معبودوں کی عباد ت کرنے والوں سے بیزاری
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ۳۹وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ ۴۰قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ ۴۱فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ۴۲
بیشک ہمارا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت پیدا کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی پیدا کرتا ہے اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کرو گے وہ اس کا بدلہ بہرحال عطا کرے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے. اور جس دن خدا سب کو جمع کرے گا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے. تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنّات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت ان ہی پر ایمان رکھتی تھی. پھر آج کوئی کسی کے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوگا اور ہم ظلم کرنے والوں سے کہیں گے کہ اس جہّنم کے عذاب کا مزہ چکھو جس کی تکذیب کیا کرتے تھے.
ان آیات میں دو بارہ ان لوگوں کی گفتگو کی طر ف رُخ کرتاہے کہ جوا پنے اموال اوراولاد کو بارگاہِ خدامیں اپنے قرب کی دلیل سمجھتے تھے اور تاکید کے طور پر کہتاہے : ” کہہ دے کہ میر اپروردگار اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے روزی کوکشادہ کردیا یامحدود کردیتاہے “ (قُلْ إِنَّ رَبِّی یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشاء ُ مِنْ عِبادِہِ وَ یَقْدِرُ لَہُ ) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : ” تم راہ ِ خدامیں جوکچھ بھی خرچ کرو گے خدااس کی جگہ اور دے دے گا ، اور وہ بہترین روزی دینے والا ہے “ (وَ ما اٴَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْء ٍ فَہُوَ یُخْلِفُہُ وَ ہُوَ خَیْرُ الرَّازِقین) ۔
اگرچہ اس آیت کا مضمون گزشتہ مطلب کی تاکید ہے ، لیکن دو جہات سے نئی چیز بھی ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ آیت جس کامفہوم یہی تھا ، زیادہ ترکفار کے اموال واولاد کے بارے میں تھی ، جبکہ ”عباد “ ( بندے ) کی تعبیر زیرِ بحث آیت میں اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ مومنین کے بارے میں ہے ، یعنی مومنین کے لےے بھی کبھی روزی کوفراخ اور کشادہ کرتاہے
جہاں مومن کے لیے مصلحت ہو . .. اورکبھی ان کی روزی کوتنگ اور محدود کردیتا ہے . جہاں اس کی مصلحت معلوم ہو ، بہرحال معیشت کی وسعت و تنگی کسی چیز کی دلیل نہیں بن سکتی ۔
دوسری بات یہ کہ گزشتہ آیت تو معیشت کی وسعت وتنگی کودو مختلف گروہوں کے بارے میں بیان کررہی تھی ، جبکہ زیر ِبحث آیت میں ممکن ہے کہ یہ ایک ہی انسان کی دو مختلف حالتوں کی طرف اشارہ ہو ، کہ جس کی روزی کبھی کشادہ اور فراخ اور کبھی تنگ اور محدود ہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ جوکچھ اس آیت کی ابتداء میں بیان کیاگیاہے وہ حقیقت میں اس چیز کیلئے ایک مقدمہ اورتمہید ہے کہ جو آیت کے آخر میں بیا ن کیاگیا ہے اور وہ خدا کی را ہ میں خرچ کرنے کی تشویق (شوق دلانا ) ہے ۔
