مال و اولاد قرب خدا کی دلیل نہیں ہیں
وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ۳۴وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ۳۵قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ۳۶وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ ۳۷وَالَّذِينَ يَسْعَوْنَ فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَٰئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ۳۸
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے بڑے لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم تمہارے پیغام کا انکار کرنے والے ہیں. اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اموال اور اولاد کے اعتبار سے تم سے بہتر ہیں اور ہم پر عذاب ہونے والا نہیں ہے. آ پ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار جس کے رزق میں چاہتا ہے کمی یا زیادتی کردیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں. اور تمہارے اموال اور اولاد میں کوئی ایسا نہیں ہے جو تمہیں ہماری بارگاہ میں قریب بناسکے علاوہ ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے تو ان کے لئے ان کے اعمال کا دہرا بدلہ دیا جائے گا اور وہ جھروکوں میں امن وامان کے ساتھ بیٹھے ہوں گے. اور جو لوگ ہماری نشانیوں کے مقابلہ میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں وہ جہّنم کے عذاب میں جھونک دیئے جائیں گے.
چونکہ گزشتہ آیات میں مستکبرین کے (لوگوں کو ) اغواء کرنے کے بارے میں گفتگو تھی ، زیربحث آیات میں اس اغواٴ گر ی کے ایک گوشے کوبیان کیاجارہاہے ، اورضمنی طور پر پیغمبر گرامی اسلام کوبھی تسلی دی جارہی ہے ، کہ اگر وہ تیری مخالفت کریں تو اس بات پر تعجب نہ کر کیونکہ مرفہ الحال مستکبرین کی طرف سے سچے پیغمبروں کی مخالفت کرنا توان کاشیوہ اور عاد ت رہی ہے ۔
کہتاہے : ” ہم نے کسی شہر یا بستی میں کوئی ڈرانے والا پیغمبرنہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے مترفین . وہ لوگ جو نازو نعمت میں مست اور مغر ور ہوچکے تھے نے کہا ہم اس چیز کہ جو تم دے کر بھیجے گئے ہو منکر و کافر ہیں اورجسے تم خدائی پیغام کا نام دیتے ہواُسے ہم قبول نہیں کرتے “ (وَ ما اٴَرْسَلْنافی قَرْیَةٍ مِنْ نَذیرٍ إِلاَّ قالَ مُتْرَفُوہا إِنَّا بِما اٴُرْسِلْتُمْ بِہِ کافِرُونَ ) ۔
” نذیر “ کامعنی ہے ڈرانے والا اور یہ خداکے پیغمبروں کی طرف اشار ہ ہے کہ جو لوگوں کو ان کی کج رویوں ، بیداد گر یوں اورگناہ وفساد کے مقابلہ میںخدا کے عذاب سے ڈراتے تھے ۔
” متر فوھا “ جمع ہے ” مترف “ کی ” ترف “ بروزن طرف “ کے مادہ سے جو تنعم کے معنی میں ہے ،اور مترف ا شخص کو کہتے ہیں کہ جسے نعمت کی زیادتی اور زندگی کی مرفہ الحالی نے مست مغرور اورغافل کردیا ہو ، اورسر کشی پراکسایاہوں (۱) ۔
