۱۔ تمام انقلابات کی جڑ بنیاد
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۖ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ۴۶
پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے ایک ایک دو دو کرکے اٹھو اور پھر یہ غور کرو کہ تمہارے ساتھی میں کسی طرح کاجنون نہیں ہے - وہ صرف آنے والے شدید عذاب کے پیش آنے سے پہلے تمہارا ڈرانے والا ہے.
مادی اور کمیونسٹ مکاتبِ فکر کہ جو ہمیشہ سچے مذاہب کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے رہتے ہیں ، وہ ہمیشہ اس بات پراصرار کرتے ہیں کہ ادیان کی دعوت اصل میںعوام الناس کے افکار کو بیکار کرنے کے مترادف ہے . ان کی یہ رسوا تعبیر کہ ” دین عوام الناس کے لیے افیو ں ہے “ مشہور و معروف ہے ۔
اس طرح شرق وغرب کے سا مراجی اس خوف وہراس کی وجہ سے جو وہ مومنین کے قیام اوران کے افکار ِ مذہبی اورراہِ خدا میں شہادت کوقبول کرنے کے ضمن میں رکھتے ہیں یہ کہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماہر ین نفسیات اور اسکا لرز کواس مطلب کی تلقین کریں کہ وہ اپنی اپنی اصطلاح میں ... اپنی علمی کتابوں میں انہیں بیان کریں ، کہ مذہب طبعی طور پر انسانی جہالت اور نا دانی کی پیداوار ہے ۔
البتہ یہ ایک وسیع بحث ہے ، اوراپنی جگہ پرانہیں دوٹوک اور ندانِ شکن جواب دیئے گئے ہیں ، کہ ان سب کی یہاں گنجائش نہیں ہے . لیکن زیر بحث آیات کی مانند بہت سی آیات کہ جو غور وفکر اورسوچ بچار کی طرف دعوت دیتی ہیں . بلکہ دین کانچوڑ اورانسان کی پیش رفت اورتکامل وار تکامل و ار تقاء کا سبب اسی غور وفکر کو جانتی ہیں . ان جھوٹ اور افتراء باند ھنے والوں کاسارا پو ل کھول کررکھ دیتی ہیں ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام جیسا دین و آئین بے حسی یاشل کردینے کاذریعہ یاجہالت کی پیدا وار ہو . حالانکہ اس کالانے والااپنی بلند آواز کے ساتھ تمام انسانوں کومخاطب کرتے ہو ئے کہتا ہے کہ : سوئے ہوئے افکار کو بیدار کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو اور قیام کرو . اور وہ بھی ایسے ماحول میں جو پُر سکون اورشورو غوغاسے خالی ہو ۔
ایسے ماحول میں کہ جوہوا وہوس اور مسموم اور زہر یلے پرو پیگنڈے سے دور ہو ۔
تعصبات سے دور ہو ،جھگڑوں اورہٹ دھر میوں سے دور ہو ۔
خداکے لیے قیام کرو اورغور وفکر کرو ۔
کہ میری طرف سے تمہیں یہی تنہا وعظ ونصیحت ہے . اور بس ۔
کیا اس قسم کے دین کوکہ جو نہ صرف اس مقام پربلکہ بہت سے دوسرے مقامات پربھی اسی دعو ت کو دہراتاہے ، افکار کوسُن کرنے والے اورنشہ آور کے ساتھ متہم کرنا ، مضحکہ خیز اورقہقہ لگا نے والی با ت نہیں ہے ؟ !
خاص طور پر یہ بات کہ وہ کہتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ تم اکیلے تنہا ئی اورانفرادی طور پر غور وفکر کرو ، بلکہ دو دو افراد کی شکل میں ، اورایک دوسرے سے تعاون اور معاونت کی صورت میں بھی غور وفکر کرنے میںمشغول رہو ، انبیاء علیہ السلام کی دعوت کے مطالب ومفاہیم کوسنو ، ان کے دلائل کابغور مطالعہ کرو ، اگر وہ تمہاری عقل کے ساتھ ہم آہنگ ہوں تو اسے قبول کرلو ۔
ہمارے زمانہ میں شرق وغرب کی تباہی کن جہنمی طاقتوں اورقدرتوں کے مقابلہ میں جو حوادث ، مختلف ممالک میں ، انقلابی مسلمانوں کے قیام کی وجہ سے رو نما ہوئے ، انہوں نے مستکبرین کی نگاہ میں دنیا کوتیرہ وتاریک کرکے رکھ دیاہے . اوران کی طاقت وقدرت کی بنیا دوں کو ہلا کررکھ دیاہے ، ان حوادث نے اس بات کی نشا ندہی کی ہے کہ وہ یعنی مستکبرین اچھی طرح سے اس نکتہ کوسمجھ چکے تھے کہ ان کے سخت ترین دشمن ( مسلمان ) کے اصل مذہبی عقائد ان کے لیے عظیم خطرہ ہیں ، اورانہوں نے یہ بھی نشاندہی کردی کہ ان اتہامات کاہدف و مقصد کہ جو مذہب کے بارے میں کیے گئے ہیں کیاہے ؟
