۳۔ ایک مختصر سے واقعہ میں عبرت کے اھم نکات
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ ۱۸فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ۱۹
اور جب ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سیر کو معّین کردیا کہ اب دن و رات جب چاہو سفر کرو محفوظ رہوگے. تو انہوں نے اس پر بھی یہ کہا کہ پروردگار ہمارے سفر دور دراز بنادے اوراس طرح اپنے نفس پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں کہانی بناکر چھوڑ دیا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ یقینا اس میں صبر و شکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں.
” سلیمان علیہ السلام “ کی سرگزشت بیان کرنے کے بعد ،قرآن مجید میں قومِ سبا کی داستان کابیان کرنا ایک خاص مفہوم رکھتا ہے ۔
۱۔ داؤد علیہ السلام سلیمان علیہ السلام بہت ہی عظیم پیغمبرتھے کہ جنہوں نے ایک عظیم حکومت تشکیل دی تھی ،اوروہ ایک درخشاں تمدن کو وجود میں لائے تھے ، لیکن داؤد علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کی وفات کے ساتھ ہی یہ تمدن ختم ہو گی. قوم سبا نے بھی ایک عظیم تمدن قائم کیاتھا کہ جو سدِ ” مآرب “ کے ٹوٹ جانے سے برباد ہوگیا ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ . روایات کے مطابق . سلیمان علیہ السلام کے عصا کوتودیمک نے کھا یاتھا ،اور” مآرب “ کے عظیم بند میں صحرائی چوہوں نے سوارخ کیاتھا تاکہ یہ مغرور انسان سمجھ لے کہ مادی نعمتیں چاہے جتنی بھی عظیم کیوں نہ ہوں ، ایک ہَوَا کے جھونکے سے ختم ہوجاتی ہیں ، ایک کیڑا یاایک چھوٹا سا جانوار انہیں زیر وزبرکرسکتا ہے ، تاکہ باخبر لوگوں کے لیے عبرت ہو کہ و ہ اس کے ساتھ دل نہ لگا ئیں اور مومن اس کے اسیر اور قیدی نہ بنیں ، اور مغرور لوگ غرور کی مستی سے ہو ش میں آجائیں اور تکبّر اورظلم وستم کی راہ اختیار نہ کریں ۔
۲۔ اس سے قطع نظر یہاں پر باشکوہ تمدن کے دوچہرے نظر آتے ہیں کہ جن میں سے ایک رحمانی ہے اور دوسرا شیطانی ، لیکن نہ وہ باقی رہا اور نہ یہ ، اور نہ دونوں کے دونوں ہی فنا کی گود میں چلے گئے ۔
۳۔ یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے ، کہ قوم ِ سبا کے مغرور لوگ وعامتہ الناس کواپنے قریب نہیں دیکھ سکتے تھے ، اور وہ یہ خیال کرتے تھے کہ بڑے بڑے لوگوں اقلیت اور کم آمدنی والے لوگوں کی اکثریت کے درمیان کوئی بہت بڑا بند اور ایک عظیم سرحد ونی چاہیئے تاکہ وہ ہرگز آپس میں نہ ملیں جُلیں ،لہذا انہوں نے خدا سے آۻبادیوں کے دور دور واقع ہونے ،اور سفروں کے لمبااور دور دراز ہونے کا تقاضاکیا . خدانے بھی ان کی دعاقبول کرلی ، اور وہ اس طرح سے بکھر ے اور پراگندہ ہوئے کہ اُن میں سے ہر ایک گروہ کسی ایک طرف چلاگیا ، اور وہ ایک دوسرے سے اس طرح سے دور ہوئے کہ اگروہ ایک دوسرے کو دیکھنا اور ملاقات کرنا چاہتے بھی تواُس کے لیے طو یل عمر تک سفردر کار ہوتا ۔
۴۔ جس وقت کوئی شخص سیل عرم کے آنے سے پہلے اوراس کے آنے کے بعد کی اس سرزمین کی وضع وکیفیت پرنظر کرتا ، تووہ اس بات کایقین نہیںکرسکتا تھا کہ یہ وہی سرزمین ہے ، کہ جو ایک دن سرسبز و شاداب اور میواہ دار درختوں سے پُر تھے ، کہ جو آج ایک وحشتناک بیا بان کی شکل میں . کہ جس میں کہیں کہیں جھاؤ کے درخت ، پیلو اور بیریاں ،ایسے مسافروں کی طرح کہ جو راستہ بھول گئے ہوں اور ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہوں . نظر آتا ہے ۔
یہ منظر زبان حال سے کہتاہے کہ : انسان کے وجود کی سر زمین بھی اسی طرح ہے ، کہ اگراس کی تعمیری قوتوی کوکنٹرول کیاجائے ، اوراس کی صلا حیتو ں کاصحیح مصرف ہو ، تو علم و عمل اورفضائل اخلاقی کے سر سبز وشاداب باغات بار آور ہو ں گے ،لیکن اگر تقویٰ کا بندٹو ٹ جائے ،اور خوہشات ایک ویران کرنے والے سیلاب کی شکل میں انسانی زندگی کی سرزمین کوڈھانپ لیں ۔
تو بے قدر قیمت ویرانی کے سوا اورکچھ باقی نہ رہے گا ، اور کبھی بھی ایک ایساعامل جوظاہری طو ر پرچھوٹا ساہوتا ہے ،آہستہ آہستہ بنیاد کوکاٹناشروع کردیتاہے ، اور ہرچیز کودرہم برہم کردیتاہے ،لہٰذا ایسے چھوٹے چھوٹے عوامل تک سے ڈرتےررہنا چاہیئے ۔
۵۔ آخری بات ، کہ جس کی طرف اشارہ کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں ، و ہ یہ ہے کہ یہ عجیب وغریب ماجراایک دفعہ پھراس حقیقت کوثابت کرتاہے کہ انسان کی موت اس کی زندگی کے اندر ہی چھپی ہوئی ہے ،اور وہی چیز کہ جو ایک دن اس کی حیات و آبادی کاباعث ہوتی ہے ،دوسرے دن ممکن ہے اس کی موت اور ویرانی کاعامل بن جائے ۔