Tafseer e Namoona

Topic

											

									  کوئی شخص شیطانی وسوسوں کی پیروی پرمجبور نہیں ہے

										
																									
								

Ayat No : 20-21

: سبأ

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ۲۰وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ ۗ وَرَبُّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ ۲۱

Translation

اور ان پر ابلیس نے اپنے گمان کو سچا کردکھایا تو مومنین کے ایک گروہ کو چھوڑ کر سب نے اس کا اتباع کرلیا. اور شیطان کو ان پر اختیار حاصل نہ ہوتا مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہے اور آپ کا پروردگار ہر شے کا نگراں ہے.

Tafseer

									ان آیات میں درحقیقت قوم سبا کی داستان سے کلی نتیجہ نکا ل کرپیش کیاگیاہے ، جوگزشتہ آیات میںبیان ہوئی تھی ،اورہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ ہَوَا ئے نفس اور شیطانی وسوسوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی وجہ سے ان تمام بد بختیوں اورناکامیوں میں کس طرح گرفتار ہوئے ۔
پہلی آیت میںفر ماتا ہے : ” یقینا شیطان نے اپنے گمان کوان کے بارے میں (اور ہراس جماعت کے بارے میں جو ابلیس کی پیروی کرتی ہے ) درست پایا “ ( وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ إِبْلیسُ ظَنَّہ) ۔
” ان سب نے ہی اس کی پیروی کی سوائے مومنین کے تھوڑے سے گروہ کے “ ( فَاتَّبَعُوہُ إِلاَّ فَریقاً مِنَ الْمُؤْمِنینَ) ۔
یادوسر ی تعبیر کے مطابق ابلیس کی وہ پیشین گو ئی . جواس نے آدم علیہ السلام کے سجد ے سے روگردانی کرنے اور بارگا ہَ خدا وندی سے دھتکار ے جانے کے بعد کی تھی کہ : ” فبعذ تک لا غو ینھم اجمعین الاّ عبادک منھم المخلصین “ (۱) (تیری عزت کی قسم ! تیرے مخلص بندوں کے سوا میں ان سب کو گمراہ کروں گا ) اس گروہ کے بارے میں ٹھیک نکلی ۔
اگرچہ اس نے یہ بات گمان اور انداز ے سے کہی تھی ، لیکن وہی گمان اور اندازہ آخرکار حقیقت بن گیا ،کیونکہ یہ ارادوں کے کمزور اورضعیف الایمان لوگ گروہ گروہ اس کے پیچھے چلنے لگے ، صرف مومنین کاایک چھوٹا ساگروہ تھا کہ جنہوں نے شیطانی وسوسوں کی زنجیروں کوتوڑ دیا، اوراس کے دامِ فریب میں نہ آئے ،آزاد ( ہی اس دنیا میں ) آئے ، آزادی سے زندگی بسر کی ، اور آزادہی اس دنیا سے گئے ” اگرچہ وہ تعداد کے لحاظ سے توکم تھے ، لیکن قدرو قیمت کے لحاظ سے ان میں ہرایک پورے ایک جہان کے ہم پلہ تھا “ . ” اولئک ھم الاقلو ن عدد اوالا کثرون عنداللہ قدراً (۲) ۔
بعد والی آیت میں . ابلیس کے وسوسوں ، اوراُن لوگوں کے بارے میں، کہ جو اس کے اثرو نفوذ کاشکار ہوجاتے ہیں ، اور جو اس کے اثرو نفوذ سے باہر رہتے ہیں . .. دو مطالب کی طرف اشارہ کرتاہے ، پہلے کہتا ہے : ” شیطان کاان کے او پر کوئی تسلط اور قابو نہیں ھا ، اور وہ کسی کو اپنی پیروی پرمجبورنہیں کرتا “ (وَ ما کانَ لَہُ عَلَیْہِمْ مِنْ سُلْطان) ۔
یہ ہم ہی ہیں ، کہ جواُسے اپنے اندر داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں ، اور مملکت بدن کی سرحدوں کوعبورکرنے کے بعد دل میں داخل ہونے کا پروانہ اس کے لیے جاری کرتے ہیں ۔
