انقلاب فکری ھراصل انقلاب کی بنیا د ہے
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۖ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ۴۶
پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے ایک ایک دو دو کرکے اٹھو اور پھر یہ غور کرو کہ تمہارے ساتھی میں کسی طرح کاجنون نہیں ہے - وہ صرف آنے والے شدید عذاب کے پیش آنے سے پہلے تمہارا ڈرانے والا ہے.
آیات کے اس حصّہ میں اور آئندہ آیات میں کہ جن میں سورہ کے آخر ی مباحث بیان ہوئے ہیں ، پیغمبرالسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک بار پھر حکم دیتا ہے ، کہ اب ان لوگوں کومختلف دلائل کے ذریعہ حق کی طرف دعوت دیں ، اور گمراہی سے روکیں ،اور گزشتہ مباحث کی طرف پانچ مربہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتاہے : ” ان سے کہہ دے ‘ ... (قل ) ۔
پہلی آیت میں تمام اجتماعی ،اخلاقی ، سیاسی ، اقتصادی اورفرہنگی تغیرات اور تبد یلیوں کے اصل خمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بہت ہی مختصر اور پُر معنی جملوں میں کہتاہے کہ : ” ان سے کہہ دو کہ میں تو تمہیں صرف ایک ہی چیز کے بارے میں نصیحت کرتاہوں ،اوروہ یہ ہے کہ تم خدا کے لیے کھڑے ہوجاؤ .دو ، دو افراد (مل کر ) یاایک ایک فرد (اکیلے اکیلے ہی ) اور پھر غور وفکر کرو “ (قُلْ إِنَّما اٴَعِظُکُمْ بِواحِدَةٍ اٴَنْ تَقُومُوا لِلَّہِ مَثْنی وَ فُرادی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوا) ۔
” یہ تمہارا دوست اور ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم ) کسی قسم کی فکری کجی اورجنون نہیں رکھتا “ (ما بِصاحِبِکُمْ مِنْ جِنَّة) ۔
”بلکہ وہ توصرف تمہیں خدا کے سخت عذاب سے ڈرانے والاہے “ (إِنْ ہُوَ إِلاَّ نَذیرٌ لَکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذابٍ شَدیدٍ) ۔
اس آت کے کلمات وتعبیرات میں سے ہرایک ، ایک اہم مطلب کی طرف اشارہ کرتاہے ، جن میں سے دش نکات ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں ۔
۱۔ ”اعظکم “ (میں تمہیں نصیحت کرتاہوں ) کاجملہ حقیقت میںاس واقعیت کوبیان کرتا ہے کہ اس گفتگو میں مجھے تمہاری خیر وصلا ح مطلوب ہے نہ کہ کوئی اوردوسرامسئلہ ۔
۲۔ ” واحدة “ (صرف ایک ہی بات ) کی تعبیر ،خصوصا ” انما “ کی تاکید کے ذریعہ، اس واقعیت کی طرف ایک بولتا ہوا اشارہ ہے ، کہ تمام انفرادی اوراجتماعی اصلاحات کی بنیاد فکر اورسوچ کو روبہ عمل لاناہے جب تک کسی قوم وملت کی سوچ اور فکرسوئی ہوئی ہے اس وقت تک وہ قوم وملت دین وایمان اورآزادی و استقلال کے چوروں اورڈاکوؤں کے حملوں کی زد میں رہتی ہے ،لیکن جس وقت افکار بیدار ہوگئے ،توان کے او پر راستے بند ہوجاتے ہیں ۔
۳۔ یہاں ”قیام “ کرنے کی تعبیردو پاؤں پر کھڑے ہونے کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ کام کو انجام دینے کی آمادگی کے معنی میں ہے ،کیونکہ انسان جب اپنے دونوں پاؤں پر کھڑا ہوجاتا ہے ، تووہ اپنی زندگی کے مختلف پرو گراموں کوانجام دینے کے لیے آمادہ ہوتا ہے ،اس بناء پر غور وفکر کرنا پہلے س آمادگی کا محتاج ہوتاہے کہ جس سے انسان میں وہ حرکت اور تیار ی وجود میں آتی ہے جس سے وہ پختہ اراد ہ کے ساتھ غور وفکر کرنے لگتاہے ۔
