Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ قرآن کاایک تاریخی معجزہ

										
																									
								

Ayat No : 18-19

: سبأ

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ ۱۸فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ۱۹

Translation

اور جب ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سیر کو معّین کردیا کہ اب دن و رات جب چاہو سفر کرو محفوظ رہوگے. تو انہوں نے اس پر بھی یہ کہا کہ پروردگار ہمارے سفر دور دراز بنادے اوراس طرح اپنے نفس پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں کہانی بناکر چھوڑ دیا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ یقینا اس میں صبر و شکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں.

Tafseer

									قرآن مجید نے اوپر والی آیات میں قومِ سبا کی داستان بیا ن کی ہے ، اور مدتیں گزرچکی تھیں کہ دنیا جہان کے مئورخین اس قسم کی قوم اور اس طرح کے تمدن سے بے خبری کا اظہا رکرتے تھے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مئورخین جدید انکشافات سے پہلے ملوک سبا کے سلسلہ اور ان کے عظیم تمدن کانام تک نہیں لیتے تھے اور ” سبا “ کوصرف ایک فرضی شخص سمجھتے تھے ، کہ جو حکومت ”حمیر “ کے بانی کاباپ تھا ، جبکہ قرآن میں ایک پوری سورت اسی قوم کے نام کی ہے ، اوران کے تمدن کے مظاہر میں سے ایک مظہر کی طرف جو مآرب کے تاریخی بند کی تعمیرہے ، اشارہ کررہی ہے لیکن یمن مین اس قوم کے تاریخی انکشافات کے بعد ماہر دانشمندوں کاعقیدہ دگر گوں ہوگیاہے ۔
اس بات کاسبب ، کہ اب تک قوم ”سبا “ کے تمدن کے آثار معلوم نہ ہوئے ، دو باتیں تھیں ، ایک تو راستہ کی سختیاں اور آب و ہَوَا کی شدید گرمی ، اور دوسرے اس علاقے کے لوگوں کی بیگانوں اور اجنبی لوگوں کے بارے میں بد گمانی ، جسے بے خبر اور ناآگا ہ یورپ والے کبھی کبھی وحشت سے تعبیر کرتے تھے ، یہاں تک کہ چند ماہرین آثارِ قدیمہ ، کہ جو سباکہ اسرار کھول لنے کی طرف شدید لگاؤ رکھتے تھے ، شہر ” مآرب “ کے قلب اوراس کے نواح میں وارد ہونے میں کا میاب ہوگئے ، اور پتھروں پر ثبت شدہ آثار خطوط اورنقوش کے نمونے اٹھا کرلے گئے ،اوراس کے بعد انیس یں صدی عیسوی میں کئی گروہ نے یکے بعد دیگر ے وہاں تک راہ انکالی لی ، اوروہاں سے گراں بہاآثار اپنے ساتھ یورپ لے گئے اوران نقوش وخطوط اور دوسرے آثار کے مجموعہ سے کہ کہ جو ایک ہزار نقوش تک پہنچے ہوئے تھے ، اس قوم کے تمد کی جزئیات بلکہ سدِ مآرب کی بنا ء کی تاریخی اوردوسرے خصوصیات تک معلوم کرلیے ، اور اہل مغرب پرثابت ہو گیا کہ قرآن نے اس سلسلے میں جو کچھ کہاتھا وہ کوئی افسانہ نہیں تھا ، بلکہ وہ ایک تاریخی واقعیت اورحقیقت ہے ، کہ جس سے وہ بے خبرتھے ، اس طور پر کہ اب توانہوں نے اس عظیم سد ، اور پانی کے گزرنے کے مقامات اور دائیں بائیں باغوں کی درمیانی نہروں اوراس کی دوسری خصوصیات کے بارے میں نقشے بھی تیار کرلیے ہیں (1) ۔
 1۔ فرہنگ قصص القرآن . مادہ ” سبا“ (ملخص ) ۔