Tafseer e Namoona

Topic

											

									  قدروں کا تعیّن

										
																									
								

Ayat No : 34-38

: سبأ

وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ۳۴وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ۳۵قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ۳۶وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ ۳۷وَالَّذِينَ يَسْعَوْنَ فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَٰئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ۳۸

Translation

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے بڑے لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم تمہارے پیغام کا انکار کرنے والے ہیں. اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اموال اور اولاد کے اعتبار سے تم سے بہتر ہیں اور ہم پر عذاب ہونے والا نہیں ہے. آ پ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار جس کے رزق میں چاہتا ہے کمی یا زیادتی کردیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں. اور تمہارے اموال اور اولاد میں کوئی ایسا نہیں ہے جو تمہیں ہماری بارگاہ میں قریب بناسکے علاوہ ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے تو ان کے لئے ان کے اعمال کا دہرا بدلہ دیا جائے گا اور وہ جھروکوں میں امن وامان کے ساتھ بیٹھے ہوں گے. اور جو لوگ ہماری نشانیوں کے مقابلہ میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں وہ جہّنم کے عذاب میں جھونک دیئے جائیں گے.

Tafseer

									فرد اور جامعہ کی زندگی میں اہم مسئلہ پہچاننے کے معیار اوراس جامعہ کے تمدن پرحاکم اقدا ر کانظام ہے ۔
کیونکہ فرد اورمعاشرے کی زندگی کی تمام تحریکیں قدروں کے اسی نظام سے پھو ٹتی ہیں ، اورپھر یہی تحریکیں نئی اقدار کو پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں ۔
اس مسئلہ میںکسی قوم وملت کی غلطی اورخیالی و بے بنیاد اقدار کو برو ئے کار لانا ، ان کی تاریخ کوتباہی کی طرف کھینچ لے جانے کے لیے کافی ہے ،اورواقعی اقدار اور سچے معیا روں کا ادراک ان کے ایوانِ سعادت کی محکم ترین بنیا د بنتا ہے ۔
مغرور دنیا پرست قدروقیمت کوصرف مال و منا ل مادی وسائل اورافرادی قوتوں تک محدود سمجھتے ہیں ، یہاں تک کہ بارگاہِ خدامیں شخصیت کامعیار بھی انہیں چیزوں میں صور کرتے ہیں ، جیساکہ ہم نے اوپر والی آیت میں اس کانمونہ دیکھا ،اوراس کے بہت سے اور نمونے قرآن میں نظر آتے ہیں ۔
۱۔ زر و زور پرست اور جبارفرعون اپنے مصاحین سے کہتا ہے : ” مجھے یقین نہیں آتا کہ موسٰی ، خدا کی طرف سے ہو ، اگر وہ سچ کہتاہے تو پھر اُسے سونے کے کنفن کیوں نہ دیئے گئے ؟ ! (فلو لا القی علیہ اسورة من ذھب ) (سورہ زخرف . آیہ ۵۳) ۔
یہاں تک کہ وہ اس قسم کے زرو زیور نہ رکھنے کو موسٰی علیہ السلام کے مقام اور مرتبہ کی پستی کی دلیل شمار کرتاتھا اور کہتا تھا : ” ام انا خیر من ھٰذاالذی ھو مھین “ ( سورہٴ زخرف . آیہ ۵۲) ۔
۲۔ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مشرکین اس بات سے کہ قرآن ایک تہی دست شخص پرنازل ہوا ہے تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ : ” لولا نزل ھٰذاالقراٰن علیٰ رجل من القر یتین عظیم “ یہ قرآن سرزمین ِ مکّہ یاطائف کی کسی عظیم ثروت مند شخصیت پرکیوں نازل نہ ہوا ) .زخرف ، آیہ ۳۱) ۔
۳۔ بنی اسرائیل نے اپنے زمانہ کے پیغمبر”اشموئیل “ سے لشکر کی فرماندہی کے لےے ” طالو ت “ کے انتخاب کے سلسلے میں اعتراض کرتے ہو ئے کہا : ” نحن احق بالملک منہ ولم یئوت سعة من المال “ ( ہم فر ماندہی اورحکمرانی کے لیے اس سے زیادہ حقدار ہیں ، کیونکہ ہم مشہور ومعروف خاندان سے ہیں ،علاوہ ازیں طالوت کے پاس کچھ مال ودولت نہیں ہے ) سورہ بقرہ . ۲۴۷) ۔
۴۔ قوم نوح کے مشرک ثروت مندوں نے اُن پر اعتراض کیا : ” ان پست اورذیل افراد نے تیرے اطراف کوکیوں گھیر رکھاہے “ اور پستی سے ان کی مراد مال وثروت کا نہ ہونا ہے ( قالوا انئو من لک واتبعک الارذلون ) ” کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں حالانکہ اراذل اور پست لوگوں نے تیری پیروی کی ہے ( اورتجھ پرایمان لائے ہیں ) . (سورہ شعراء آیہ ۱۱۱ ) ۔ 