” فھو یخلفہ “ ( وہ اس کی جگہ کو پُر کردیتاہے ) کاجملہ ، ایک جالب اور عمدہ تعبیر ہے جواس بات کی نشاند ہی کرتاہے کہ جو کچھ راہ ِ خدامیں خرچ کیاجاتا ہے وہ حقیقت میں ایک نفع بخش تجارت ہے ، کیونکہ خدانے اس کابدلہ دینے کا وعدہ فرمایاہے اورہم جانتے ہیں کہ جب کوئی کریم شخص کسی چیز کا بدلہ دینے کاوعدہ کرلے تووہ صرف اس کے مساوی بر ابرہی بدلہ نہیں دیتابلکہ وہ اس سے کئی گنا اور کبھی سوگنا بدلہ دیتاہے ۔
یقینا خداکا یہ وعدہ آخری اور دوسر ے جہان کے لےے ہی نہیں ہے ، ویسے وہ اپنی جگہ پر مسلّم ہے ،لیکن وہ دنیا میںبھی راہِ خدامیں خرچ کرنے کی جگہ کو انواع واقسام کی برکات سے احسن طریقہ سے بُر کرتاہے ۔
( ھوخیرالرازقین ) ” وہ بہترین روزی دینے والاہے “ کاجملہ ایک وسیع معنی رکھتاہے اورمختلف جہات سے قابلِ غور ہے ۔
وہ تمام روزی دینے والوں سے بہتر ہے ، اس بنا ء پر کہ وہ یہ جانتا ہے کہ کونسی چیز بخشے ، اور کتنی مقدار میں روزی دے کہ جوفساد و تباہی کا سبب نہ بنے ، کیونکہ وہ ہرچیز کاعالم ہے ۔
وہ جو کچھ چاہے عطاکرسکتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پرقادر ہے ۔
وہ جوکچھ عطافرماتاہے اس کے بدلے میں کوئی اجر اور جزاء نہیں چاہتا ،کیونکہ وہ غنی بالذات ہے ۔
وہ درخواست کرنے اور مانگنے کے بغیر بھی دیتاہے ،کیونکہ وہ ہرچیز سے باخبراورحکیم ہے ۔
بلکہ حقیقت میں اس کے علاوہ کوئی بھی ”روزی دینے والا “ نہیں ہے ،کیونکہ جوشخص بھی جو کچھ بھی رکھتا ہے ،وہ اسی کی طرف سے ہے ، اور جوشخص بھی کسی کو کوئی چیز دیتاہے وہ ” انتقال روزی کا واسطہ “ ہے نہ کہ روزی دینے والا ۔
یہ نکتہ بھی قابل ِ غور ہے کہ وہ ” اموال کے مقابلہ میں “ باقی رہنے والی نعمتیں عطافرماتا ہے ،اور ” قلیل “ کے مقابلہ میں ”کثیر “بخشتاہے ۔
اور چونکہ یہ ظالم اورسرکش دولت مندوں کاگروہ مشرکین کے زمرہ میں داخل تھا اور وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں ، اوروہ قیامت میں ہماری شفاعت کریں گے ، قرآن اس بے بنیاد دعوے کے مقابلے میں جواب دیتے ہوئے اس طرح کہتاہے : ” یاد کر اس دن کو جس میں خدا سب کو ... عبادت کرنے والوں کو بھی اور جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کوبھی . .. محشور کرے گا ، اس کے بعد فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہے گا ،کیا یہ تمہاری عبادت کرتے تھے “ ؟ (وَ یَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمیعاً ثُمَّ یَقُولُ لِلْمَلائِکَةِ اٴَ ہؤُلاء ِ إِیَّاکُمْ کانُوا یَعْبُدُونَ) ۔
یہ بات واضح ہے کہ یہ سوال کوئی ایسا سوال نہیں ہے کہ جو کسی مجہول چیز کوخدا کی ذات پاک کے لیے واضح کرے ، کیونکہ وہ تو ہر چیز کاعلم رکھتا ہے ،اس کامقصد یہ ہے کہ فرشتوں کے بیان کے ذریعہ حقائق بتائے جائیں تاکہ عبادت کرنے والوں کا یہ گروہ نادم ا ورشرمندہ ہو اور جان لے کہ وہ ا ن کے عمل سے پورے طور پر بیزارہیں ، اور وہ ہمیشہ کے لیے مایوس ہوجائیں ۔
