہیں اور وہ خلقت میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ کردیتا ہے کہ بیشک وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے. اللرُ انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کھول دے اس کا کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جس کو روک دے اس کا کوئی بھیجنے والا نہیں ہے وہ ہر شے پر غالب اور صاحبِ حکمت ہے. انسانو! اپنے اوپراللہ کی نعمت کو یاد کرو کیا اس کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے وہی تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو تم کس طرف بہکے چلے جارہے ہو.
چند توجہ طلب امور
ا۔ "يفتح" کی تعبیر "فتح" کے مادہ سے کھولنے کے معنی میں ہے، یہ رحمت الٰہی کے خزانوں کے وجود کی طرف اشارہ ہے ، جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے ، توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ خزانے ایسے ہیں کہ جو کھلنے کے ساتھ ہی مخلوقات پر جاری ہو جاتے ہیں اور کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں رہتی اور کوئی شخص اس سے مانع نہیں ہوسکتا۔
"رحمت" کے کھولنے کو اس کے امساک اور روکنے پر مقدم رکھنا اس بناء پر ہے کہ ہمیشہ خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔
2- رحمت کی تعبیر بہت ہی وسیع اور کشادہ معنی رکھتی ہے کہ جو عالم کے مواہب اور نعمات کو شامل ہے ، کبھی معنوی پہلو رکھتی ہے اور کبھی مادی پہلو ، اسی بناء پر جب کبھی کوئی انسان تمام ظاہری دروازوں کو اپنے سامنے بند دیکھتا ہے تو پھر بھی وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ رحمت الٰہی اس کے دل و جان میں جاری و ساری ہے۔ لہذا وہ خوش وخرم اور آرام و مطمئن ہے ، اگرچہ وہ زندان کی کال کوٹھری میں گرفتار ہو
اس کے برعکس کبھی تمام ظاہری دروازوں کو انسان اپنے اوپر کھلا ہوا دیکھتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے رحمت الٰہی کے دروازے اس کی جان پر بند ہو گئے ہیں، لہذا وہ اپنے آپ کو اس طرح تنگی اور دباؤ میں محسوس کرتا ہے کہ جیسے دنیا اپنی پوری وسعت کے با وجود اس کے لیے ایک تاریک اور وحشت ناک زندان ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو بہت سے لوگوں کے لیے حقیقت کا درجہ رکھتی ہے۔
3۔ دو اوصاف "عزیز و حکیم" کی تعبیر رحمت کے "ارسال" اور "امساک" پر اس کی قدرت کو بیان کرتی ہیں ، اور اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ کھولنا اور باندهنا ہرجگہ حکمت کی بنیاد پر ہے ، کیونکہ اس کی قدرت اس کی حکمت سے ملی ہوئی ہے۔
بہرحال اس آیت کے مفہوم ومضمون کی طرف توجہ ایک مومن انسان کو اس طرح سکون و آرام پہنچاتی ہے کہ وہ تمام حوادث و مصائب کے مقابلہ میں کھڑا ہوجاتا ہے، اور کسی مشکل سے نہیں ڈرتا، اورکسی کامیابی سے مغرور نہیں ہوتا۔ ؎1
بعد والی آیت میں "توحید در عبادت" کے مسئلہ کی طرف "توحید درخالقیت و رازقیت" کی اساس پراشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ : اے لوگو! اپنے اوپر خدا کی نعمت کو یاد کرو"۔ (یاایها الناس اذكروا نعمة الله علیکم) ۔
ٹھیک طریقہ سے غور و فکر کرو کہ یہ تمام انعامات اور برکات ، اور زندگی کے یہ تمام وسائل و امکانات کہ جو تمہارے اختیار میں قرار دیئے گئے ہیں اور تم ان نعمتوں کے اندر ڈوبے ہوئے ہو ، ان کا اصل پیدا کرنے والا کون ہے اور ان کا سر چشمہ کیا چیز ہے؟
"کیا خدا کے سوا کوئی اور خالق آسمان و زمین سے نہیں روزی دیتا ہے" (هل من خالق غيرالله یرزقكم من السماء والأرض )-
وہ کون ہے کہ جو سورج کی حیات بخش روشنی اور بارش کے زندہ کرنے والے قطرات اور بادنسیم
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 قابل توجہ بات یہ ہے کہ "فلا ممسك لها" کی ضمیرمونث کی شکل میں ہے اور "فلا مرسل له" میں مذکر کی شکل میں چونکہ پہلی کا مرجع لفظ "رحمت" ہے، اور دوسری کا "ما" ہے ، علاوہ ازیں "من بعده" ظاہرًا خدا کی طرف لوٹتا ہے یعنی خدا کے سوا کوئی اس کے کھولنے پر قادر نہیں ہے، یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ یہ ضمیر "امساک" کی طرف لوٹے یعنی "من بعد امسال اللہ" کہ جو معنی کے لحاظ سے چنداں فرق نہیں رکھتا ۔
ا۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کی روح پرور موجیں آسمان سے تمہاری طرف بھیجتا ہے؟ اور کون ہے وہ کہ جو زمین سے معادون ذخائر، اور مواد غذائی ، انواع و اقسام کے نباتات اور پھل اور دوسری برکارت اس زمین سے تمہارے لیے نکالتا ہے۔
اب جبکہ تم اس بات کو جانتے ہو کہ ان سب برکات کا سرچشمہ وہی ہے تو پھر جان لو کہ : "اس کے سوا کوئی اور معبود بھی نہیں ہے اور عبادت و پرستش صرف اسی کی ذات پاک کے لائق ہے" (لا اله الاهو)۔
"اس حالت میں تم کس طرح حق کی راہ سے باطل کی طرف منحرف ہوتے ہو اور اللہ کے بجائے بتوں کے سامنے سجدہ کرتے ہو" ( فانی تؤفكون)۔
"تؤفكون" "افك" (بروزن فکر) کے مادہ سے ہے، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ "انک " ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو اپنی اصلی حالت سے بدل جائے لہذا ہراس بات کو کہ جو حق سے اانحراف پیدا کرے "انک" کہتے ہیں ، اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جھوٹ اور تہمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو اسی لحاظ سے ہے، البتہ بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ لفظ جھوٹ اور بڑی بڑی تہمتوں کو بیان کرتا ہے۔