۲۔ اموال کاخدائی بیمہ
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ۳۹وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ ۴۰قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ ۴۱فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ۴۲
بیشک ہمارا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت پیدا کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی پیدا کرتا ہے اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کرو گے وہ اس کا بدلہ بہرحال عطا کرے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے. اور جس دن خدا سب کو جمع کرے گا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے. تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنّات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت ان ہی پر ایمان رکھتی تھی. پھر آج کوئی کسی کے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوگا اور ہم ظلم کرنے والوں سے کہیں گے کہ اس جہّنم کے عذاب کا مزہ چکھو جس کی تکذیب کیا کرتے تھے.
ایک مفسرنے یہاں ایک عمدہ تجز یہ پیش کیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ :
تعجب کی با ت یہ ہے کہ جب تاجر یہ جانتا ہو ، کہ ا س کے اموال میںسے کوئی مال تلف ہونے والا ہے ،تووہ اس بات پر بھی تیار ہوجاتا ہے کہ اُسے ادھار کے طور پرفروخت کردے ، چاہے لینے والا کوئی فقیر آدمی ہی ہو .وہ کہتا ہے : یہ بات اس سے بہتر ہے کہ اس مال کو یونہی چھوڑدوں اور وہ نا بود ہوجائے . اور اگر کوئی تاجر اِن حالات میں اپنے مال کوفروخت کرنے کااقدام نہ کرے یہاں تک کہ وہ تلف اور نابو دہوجائے ،تواسے ”خطاکار “ شمارکرتے ہیں ۔
اوراگر ان حالات میں کوئی سرمایہ دار خریدار مل جائے اوروہ ا س کے پاس فروخت نہ کرے تو اُسے بے عقل کہتے ہیں ۔
اور اگران تمام باتوں کے ساتھ وہ خریدار مضبوط مالی حیثیت رکھتے ہوئے ہرقسم کاوثیقہ اسے سپر د کردے ، اور ایک قابلِ اطمینا ن سندبھی اُسے لکھ دے ،اور وہ تاجر اس کے پاس نہ بیچے تواس کو دیوانہ کہتے ہیں ۔
لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ ہم سب کام انجام دیتے ہیں اورکوئی اسے جنون شمار نہیںکرتا ۔
کیونکہ ہمارے تمام اموال معرضِ تلف میں ہیں اورخواہ مخواہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے ، حالانکہ راہِ خدامیں خرچ کرناایک قسم کاخدا کو قرض دینا ہے اورایک بہت ہی معتبر ضامن ،یعنی خدائے بزرگ فرماتا ہے کہ : ( وماانفقتم من شیء وفھو یخلفہ ( ” اورجو کچھ بھی تم خر چ کرو گے وہ اس کاعوض دے گا “ . اور یہ اس حالت میں ہے جبکہ اُس نے اپنے اموال ہمارے پاس گروی رکھے ہوئے ہوں ، کیونکہ جو کچھ انسان کے ہاتھ میں ہے وہ اس کی طرف سے عاریتہ ہے (اور کتبِ آسمانی میں سے ایک محکم ترین سند اس سلسلے میں اس نے ہمارے حوالہ کی ہوئی ہے )لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہم میں سے بہت سے اپنے اموال راہِ خدامیں خرچ نہیں کرتے ، اورانہیں رہنے دیتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں ، جس کے لیے نہ ہم کوئی اجر رکھتے ہیں نہ کوئی شکر (1) ۔
1۔ تفسیر فخر رازی ،جلد ۲۵ ، ص ۲۶۳ ، زیربحث آیات کے ذیل میں ۔