۱۔ انفاق زیادتی کاباعث ہے نہ کہ کمی کا
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ۳۹وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ ۴۰قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ ۴۱فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ۴۲
بیشک ہمارا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت پیدا کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی پیدا کرتا ہے اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کرو گے وہ اس کا بدلہ بہرحال عطا کرے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے. اور جس دن خدا سب کو جمع کرے گا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے. تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنّات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت ان ہی پر ایمان رکھتی تھی. پھر آج کوئی کسی کے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوگا اور ہم ظلم کرنے والوں سے کہیں گے کہ اس جہّنم کے عذاب کا مزہ چکھو جس کی تکذیب کیا کرتے تھے.
جوتعبیر اوپر والی آیت میں انفاق کے بارے میں بیان کی گئی ہے : ” کہ جو چیز بھی تم راہ ِ خدا میں خرچ کروگے خدااس کے بدلے میں اور دے دے گا “ . بہت معنی خیز تعبیر ہے ۔
اوّل اس لحاظ سے کہ لفظ ”شیء “ اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے ، انفاق کی تمام اقسام کے لیے . خواہ وہ مادی ہوں یا معنوی ، چھوٹی ہوں یا بڑی . ہرضرورت مند انسان کے لیے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کو شامل ہے . اہم بات یہ ہے کہ انسان کے پاس جوبھی سرمایہ موجود ہے اُس میں سے خدا کی راہ میں بخشے چاہے وہ جس کیفیت میں ہو او ر جس مقدار میں ہو ۔
دوسرے انفاق کوفنا کے مفہوم سے باہر نکالتا ہے اوراسے بقاء کارنگ دیتا ہے کیونکہ خدانے اپنی مادی و معنوی نعمتوں کے ساتھ . کہ جو کئی گنا اور کبھی ہزار وں گنا اورکم از کم دس گناہیں . اس کی جگہ کو پُر کرنے کی ضمانت لی ہے ، اوراس طرح سے انفاق کرنے والاشخص جس وقت اس جذبہ اورعقیدہ کے ساتھ میدان میں آتا ہے تو ہاتھ اوردل زیادہ کھلا رکھے گا ، وہ کمی کے احساس اورفقر کی فکر ہرگز اپنے دماغ میںجگہ نہ دے ا بلکہ وہ خدا کاشکر ادا کر ے گا کہ جس نے اُسے اس قسم کی پُر نفع تجارت کی توفیق عطافرمائی ۔
یہ و ہی تعبیرہے کہ جوقرآن مجید میں سورہٴ صف کی آیہ ۱۰ ، ۱۱ ، میں بیان کی ہے کہ : ( یاایھا الذین اٰمنو اھل ادلکم علیٰ تجارة تنجیکم من عذاب الیم . تئو منون باللہ ورسولہ وتجاھدون فی سبیل اللہ بامو الکم وانفسکم ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون ) ” اے وہ لوگو ! کہ جوایمان لائے ہو ،کیا میں تمہیں ایک ایسی پُر نفع تجارت کی طرف کہ جودرد ناک عذاب سے رہائی بخشے رہنمائی کرو ں ؟ خدا اوراس کے رسول پرایمان لاؤ ، اور راہ خدامیں اپنے اموال اورجانوں کے ساتھ جہاد کرو ، یہ تمہارے لیے بہترہے ، اگر تم جانتے ہو “ ۔
ایک روایت میں پیغمبرگرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
،۔ ینادی منادکل لیلة لد وا للموت !
، ۔ و ینادی منادا بنو اللخراب !
،۔ وینادی مناد اللھم ھب للمنفق خلفا !
، ۔ و ینادی مناد اللھم ھب للممسک تلفا!
وینادی منادلیت الناس لم یخلقوا !
وینادی منا دلیتھم اذ خلقوا فکر و ا فیما لہ خلقوا !