۴۔ ” للہ “ کی تعبیر اس معنی کوبیان کرتی ہے کہ قیام اور آمادگی میں خدائی جذبہ ہوناچاہیئے ،اور وہ سوچ جس کی تحریک اس طرح سے ہوقیمتی ہوتی ہے ، اصولی طور پر کاموں میں خلوص ، یہاں تک کہ سوچنے اورغور وفکر کرنے میں بھی نجات اور برکت کاسبب ہوتا ہے ۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ ” اللہ ‘پرایمان کاہونا یہاں پرتسلیم شدہ ماناگیاہے ،اس بناء پر دوسر ے مسائل کے لیے غور وفکر کرناس بات کی طرف اشارہ ہے کہ توحید ایک فطری امر ہے ،کہ جو بغیر کسی غور وفکر کے بھی واضح وروشن ہے ۔
۵۔ ” مثنٰی وفرادٰی “ ) دو دو یاایک ایک ) کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غور وفکر شوروغل سے دُور ہو کر کرنا چاہیئے . لوگوں کوایک کرکے اکیلے ہی یاز یادہ سے ، زیادہ دو دو مل کر قیام کرنا چاہیئے اوراپنی سوچ بچار اور فکر کوکام میں لانا چاہیئے ،کیونکہ شور وغوغا کے درمیان سوچ وبچار گہرااورعمیق نہیں ہوگا ، خصوصاً جبکہ مجمع اوربہت سے لوگوں کی مود گی میں اپنے اعتقاد سے دفاع اور اس کی حمایت میں خود خواہی اور تعصب کے عوامل زیادہ پیدا ہوتے ہیں ۔
بعض مفسرین نے اس احتمال کابھی اظہار کیا ہے کہ یہ دونوں تعبیریں اس بناء پر ہیں چونکہ ”انفرادی“ اور ” اجتماعی “ افکار یعنی مشورے کی آمیز ش کواپنے ساتھ لیے ہوئے ہوتے ہیں ،لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ ایک توتنہائی میں سوچ بچار کر ے ، اوردوم دوسروں کے افکار سے بھی فائدہ اٹھائے ،کیونکہ فکرو رائے میں استبداد واستقلال تباہی کاباعث ہوتاہے ،اور ہمفکر ی اور علمی مشکلات کے حل کے لیے کوشش کرنا ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ ،جہاں بات شور و غوغاتک نہ پہنچے وہاں پرقابلِ اطمینان حدتک اس کابہتراثر ہوتا ہے اور شاید اسی بناء پر مثنٰی کو فرادیٰ پر مقدم رکھتاہے ۔
۶۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ قرآن یہاں کہتاہے : ” تتفکّرو ا “ (غور وفکر کرو ) لیکن کسی چیز میں ؟ اس لحاظ سے یہ مطلق ہے اوراصطلاح کے مطابق ” متعلق کاحذف ہونا عمومیت پردلالت کرتاہے یعنی ہرچیز مین ،معنوی زندگی میں ، ماد ی زندگی میں ،اہم مسائل میں ،اورچھوٹے سے چھوٹے مسائل میں ،خلاصہ یہ کہ ہر کام میں پہلے غور کرنا چاہیئے ، لیکن سب سے زیادہ اہم ، ان چار سوالات کے جواب معلوم کرنے کے لیے سوچ بچار کرناچاہیئے :
میں کہاں سے آیاہوں ؟ میں کس لیے آیاہوں ؟ میں کہاں جار ہاہوں ؟ اوراب میں کیاںہوں ؟
لیکن بعض مفسرین کا نظر یہ یہ ہے کہ ”تفکر “ کامتعلق یہاں اس کے بعد کاجملہ : ( مایصاحبکم من جنّة ) ہے ،یعنی اگرتم تھوڑا سابھی غور وفکر کرو تو تمہیں اچھی طرح سے معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم جنون کے سلسلے میں تمہارے بیہودہ اتہام سے پاک ومنزہ ہے ۔