ہاں ! عام طور پر وہ لوگ کہ جو انبیاء کے صفِ اوّل کے مخالف تھے ، وہ یہی مترف ، سرکش اور غافل لوگ تھے ،چونکہ وہ ایک طرف سے توانبیاء کی تعلیمات کواپنے مقاصد کے حصول اوراپنی ہوس رانی سے مزاحم سمجھتے تھے اور دوسری طرف سے وہ اُسے اُن محرومین کے حقوق کادفا ع کرنے والا جانتے تھے کہ جن کے حقوق کو غصب کرکے وہ ایسی زرق برق زندگی گزار رہے تھے ،اور تیسری طرف سے وہ ہمیشہ اپنے مال وثروت کی حفاظت کے لےے حکومت کی قدرت کومعاون ومدد گار سمجھتے تھے ، اور پیغمبروں کو ان تمام جہات میں اپنا مدِّ مقابل سمجھتے تھے ، لہٰذا فوراً ان سے مقابلہ کے لےے کھڑے ہوجاتے تھے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ کسی خاص حکم یاتعلیم کاانکار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ توکلی طور پر یہ کہتے تھے کہ : ” ہم اُن تمام چیزوں کے کہ جن کے ساتھ تم مبعوث ہوئے ہو کافرہیں ” یہاں تک کہ ہم ایک قدم بھی تمہارے ساتھ چلنے کوتیارنہیں ہیں ، اوران کی یہ بات خود حق کے مقابلہ میں ان کی لجاجت ، ہٹ دھرمی اورعناد کی بہترین دلیل تھی ۔
یہ حقیقت ایک اہم مسئلہ ہے کہ جس سے قرآن نے مختلف آیات میں پردہ اٹھایا ہے کہ عام طور پرمحرومین ہی پہلے وہ افراد ہوتے تھے کہ جو انبیاء کی دعوت پر لبیک کہتے تھے ، اور مغرور ثروت مند متنعمین ہی وہ پہلاگروہ ہوتاتھا جوعَلَمِ مخالفت بلند کرتاتھا ۔
باوجود یکہ مسلّمہ طور پر دعوتِ انبیاء کے منکر اسی گروہ میں منحصر نہیں تھے لیکن عام طور پر عاملین فساد اورشرک و خرافات کی طرف دعوت دینے والے وہی ہوا کرتے تھے کہ جو ہمیشہ اس بات کی کوشش کیا کرتے تھے کہ زبردستی دوسروں کو بھی انہیں راستوں پرچلائیں ۔
سورہ زخرف کی آیہ ۲۳ ، سورہ ہود کی آیہ ۱۱۶ اورسورہ مئومنون کی آیہ ۳ ۳ میں بھی یہی مطلب بیان ہوا ہے ۔
نہ صرف ابنیاء کے مقابلہ میں بلکہ ہر اصلاحی قدم جو کسی دانشمند مصلح اورعالم ِ مجاہد کی طرف سے اٹھے یہ گروہ مخالفت کے لیے سراٹھا تا اور ، مصلحین کے پر و گر اموں کودرہم برہم کرنے کے لیے ساز شین کرتا اور کسی بھی جرم کے ارتکاب سے باز نہیں رہتا ۔
بعد والی آیت ان کی لچر اور پوچ منطق کی طرف ... کہ جس سے ہر زمانہ میں اپنی برتری کوثابت کرنے کے لیے متوسل ہوا کرتے تھے . اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ : ” اور انہوں نے یہ کہا کہ ہم سب سے زیادہ ثروت مند اور سب سے زیادہ آ ل اولاد رکھتے ہیں “ (وَ قالُوا نَحْنُ اٴَکْثَرُ اٴَمْوالاً وَ اٴَوْلاداً) ۔
خدا ہم سے محبت رکھتا ہے ، لہٰذا اس نے ہمیں مال بھی فراواں دے رکھتا ہے اور بہت سی افرادی توت بھی ،اور یہ بات ہمارے حق میں اس کے لطف وکرم کی اور اس کی بارگاہ میں ہمارے مقام اور حیثیت کی دلیل ہے : ” اور ہم (نور چشموں ) کو ہرگز بھی عذاب نہیں ہوگا “ (وَ ما نَحْنُ بِمُعَذَّبینَ) ۔
کیاخدا اپنے معززین اور پیاروں کوعذاب دے گا ؟ ! اگر ہم اس کی بارگاہ سے دھتکارے ہوئے ہوتے ،تووہ یہ ساری نعمتیں ہمیں کیوں دیتا ؟ ! خلاصہ یہ ہے کہ ہماری دنیا کاآبادہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری آخرت بھی آباد ہوگی ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال دیاہے کہ (وَ ما نَحْنُ بِمُعَذَّبین) کاجملہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کُلی طور پر قیامت اورعذاب کے ہی منکرتھے ،لیکن بعد والی آیات اس بات کی نشا ندہی کرتی ہیں کہ یہ جملہ اس معنی میں نہیں ہے ، بلکہ ان کی مراد یہ تھی کہ وہ اپنی ثروت ودولت کومقربِ بارگاہ خدا ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں ۔
