۲۔ غور وفکر کے سلسلے میں رویاتِ اسلامی
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۖ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ۴۶
پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے ایک ایک دو دو کرکے اٹھو اور پھر یہ غور کرو کہ تمہارے ساتھی میں کسی طرح کاجنون نہیں ہے - وہ صرف آنے والے شدید عذاب کے پیش آنے سے پہلے تمہارا ڈرانے والا ہے.
روایات ِ اسلامی میں . قرآن کی پیروی کرتے ہوئے . غور وفکر کامسئلہ اہمیت کے اعتبار سے درجہ اوّل میں قرار پاتاہے ،اوربہت ہی بلیغ اور پُر کشش تعبیرات اس سلسلہ میں دیکھا ئی دیتی ہیں ، کہ جن کے کچھ نمونے ہم یہاں پرپیش کرتے ہیں :
الف ۔ غور وفکر کرناعظیم ترین عبادت ہے ۔
ایک حدیث میں امام علی بن موسٰی رضا علیہ السلام سے منقول ہے :
” لیس العبادة کثرة الصلاة والصوم انما العبادة التفکرفی امر اللہ عذوجل “
(عبادت نماز و روزہ کی کثرت میں نہیں ہے ، عبادت واقعی توخدا وند تعالیٰ کے کاموں اور جہانِ آفرینش کے کاموں میں غور و فکرکرنا ہے ) (1) ۔
ا یک دوسری روایت میں یہ منقول ہوا ہے :
” کان اکثرعبادة ابی ذر التفکر “ 2 ۔
ب۔ ایک ساعت غوروفکر کر نا ایک رات کی عبادت سے بہتر ہے ۔
ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیاکہ لوگ پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ :
” تفکر ساعة خیر من قیام لیلة “
ایک ساعت غوروفکر کرنا ایک رات بھر عبادت کرنے سے بہتر ہے ۔
اس سے کیا مراد ہے ، اور غوروفکر کس طرح کرناچاہیئے ؟
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :
’ ’ یمر بالخربة او بالدار فیقول این ساکنوک این بانوک مالک ا تتکلمین “
جب تُو کسی ویرانے کے پاس سے گزر تاہے ، یاکسی ایسے گھر کے پاس سے ( کہ جو اپنے بسنے والوں سے خالی ہو ) گزرتا ہے تو کہتا ہے ،تجھ میں رہنے والے کہاں گئے ؟ تیری بنیاد رکھنے والوں کاکیا ہوا ؟ تُو بولتا کیوں نہیں (3) ۔
ج۔ غوروفکر سرچشمہ عمل ہے ۔
امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
” ان التفکر ید عواالی البر والعمل بہ “
”غورو فکر کرنا نیکی اوراس پرعمل کرنے کی دعوت دیتا ہے (4) ۔
1۔ اصول ِ کافی جلد ۲ ، کتاب ” الکفروالا یمان “ باب ” التفکر “ (ص .۴۵) ۔
2۔سفینتہ البحار ، جلد ۲ ،ص ۳۸۳ ، مادہ فکر ۔
3۔ مدرک مذکورہ ۔
4۔ سفینتہ البحار ، جلد ۲ ، ص ۳۸۳ ، مادہ فکر ۔