۵۔ یہ اعتراض مکہ کے ثروت مند وں نے پیغمبر ِ السلام پرکیاتھا ، کہ پابرہنہ (غریب) لوگوں نے تجھے کیوں گھیررکھا ہے ؟ ہم توان کے بدن کی بدبو سے بھی ناراحت اورپریشان ہوجاتے ہیں ، اگر تُو انہیں اپنے سے دور کردے تو پھر ہم تیرے پاس آئیں گے . قرآن سورہٴ کہف میں ان پرسختی کے ساتھ حملہ کرتاہے ، اور شدید ترین لب ولہجہ میں انہیں تہدید کرتاہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ تجھے ایسے ہی لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیئے کہ جو اگرچہ تہی دست ہیں ، لیکن ان کے دل عشقِ خداسے پُر ہیں ،اوروہ صبح و شام درگاہ ِ خدا کی طرف رُخ کرتے ہیں ،اوراس کے سواکسی کونہیں چاہتے ، اے پیغمبر ! تم انہیں کے ساتھ رہو ، اوران سے منہ نہ پھیرو ” واصبرنفسک مع الذین یدعون ربھم بالغداة والعشی یرید ون وجھہ ولا تعد عیناک عنھم “ . (کہف . ۲۸) ۔
ان ہی وجوہات کی بناء پر انبیاء کا پہلا اوراہم اصلاحی قدم اسی جھوٹی عزت اورقدرو قیمت کی دیوار کو توڑ نا تھا ، انہوں نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ ان غلط معیاروں کوختم کیا ، اوراصل خدائی اقتدار کوان کاجانشین بنایا ، اورایک ” علمی انقلاب “ کے ذریعہ شخصیت کے محور کومال واولاد ، ثروت وجاہ اور کنبہ وقبیلہ کی شہرت سے تقویٰ و ایمان اورعمل صالح میں بدل دیا ۔
ا س کا نمونہ ہم نے زیر ِ بحث آیات میں پڑھ لیا ہے ، کہ اموال واولاد پرخطِ بطلان کھینچنے کے بعد بار گاہِ الہٰی میں تقرب کے ایک وسیلہ کے عنوان سے اور (وَ ما اٴَمْوالُکُمْ وَ لا اٴَوْلادُکُمْ بِالَّتی تُقَرِّبُکُمْ عِندَنا زُلْفی ) کہہ کربلا فاصلہ اصل قدرو قیمت کو (إِلاَّ مَنْ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ) کے جملہ کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
آیہ شریفہ : ( ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ) کہ جوایک اسلامی شعار اورنعرے کی شکل میں آئی ہے ، کنبہ اور قبیلہ سے وابستہ قدرو ں کی نفی کے بعد اسی فکری و اقدار ی انقلاب کوبیان کررہی ہے ۔
اسی آیہ (سورہ حجر ات . ۱۳ ) کے مطابق کوئی چیز بھی اُس تقویٰ اورایمان کے سوا کہ جواحساس ِ مسئو لیت اور پاکیز گی عمل کے ساتھ ہو . انسانوں کی شخصیت اورقدر و قمیت کا معیار اورخدا کی بارگاہ میں ان کے قرب کاذریعہ نہیں ہے ، اورجو شخص اس اصل معیار سے زیادہ حصّہ رکھتا ہے وہی زیادہ مقرب اور زیادہ باعزت اور گرامیٴ قدر ہے ۔
یہ بات خاص طو ر پر قابلِ تو جہ ہے کہ سرزمین ِ عرب کے ماحول میں ،اسلام اورقرآن کی حیات بخش تعلیمات کے ظہور سے پہلے ، زر وزور کی قدر و قیمت کے نظا م کی حاکمیت کی وجہ سے اس ماحول کانتیجہ اور ماحصل ابو سفیان ، ابوجہل اور ابو لہب جیسے غارت گر اور منہ پھٹ لوگ تھے ، لیکن اسی ماحول سے ، اقدر کے نظام میں انقلاب آجانے کے بعد مسلمان ، ابوذر ، مقدار اور عما ریا سر جیسے افراد سامنے آئے ۔
یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ قرآن مجید سورہ زخرف میں ان آیات کے ذکر کرنے کے بعد کہ جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے کہتاہے : ” نہ صرف یہ کہ مادی شان وشوکت شخصیت کی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اگر ایسا کرنے سے کچھ مفاسد وجود میں نہ آتے ، توہم کافروں کے لےے گھرقرار دے دیتے کہ جن کی چھتیں چاندی کی ہوتیں اور اس کی سیڑھیاں (گر اں قیمت ) ہوتیں کہ جن کے ذریعہ وہ اوپر والے طبقات کی طرف جاتے اوران کے کمروں کے لیے (شان وشوکت والے ) ایسے دروازے اور (خوب صورت ) تخت قرار دیتے کہ جن پرتکیہ لگاتے ، اورہر قسم کے زیور ات ہم ان کے اختیار مین دے دیتے ، لیکن یہ سب کچھ دنیا وی زندگی کے مال ومتاع ہیں ، اورآخر ت کا گھر تیرے پروردگار کے پاس پرہیز گاروں کیلئے ہے “ ( و لو لاان یکون الناس امة واحدة لجعلنا لمن یکفربالرحمن لبیوتھم سقفاً من فضة معارج علیھا یظھرون و لبیو تھم ابواباً وسرراً علیھا یتکئون . وزخرفا ً وان کل ذالک لما متاع الحیاة الدنیا والاٰ خرة عند ربک للمتقین ) ( زخرف ، آیات . ۳۳ ۳۴ . ۳۵) ۔
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ جھوٹی قدریں انسان کی واقعی اورحقیقی اقدار کی جگہ نہ لے لیں ۔