بعد والی آیت ان کی اس گھٹیا اور عوام کوفریب دینے والی منطق کاانہتائی اعلیٰ طریقہ سے جواب دیتی ہے ، اوران کی سرکوبی کرتی ہے ،روئے سخن پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کرتے ہوئے کہتی ہے کہ : ” ان سے کہہ دے کہ میرا پروردگار جس کے لیے چاہتا ہے روزی کو وسیع کردیتاہے اور جس کے لےے چاہے اس میں تنگی کردیتاہے “ ( اوریہ سب کچھ ایسی مصلحتوں کے مطابق کرتاہے کہ جنہیں مخلوق کی آذ مائش اورانسانی زندگی کے نظم ونسق کے لیے ضروری سمجھتاہے ، اور یہ چیز بار گاہ ِ خداوندی میں قدر و منزلت اور مقام وحیثیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتی ) (قُلْ إِنَّ رَبِّی یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشاء ُ وَ یَقْدِرُ) ۔
اس بناء پر وسعتِ رزق کوسعادت کی اور تنگیٴ رزق کوشقادت کی دلیل ہرگز نہیں سمجھنا چاہیئے : ” لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبرہیں “ (وَ لکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لا یَعْلَمُون) ۔
البتہ بے خبراور ناو اقف اکثر یت ایسی ہے ، ورنہ واقف اور آگاہ لوگوں کیلئے یہ مسئلہ واضح و آشکار ہے ۔
اس کے بعد مزید وضاحت کے ساتھ اس مطلب کوبیان کرتے ہوئے کہتاہے : ” ہرگز ایسا نہیں ہے ، کہ تمہارامال و اولاد تمہیں ہمارامقرب بنادے “ (وَ ما اٴَمْوالُکُمْ وَ لا اٴَوْلادُکُمْ بِالَّتی تُقَرِّبُکُمْ عِندَنا زُلْفی) (۲)۔
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ جو عوام کے ایک گروہ کودامن گیر ہوگئی ہے . کہ جویہ تصوّر کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو دنیا میں مادی لحاظ سے محروم ہیں وہ بار گاہِ خدامیں مغضوب ومطرود ہیں اور وہ لوگ کہ جو نعمت کی فراخی میں ڈوبے ہو ئے ہیں وہ اس کے محبوب ومقبول ہیں ۔
کتنے ہی ایسے محروم افراد ہوتے ہیں کہ جن کی اس (محرومیت ) کے ذریعہ آز مائش ہوتی ہے اور بدترین مقامات تک پہنچتے ہیں اور کتنے ہی متنعم افراد ایسے ہیں کہ جن کا مال ودولت ان کے لیے بلائے جان بن جاتا ہے اوران کی گناہ گاری یاحد سے بڑھ کانے کامقدمہ بنتا ہے ۔
کیاقرآن سورہ تغابن کی آیہ ۱۵ میں صراحت کے ساتھ یہ نہیں کہتا کہ : ( انما اموالکم واو لادکم فتنة واللہ عندہ اجر عظیم ) ” تمہارے مال او راولاد تمہاری آزمائش کاذریعہ ہیں اور اجرِ عظیم خدا کے پاس ہے “ ۔
اس بات کایہ مطلب نہیں ہے کہ انسان زندگی کے لےے لازمی وضروری سعی و کوشش سے ہی دستبردار ہوجائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اقتصادی وسائل اورفراواں انسانی قدرت وطاقت ہرگز خدا کی بارگاہ میں انسانوں کی معنوی قدر و قیمت کا معیار نہیں ہوتا ۔
اس کے بعد انسانوں کی قدروقیمت کااصلی معیار او ر جو چیز خدا کی بارگا ہ میں تقرب کا سبب بنتی ہے اُسے بیان کرتے ہوئے ( ایک استثنا ے منفصل کی صورت میں ) کہتا ہے کہ : ” مگروہ لوگ جو ایمان لائے ، اور انہوں نے عمل ِ صالح انجام دئے ان کے لیے ان کے اعمال کے مقابلہ میں کئی گنا اجرو ثواب ہے ، اور وہ جنت کے بالا خانوں میں انتہائی امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کریں گے “ ( إِلاَّ مَنْ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً فَاٴُولئِکَ لَہُمْ جَزاء ُ الضِّعْفِ بِما عَمِلُوا وَ ہُمْ فِی الْغُرُفاتِ آمِنُون) (۳) ۔