یہ وہی چیز ہے کہ جسے قرآن دوسری جگہ پرخود شیطان کی زبانی نقل کررہاہے کہ : ( وماکان لی علیکم من سلطان الاّ ان دعوتکم ستجبتم لی ) ” میرا تم پرکوئی تسلط تو نہیں تھا ، سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے بھی میری دعوت کو قبول کرلیا “ ۔ (ابراہیم . ۲۲) ۔
لیکن یہ بات صاف طور پر ظاہر ہے کہ ، ہو ا پرست اور بے ایمان لوگوں کی طرف سے اس کی دعوت قبول ہوجانے کے بعد وہ آرام سے نہیں بیٹھتا بلکہ اپنے غلبہ اور تسلط کی بنیادوں کو ان پرمستحکم کرلیتاہے ۔
اس لیے آیت کے آخرمیں مزید کہتا ہے کہ : ” ابلیس کو اس کے وسوسوں میں آزاد چھوڑ دینے کامقصد یہ تھا کہ آخرت پر ایمان لانے والے اور شک میں پڑے ہوئے بے ایمان لوگ الگ الگ پہچانے جائیں “ ( إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ ہُوَ مِنْہا فی شَکٍّ ) (3) ۔
یہ بات بد یہی ہے کہ خدا ازل سے ان تمام چیزوں سے ، کہ جو ا س جہان میں ابدتک واقع ہوں گی ، آگاہ ہے . اس بناء پر (لنعلم ) ” تاکہ ہم جا ن لیں “ کے جملہ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم آخرت پرایمان رکھنے والوں کوان سے کہ جوشک وشبہ میں پڑ ے ہوئے ہیں ، نہیں پہچانتے لہٰذا شیطانی وسوسوں کو درمیان میں آنا چاہیئے ، تاکہ وہ پہچانے جائیں ، بلکہ اس جملہ سے مراد خدا کے علم کاتحقق عینی ہے کیونکہ خدا ہر گز اشخاص کے باطن اوران کے بالقوہ اعمال کوجاننے اوران کاعلم رکھنے کی بناء پر کسی کوسز ااور عذاب نہیںکرتا ،بلکہ ضروری ہے کہ میدانِ امتحان فراہم ہو ، شیطانی وسوسے اور خواہشات نفسانی کاآغاز ہو ، تاکہ ہرشخص جوکچھ اپنے اندر رکھتا ہے ، اپنے ارادہ اور اختیار کی پوری آذادی کے ساتھ اسے باہر نکال دے ،او ر خدا کاعلم تحقق عینی حاصل کرے ، کیونکہ جب تک کارج میں کوئی عمل انجام نہ پائے اس وقت تک عذاب و عقاب کا استحقاق حاصل نہیں ہوتا ۔
دوسرے لفظو ں ،میں وہ بات جو بالقوہ موجود ہے فعل میں نہ آئے صرف حسنِ باطن یاسوء باطن کی بناء پر کسی کو جزاء یاکسی کوسزانہیں دیتے ۔
اور آیت کے آخرمیں تمام بندوں کوتنبیہ اورخبردار کرتے ہوئے کہتاہے کہ : ” اور تیراپروردگار ہرچیز کامحافظ اور نگہبان ہے “ ( وَ رَبُّکَ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ حَفیظ)۔
تاکہ شیطان کے پیروکار یہ تصور نہ کرلیں کہ ان کے اعمال گفتار میں سے کوئی چیز اس جہان میں ختم ہوجائے گی ،یاخدا اس کوفراموش کردے گا . نہیں ! ایسا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ خداہر چیز کی قیامت کے دن کے لیے نگہداری اورحفاظت کرتاہے ۔
۱۔ سورہٴ ص . ۸۲ ، ۸۳ ۔
۲۔ نہج البلاغہ کلمات قصار ۔
3۔ اس معنی کی بناء پر کہ جو ہم نے آیہ کی تفسیر میںبیان کیے ہیں ، استثنا ء ، یہاں پراستثنا ئے متصل ہے ، اس بات کے قرینہ سے کہ جو سورہ حجر کی آیہ ۴۲ میںبیان ہوئی ہے : ” ان عبادی لیس لک علیھم سلطان الامن اتبعک من الغاوین “ کیونکہ اس آیت کا ظاہریہ ہے کہ شیطان ’غاوین ‘ پرتسلط جماتاہے ، البتہ بعض مفسرین نے استثنا ء منفصل کااحتمال بھی دیا ہے ۔