اُن تمام معبود وں کے درمیان سے کہ جن کی مشرکین عبادت کیاکرتے تھے ، صرف فرشتوں کاذکر یاتو اس بناء پر ہے کہ جن جن کی وہ عبادت کیاکرتے تھے اُن میں سے فرشتے شریف ترین مخلوق تھے ، جہاں قیامت میں ان سے شفاعت حاصل نہ ہو تو پھر چند پتھرو ں اور لکڑیوں ، جِن اور شیاطین سے کس طرح حاصل ہوسکتی ہے ۔
یااس لحاظ سے ہے کہ بُت پرست پتھر اورلکڑیوں کوموجودات ِ علوی (فرشتوں اور ارواحِ انبیاء ) کامظہر اورسمبل سمجھتے تھے ، اور اس طرح ا ن کی پرستش کرتے تھے ، اور جیسا کہ قومِ عرب کے درمیان بُت پرستی کی تاریخ میںبیان کیاگیاہے کہ ” عمر وبن لحی (۱) “ جس سفر میں شام گیاتھا تواس نے وہاں ایک گروہ کوبُت پرستی کرتے دیکھا ، اُس نے اُن سے اس سلسلہ میں سوال کیا ، توانہوں نے کہاکہ یہ وہ خدا ہیں کہ جنہیں ہم نے موجوداتِ علوی کی شکل میں بنایاہے ، ان سے ہم مدد طلب کرتے ہیں ، اوران کے ذریعہ سے بارش کی دعا کرتے ہیں ، عمر و بن لحی نے ان کے اس عمل کو پسند کیا،اوران کی پیروی اختیار کی ، اوراپنے ساتھ ایک بُت سوغات کے طور پر حجاز کے لیے لایا ، اوراسی وقت سے یہان بت پرستی کی ابتداء ہوئی اور پھیلتی چلی گئی ، یہاں تک کہ السلام کا ظہور ہوا ،اوراس کی بیخ کنی کی (۲) ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ فرشتے ، پرور دگار کے سوال کے جواب میں کیا کہتے ہیں ؟ وہ جامع ترین اور نہایت مئودبانہ جواب کاانتخاب کرتے ہوئے ، عرض کرتے ہیں : ” اے پروردگار ،تُوان ناروا نسبتوں سے کہ جو تیر ی مقدس ذات کی طرف انہوں نے دی ہیں پاک اور منزہ ہے “ ( قالوا سبحانک ) ۔
ہمارا اس گروہ سے کسی طرح کابھی ربط وتعلق نہ تھا ، ” صرف تُوہی ہمارا ولی ہے نہ کہ وہ “ (انت ولینا من دونھم ) ۔
” وہ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے ، بلکہ وہ توجنّوں کی عبادت کرتے تھے ، اوراُن میںسے اکثر جنّات پرایمان رکھتے تھے “ ( بَلْ کانُوا یَعْبُدُونَ الْجِنَّ اٴَکْثَرُہُمْ بِہِمْ مُؤْمِنُون) ۔
اس بارے میں کہ فرشتوں کے جوا ب کامفہوم کیاہے ،مفسرین کے درمیان اختلاف ، اور ہرایک نے ایک الگ تفسیر کی ہے ، لیکن جوزیادہ نزدیک نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ” جِنّ “ سے مراد شیطان اور تمام ایسی خبیث موجودات ہیں کہ بُت پرستوں کواس عمل کاشوق دلاتے تھے ، اوراُسے ان کی نظر وں میں زینت دیتے تھے ، اس بناء پر جِنّ کی عبادت سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کے فرمان کی اطاعت و پیروی اوران کی وسو سوں کوقبول کرتے تھے ۔
فرشتے اس ام پر راضی نہ ہونے کے اعلان اور بیزار ی ونفرت کے اظہار کے ضمن میں کہتے ہیں کہ فساد کے اصلی عامل شیاطین تھے ،اگرچہ ظاہراً وہ ہماری عبادت کرتے تھے ، لہٰذا اس کام کے واقعی چہرے کوکھول کردکھانا چاہیئے ۔
اور اس طریقہ سے وہ اُن عبادت کرنے والوں کومکمل طور پر اپنے سے دور کرتے ہوئے ناامید کردیں گے ۔