اس بناء پر تمام معیار ان ہی دونوں امور کی طرف لوٹتے ہیں ، ”ایمان “ اور ” عمل صالح “ خواہ کوئی بھی آدمی ہو ، ہرزمانے میں اور ہرجگہ ، وہ کسی بھی طبقہ سے ہو یاکسی گروہ سے ہو ، بار گا ہ خدامیں انسانوں کے درمیان تفاوت اورفرق ان کے ایمان کے درجات اورعمل صالح کے مراتب کے تفاوت اورفرق کے مطابق ہوتا ہے اوراس کے سوا ور کوئی دوسری چیز نہیں ہے ۔
یہں ک کہ علم ودانش اور بزرگ افراد کی طرف نسبت ، یہان تک کہ پیغمبروں کے ساتھ (نسبت بھی ) اگران دونوں معیاروں سے توام نہ ہو ، توصرف یہ اکیلی نسبت انسان کی قدرو قیمت میں ذراسا بھی اضافہ نہیں کرتی ۔
یہ وہ مقام ہے کہ جاں قرآ ن نے اپنی بے نظیر صراحت کے ذریعہ پروردگار کے قرب کے عوامل کے سلسلہ میں ، اورانسان کی وجودی قدرو قیمت کے بارے میں تمام بے معنی اور لغوخیالات پرقلم بطلان کھینچ دیاہے ، اوراصل معیار کادو چیزوں میں خلاصہ کردیاہے کہ جن کے حاصل کرنے پر تمام انسان قدرت رکھتے ہیں، اور مادی امکا نات ووسائل اور محرومیتیں اس میں مئوثر نہیں ہیں ۔
ہاں ! اگر مال و اولاد بھی یہی راستہ اختیار کرلیں تووہ بھی خدائی رنگ میں رنگے جائیں گے ، اورایمان اورعملِ صالح کارنگ قبول کرلین گے اور قربِ خدا کا سبب بن جائیں گے ، لیکن وہ مال اور اولاد کہ جو انسان کوخدا سے دور کردیں ،اور ایک بُت کی طرح پوجے جانے لگیں اورفسا د برپا کرنے کاسبب بن جائیں تووہ جہنم کاایندھن ہیں ،اورقرآن کے کہنے کے مطابق انسان کی جان اوراس کی سعادت ونیک بختی کے لیے دشمن ہیں . ( یاایھا الذین اٰمنو اا ن من از واجکم واو لادکم عدوً الکم فاحذروھم ) ” اے ایمان والوں ! تمہاری بعض بیویاں اور کچھ اولاد تمہاری دشمن ہے ان سے ڈرتے رہو “ (تغابن . ۱۴) ۔
ضمنی طور پر جیساکہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا ے . ”ضعف “ صرف ” رکنے “ کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ ” چند برابر “ (کئی گنا ) کے معنی میں بھی آیاہے ، اورزیر ِ بحث آیت میں اسی معنی میں ہے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہرنیک کام کی پاداش اور اجر ، خدا کے ہاں کم از کم دس گناہے : (من جاء با لحسنة فلہ عشرامثا لھا ) . (انعام . ۱۶۰ ) اور کبھی اس سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جاتاہے ۔
”غرفات “ جمع ہے ” غر فہ “ کی کہ جو اُن کمروں کے معنی میں ہے کہ جو اوپر والے طبقہ میں ہوں ، کہ جن میں روشنی بھی زیادہ آتی ہے اور ہَوَا بھی بہتر ہوتی ہے اور آفات سے بھی بچے ہوئے ہوئے ہوتے ہیں ، اس بناء پر یہ تعبیرجنت کے اعلیٰ منازل کے لیے استعمال ہوئی ہے ۔
یہ لفظ اصل میں مادہ ” غر ف “ (بروزن برف ) کسی چیز کواو پر لے جانے اوراٹھا نے کے معنی میں ہے ۔