،۔ ہررات ایک آسمانی ندا کرنے والا یہ ند ا کرتاہے کہ مرنے کے لیے جیو ۔
،۔ اور دوسرا منادی یہ نداکرتا ہے کہ ویرانی کے لیے بنا کرو ۔
،۔ اور ایک منادی یہ نِدا کرتاہے کہ خدا وندا ! جوانفاق کرتے ہیں ان کے لیے عوض قرار دے ۔
،۔ ایک اور منادی یہ ندا کرتا ہے کہ خدا وندا ! جوا مساک کرتے ہیں اورخرچ نہیںکرتے ان کے لیے تلف قرار دے ۔
،۔ اورایک منادی یہ ندا کرتا ہے کہ کاش انسان پیداہی نہ ہوتے ۔
،۔ ایک اور ندا کرنے والا یہ ندا کرتاہے کہ اے کاش اب جبکہ وہ پیدا ہو ہی گئے ہیں تووہ اس امر میں غور وفکر کرتے کہ وہ کس لیے پیدا ہوئے ہیں (1) ۔
)ان نِدا کرنے والوں سے مراد وہ فرشتے ہیں کہ جوفرمان ِ خداسے اس عالم کے امور کی تدبیر کرتے ہیں ) ۔
ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ :
” من ایقن بالخلف سخت نفسہ بالنفقہ “ ۔
جسے اس بات کا یقین ہوکہ اُسے بدلہ ضرور ملے گا تووہ خرچ کرنے میں زیادہ سخی ہوگا (2) ۔
یہی مفہوم امام باقرعلیہ السلام اورامام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے ۔
لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ افناق حلال اور مشروع اموال میں سے ہو ، کیونکہ خدااس کے سوا دوسرے کوقبول نہیں کرتا اور برکت نہیں دیتا ۔
اس لیے ایک حدیث میں امام صاد ق علیہ السلام سے یہ منقول ہوا ہے کہ ایک شخص نے آ پ علیہ السلام کی خدمت میںعرض کیاکہ قرآن می ں دو آیات ایسی ہیں کہ میں جنتا ان پرعمل کرتاہوں ،اس کانتیجہ نہیں دیکھتا ، ( اور اس کے مطلب کوحاصل نہیں کرتا ) ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا وہ کونسی آیات ہیں ؟
اس نے عرض کیا، پہلی توخدا وند بزر گ کی یہ بات ہے کہ اس نے یہ فرمایاہےک ہ : ( ادعونی استجب لکم ) ” مجھے پکاروں میں تمہاری دعاکو قبو ل کرتاہوں “ میں خدا کوپکار تاہوں لیکن میری دعاقبول نہیں ہوتی ۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا : کیاتیراخیال یہ ہے کہ خدائے عزوجل نے اپنے وعدہ سے خلاف کیا ؟
اس نے عرض کیاکہ نہیں !
آپ علیہ السلام نے فرمایا : پس اس کاسبب کیاہے ؟
اس نے عرض کیا کہ : مجھے معلوم نہیں ہے !
آپ علیہ السلام فرمایا : ۔لیکن میں تجھے بتاتا ہوں :
” من اطاع اللہ عذو جل فیما امرہ من دعائہ من جھة الدعا ء اجابہ “
”جوشخص خدا وند متعال کی اس چیز میں دعا کرے جس میں اس نے دعا کاحکم دیاہے ، اور اس میں جہت ِ دعا کی رعایت کرے تو وہ اس کی دعاکو قبول کرے گا “ ۔
اس نے عرض کیا کہ : جہتِ دعا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کہ پہلے تُو خداکی حمد کرے گا اوراس کی نعمتوں کویاد کرے گا ، اس کے بعد شکر ادا کر ے گا اس کے بعد پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے گا . پھر اپنے گناہوں کو دل میں لائے گا اوران کااقرار کرے گا ، پھر اُن سے خدا کی پناہ مانگے گا اورتوبہ کرے گا . یہ ہے جہتِ دعا “ ۔
پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا : دوسری آیت کونسی ہے ؟
اس نے عرض کیا : وہ یہ آیت ہے کہ اس نے فرمایا ہے :
”وما انفقتم من شیء فھو یخلفہ وھو خیر الراز قین “
لیکن میں خداکی راہ میں انفاق کرتاہوں ، مگروہ چیز جو اس کے بدلے میں دی جاتی ہے وہ مجھے نہیں ملتی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : کیاتُو یہ خیال کرتاہے کہ خداوند نے اپنے وعدے کے خلاف کیا ؟
اس نے عرض کیاکہ : نہیں !
آ پ علیہ السلام نے فرمایا : کہ پھر ایسا کیوں ہے ؟
اس نے عرض کیا کہ : میں نہیں جانتا !
آپ علیہ السلام نے فرمایا : ” لوان احد کم اکتسب المال من حلہ ، وانفقہ فی حلہ ، لم ینفق درھماً الا ّ اخلف علیہ (
اگرتم میں سے کوئی شخص کچھ حلال مال حاصل کرے ، اور اُسے حال طریقے سے ہی خرچ کرے ، تو وہ کوئی ایک درہم بھی ایسا خرچ نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس کاعوض اُسے دیتا ہے (3) ۔
1۔ مجمع البیان ، زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔
2۔ نورا لثقلین ، جلد۴ ،ص ۳۴۰۔
3۔ تفسیر برہان ، جلد ۳ ،ص ۳۵۳ ۔