واقعاً عجیب بات ہے کہ مغربی فلسفی مردم شناسی کی اصطلاح کی تحلیلوں اورتجزیوں میںاس مسئلہ کومسلّم سمجھتے ہیں کہ ماورا ء طبعیت یعنی اس دنیا اوپر کوئی عالم نہیں ہے . اور دین نو ع بشر کی ایک خود ساختہ چیز ہے ، پھر اس مسئلہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں کہ اس کا عامل کیاہے ؟ اقتصادی مسائل ہیں ؟ انسانوں کاخوف ہے ؟ بشر کی لاعلمی اور عدم آگا ہی ہے ؟ روحانی عقدے ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ ؟
لیکن وہ اس بات کے لےے تیارنہیں ہیں کہ ایک لمحہ کے لیے ہی اس پہلے سے کیے ہوئے اپنے غلط فیصلہ سے خالی ہو کر فکر یں کہ عالم طبعیت یعنی اس کا ئنات کے علاوہ ایک اورعالم ہے اور توحید ک روشنی دلیلوں اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم جیسے نبیا ء کی نبوت کی آشکار اورواضح نشا نیوں میں سوچ بچار سے کام لیں ۔
یہ لوگ زمانہ ٴ جاہلیت کے مشرکین سے ملتے جلتے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ وہ تومتعصب اور ہٹ دھرم تھے اس صورت میں کہ وہ ان پڑھ تھے ، یہ متعصب اورہٹ دھر م ہیں ، پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ، اسی بناء پر زیادہ خطرناک اورزیادہ گمراہ کن ہے ۔
یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات کاآخر ی حصّہ تفکر ،تعقل اور تذکر کی دعوت ہے ۔
کبھی کہتاہے ” ان فی ذالک لاٰ یات لقوم یتفکرون “ ( نحل . ۱۱ . ۶۹) ۔
اور کبھی کہتا ہے : ” ان فی ذالک لاٰیات لقوم یتفکرون “ ( رعد . ۳ . زمر . ۴۲ . اور جاثیہ . ۱۳ ) ۔
اور کبھی کہتا ہے : ” لعلھم یتفکرون “ (حشر . ۲۱ . اعراف . ۱۷۶) ۔
اور کبھی اس جملہ کو دو بارہ خطاب کی صورت میں پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” کذالک یبین اللہ لکم الاٰیات لعلکم تتفکرون “
اس طرح سے خدا تمہارے لیے اپنی آیات کوبیان کرتاہے ، شاید کہ تم غور وفکر کرو “ (بقرہ . ۲۱۹۔ ۲۶۶ )۔
اسی طرح کے جملے قرآن میں بہت زیادہ ہیں ، مثلا ً قرآن کی بہت سی آیات میں ” فقہ “ (فہم ) کی دعوت دی گئی ہے ،عقل و تعقل کی دعوت اور ان افراد کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی عقل کو استعمال کرتے ہیں ،اوران کی مذمت کہ جو اپنی فکر کو استعمال نہیں کرتے ، یہ بات قرآن مجید کی ۴۶ آیات میں وارد ہوئی ہے ۔
علماء اور دانشمندوں ،اور علم ودانش کے مقام و مرتبہ کی اتنی زیادہ تعریف و توصیف کی ہے ، کہ اگر ہم ان سب کو ایک جگہ جمع کرکے ان کی تفسیر کریں تووہ خودایک مستقل کتاب بن جائے ۔
اس سلسلہ میں بس اتناہی کافی ہے کہ قرآن دوزخیوں کی صفات میں سے ایک صفت تفکرو تعقل نہ کرنے کو بیان کرتاہے : ” وقالو الوکنانسمع او نعقل ماکنّا فی اصحاب السّعیر “ ( دوزخی کہیں گے کہ اگرہم سننے والے کان اور بیداار عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں سے نہ ہوتے ) . کیونکہ دوزخ میں صاحبان ِ عقل کی جگہ نہیں ہے . ( مُلک . ۱۰(
اورایک او ر دوسری جگہ پر کہتا ہے : اصو لی طور پر وہ لوگ جو کان رکھتے ہیں لیکن سنتے نہیں ، آنکھ رکھتے ہیں لیکن دیکھتے نہیں ،اور عقل رکھتے ہیں لیکن سوچتے نہیں ، و ہ جہنم کے لیے نامزد ہوگئے ہیں ۔
” ولقد ذراٴنا لجھنم کثیراً من الجن والانس لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لایبصرون بھا ولھم اٰذان لایسمعون بھا اولٰیک کا لا نعا م بل ھم اضل اولٰیک ھم الغافلون “ ۔
” یقینا جِنّوں اورانسانوں کے بہت سے گروہ جہنم کے لیے قرار دے دئیے ہیں . ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ عقل رکھتے ہیںلیکن اس کے ساتھ سوچتے نہیں ، آنکھ رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ دیکھتے نہیں ، کان رکھتے ہیں لیکن ان کے ساتھ سنتے نہیں ،وہ چو پا یوں کی مانند ہیں ، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ وہی تو اصل غافل ہیں “ ۔( اعراف . ۱۷۹(