” اٰمنوں “ (وہ لوگ جوامن وامان میں زندگی بسرکرتے ہیں ) کہ تعبیر ، اہل بہشت کے بارے میں بہت ہی جامع تعبیر ہے ، کہ جو ان کی روح اور جسم کے آرام وسکون کو ہر لحاظ سے ظاہر کرتی ہے ، کیونکہ وہاں انہیں نہ توفنا و زوال کا اور موت کا خوف ہوگا ، اور نہ ہی دشمن کے حملہ کاخطرہ ،نہ کوئی بیماری اور آفت اورغم و اندوہ ، یہاں تک کہ انہیں خوف کا بھی کوئی خو ف نہیں ہوگا ، اوراس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوگی کہ انسان ہرلحاظ سے امن وامان میں زندگی بسرکرے جیسا کہ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بد امنی سے بد تر کوئی بلا اور مصیبت نہیں ہے ۔
او ر بعد والی آیت میں ان کے مدِّ مقابل گروہ کی توصیف کرتے ہوئے کہتاہے : باقی رہے وہ لوگ کہ جو ہماری آیات کے انکار وابطال کے لیے سعی وکوشش کرتے ہیں ، نہ تووہ خود ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کوحق کی راہ میں قدم رکھنے کی اجازت دیتے ہیں ، اس حال میں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہماری قدرت کے چنگل سے نکل کربھاگ جائیں گے ، وہ توقیامت کے دن درد ناک عذابمین مبتلا ہوں گے “ (وَ الَّذینَ یَسْعَوْنَ فی آیاتِنا مُعاجِزینَ اٴُولئِکَ فِی الْعَذابِ مُحْضَرُونَ) ۔
یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے مال و اولاد اور افرادی قوت سے استفادہ کرتے ہوئے انبیاء کی تکذیب کرتے ہیں ،اور مخلوقِ خداکو وسوسے میں ڈالنے میں مشغول رہتے ہیں ،اور وہ اس قدر مغرور ہوگئے تھے کہ وہ یہ گمان کرنے لگ گئے تھے کہ وہ عذابِ الہٰی کے چنگل سے نکل کر بھاگ جائیں گے لیکن وہ سب کے سب خدا کے حکم سے جلانے والی آگ کے اندرجھونک دیئے جائیں گے ۔
” اٴُولئِکَ فِی الْعَذابِ مُحْضَرُون“ کے جملہ میں کیونکہ آئندہ زمانہ کے بارے میں کوئی بات نہیں ہے ، لہٰذا ممکن ہے کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ اب اس وقت بھی عذاب میں گرفتار ہیں . اس زندان سے بڑھ کر اور کونسا عذاب ہوگا کہ جو انہوں نے مال و اولاد کے ذریعہ اپنے لیے بنالیا ہے ۔
یہ احتمال بھی اس میں موجود ہے کہ او پر والی تعبیر اس بناء پر ہو کہ خداکا یہ وعدہ ایسا مسلم اور یقینی ہے کہ گویا وہ اسی وقت اس میں قرار پاگئے ہیں جیساکہ جملہٴ ” فھم فی الغرفات اٰمنون “ میں بیان ہوا ہے ۔
” معاجزین “ کی تعبیر . جیساکہ بعض اربابِ لغت نے کہا ہے .. . اس معنی میں ہے کہ وہ اس طرح خیال کرتے ہیں کہ وہ خدا کی قدرت اوراس کے عذاب سے نکل کر فرار کرسکتے ہیں ، حالانکہ یہ خیال باطل اور بے بنیاد ہے (۴) ۔
۱۔ ” لسان العرب “ جلد۹ ،ص ۱۷۔
۲۔ ” زلفی “ اور ”ز لفة “ مقام ومنزلت اورمنزل گاہ کے معنی میں آیاہے (مفرداتِ راغب ) اسی بناء پر رات کی منازل کوزلف اللیل کہتے ہیں ” التی “ کی تعبیر اس بناء پر ہے ، کیونکہ بہت سے موارد میں مفرد مئونث کی ضمیر جمع مسکر کی طرف لوٹتی ہے ، اس بناء پر یہاں تقدیر کی ضرورت نہیں ہے ۔
۳۔ جزاء الضعف کی تعبیر موصوف کی صفت کی طرف اضافت کی قبیل سے ہے ۔
۴۔ ” لسان العرب “ اور ” مفرداتِ راغب “ نے ” معاجزین “ کی ( ظانین انھم یعجزون اللہ ) ” گمان کرتے ہین کہ وہ خدا کوعاجز کردین گے “ کے ساتھ تفسیر کی ہے ، اورحقیقت میں یہ ” یخادعون اللہ ورسولہ “ کی تعبیر کے مشا بہ ہے کہ جو سورہ بقرہ کی آیہ ۹ میں آئی ہے ،کیونکہ باب مفاعلہ کبھی کبھی اس معنی میں آتاہے ۔