اس معنی کی مثال ہمیں سورہٴ یونس میں بھی ملتی ہے ،جہاں یہ ارشاد ہوتا ہے ( ویوم نحشرھم جمیعاً ثم نقول للذین اشرکو امکانکم انتم وشرکاؤکم فز یّلنابینھم وقال شرکا ؤھم ماکنتم ایّا ناتعبدون ) ” اس دن کو یاد کرو کہ جس میں ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے ، پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے معبود اپنی جگہ پرٹھہرو ، (تاکہ تمہاراحساب لیاجائے ) پھرہم انہیں ایک دوسرے سے جدا کردیں گے ، اوران کے معبود اُن سے کہیں گے کہ تم ہرگز ہماری عبادت نہیں کرتے تھے “ ۔(یونس . ۲۷(
یعنی حقیقت میں تم اپنی ہوا د ہوس اوراوہام وخیا لات کی پرستش کرتے تھے نہ کہ ہماری ،اس سے قطع نظر تمہاری یہ عبادت ہماے حکم اورفرمان سے نہیں تھی اور نہ ہی ہماری رضا مندی سے تھی ،اور جو عبادت اس طرح سے کی جائے وہ درحقیقت عبادت نہیں ہے ۔
اس طرح سے مشرکین کی امید اس دن مکمل ناامید میں بدل جائے گی اور یہ حقیقت ا ن لیے واضح طور پر روشن ہوجائے گی کہ ان کے معبود ان کے کام کی چھوٹی سے چھوٹی گرہ بھی نہ کھو ل سکیں گے ، بلکہ وہ ان سے متنفرو بیزار ہوں گے ۔
اس لیئے بعدوالی آیت میں ایک معنی خیز نتیجہ نکا لتے ہوئے کہتا ہے : ” اج کے دن تم میں سے کوئی بھی دوسرے کے لیے سودو زیاں اور نفع ونقصان کا مالک نہیں ہے “ (فَالْیَوْمَ لا یَمْلِکُ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ نَفْعاً وَ لا ضَرًّا) ۔
اس بناء پر نہ تو فرشتے ہی کہ جو ظاہراً ان کے معبود تھے ان کی کوئی شفاعت کرسکیں گے اور نہ ہی و ہ خود آپس میں ایک دوسرے کی کوئی مدد انجام دے سکیں گے ۔
یہ وہ منزل ہے کہ جہاں ہم ان ظالموں سے کہیں گے : ” تم اس آگ کے عذاب کامزہ چکھو کہ جس کی تم تکذیب کیاکرتے تھے “ (وَ نَقُولُ لِلَّذینَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذابَ النَّارِ الَّتی کُنْتُمْ بِہا تُکَذِّبُونَ ) ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جہاں قرآ ن مشرکین کے بارے میں ظالم اور ستمگر کی تعبیر کرتاہے ، بلکہ قرآن ، کی بہت سی دوسری آیات میں ” کفر “ کو ’ ’ ظلم “ سے اور ” کفّار و مشرکین “ کی ظا لمین سے تعبیر ہوئی ہے ، کیونکہ وہ ہر چیز سے پہلے خو داپنے اوپر ظلم کرتے ہیں کہ پروردگار کی عبودیت کا پُر افتخار تاج اپنے سر سے اتار کربتوں کی ذلیل کرنے والی بند گی کاطوق اپنی گردن میں ڈالتے ہیں ، اور اپنی ساری حیثیت ،شخصیت اور قسمت کوبر باد کرلیتے ہیں ۔
حقیقت میں وہ قیامت کے دن اپنے شرک کی سزا بھی دیکھیں گے اور معاد و قیامت کے انکار کاعذا ب بھی ،اور ( وَ نَقُولُ لِلَّذینَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذابَ النَّارِ الَّتی کُنْتُمْ بِہا تُکَذِّبُون) کے جملہ میں دونوں معانی جمع ہیں ۔
۱۔ عمر وبن لحی مکّہ کی جانی پہچانی شخصیت تھی ( لحی لام کی پیش اور حاء کی زبراور یا کی تشدید کے ساتھ ) ۔
۲۔ تفسیر توح المعانی جلد ۲ ص ۱۴۰ (زیربحث آیت کے ذیل میں ) سیر ت ابن ِ ہشام میں یہی مفہوم مختصر سے فر ق کے ساتھ آیاہے ،اور وہاں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے ساتھ شام سے ” ہبل “ بت لایا تھا . ( سیرة ابنِ ہشام جلد ۱ ، ص ۷۹ ) ۔