لیکن پہلا معنی زیادہ واضح نظر آتاہے ۔
لیکن مسلمہ طور پر منجملہ ان امور کے کہ جن میں غور فکر کرنا چاہیئے یہی مسئلہ نبوت اور برجستہ (عمدہ ) صفات کامسئلہ ہے کہ جوپیغمبرالسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اوران کی عقل وخرد میں موجود تھیں ،بغیر اس کے کہ (یہ غور وفکر کرنا ) انہیں میںمنحصر ہو ۔
۷۔ ”صاحبکم “ (تمہاراساتھی اوردوست ) کی تعبیر ،پیغمبرصلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم کی ذات کے بارے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ، کہ آپ اُن کے غیر معروف اور ناشناختہ نہیں ہیں ، آپ ان کے درمیان سالہا سال رہے ہیں ،انہیں امانت و درایت اورصدق وراستی کے ساتھ تم نے پہچاناہے ، اب تک تم نے ان کی زندگی کے نامہٴ عمل میں کوئی کمزور ی کانقطہ مشاہد ہ نہیں کیا ہے ،تواس بناء پر انصاف سے کام لو . جو اتہامات تم ان پر باندھ رہے ہووہ سب کے سب بے بنیاد ہیں ۔
۸۔ ” جِنّة “ جنون کے معنی میںاصل میں مادہ (جن ) بروزن ظن سے ستر وپوشش کے معنی میں ہے ، اور چونکہ مجنون کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ گو یااس کی عقل چھپی ہوئی ہے اوراس پرپر دہ پڑا ہوا ہے ، لہذا یہ تعبیراس کے بارے میں استعمال ہوتی ہے . بہرحال قابلِ ملاحظہ نکتہ یہاں یہ ہے کہ گویا وہ اس حقیقت کو بیان کرناچا ہتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ سوچ بچار اور فکر کی بیدار ی کی دعوت دینے والا خود مجنون ہو . جبکہ وہ سوچ بچار اور تفکر کرنے کے منادی کررہاہے . اس کی یہی بات اس کی انتہائی عقل ودرایت کی دلیل ہے ۔
۹۔ ” ان ھو الاّ نذیر لکم “ کاجملہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کومسئلہ انذار میںخلاصہ کرتا ہے ،یعنی خدا کی داد گاہ میں جوابدہی اوراس کے عذاب سے ڈرانا ، یہ ٹھیک ہے کہ پیغمبر بشارت کی رسالت بھی رکھتا ہے لیکن جوچیز انسان کوزیادہ سے زیادہ حرکت پرابھارتی ہے وہ مسئلہ انذار ہے . اسی لےے قرآ ن کی بعض دوسری آیات میں بھی پیغمبرکی تنہاذمہ داری کے طور پر ذکر ہوا ہے ، مثلا ً سورہ احقاف کی آیہ ۹ میں : ( وما انا الاّ نذیر مبین ) ” میں ایک واضح انذار کرنے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں “ اس معنی کی نظیر یہ سورہ ص کی آیہ ۶۵ اوردوسری آیات میں بھی آئی ہے ۔
۱۰۔ ” بین یَدَیْ عَذابٍ شَدید“ کی تعبیر اس طر ف اشارہ ہے کہ قیامت اس قدر نزدیک ہے کہ گویا تمہارے چہر ے کے سامنے ہے ،اور سچ مچ دنیا عمر کے مقابلہ میں وہ اسی طرح ہے ، یہ تعبیر اسلامی روایات میں بھی آئی ہے کہ پیغمبرالسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
” بعثت انا والساعة کھاتین “ ( وضم (ص ) الوسطی والسبابة ) . میر ی بعثت اور قیام ِ قیامت ان کی دو طرح ہے . اس کے بعد آپ نے انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو ایک دوسری سے ملا دیا (۱) ۔
۱۔ تفسیرروح المعانی ، ذیل آیہ زیر بحث جلد ۲ ۲ ، ۱۴۳۔