Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ہم نے انہیں اسطرح منتشر کیاکہ وہ دوسروں کیلئے ضرب المثل بن گئے

										
																									
								

Ayat No : 18-19

: سبأ

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ ۱۸فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ۱۹

Translation

اور جب ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سیر کو معّین کردیا کہ اب دن و رات جب چاہو سفر کرو محفوظ رہوگے. تو انہوں نے اس پر بھی یہ کہا کہ پروردگار ہمارے سفر دور دراز بنادے اوراس طرح اپنے نفس پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں کہانی بناکر چھوڑ دیا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ یقینا اس میں صبر و شکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں.

Tafseer

									ان آیات میں قرآن دوبارہ قوم ِ سبا کی داستان کی طرف لوٹتا ہے اوران کے بارے میں مزید تشریح وتفصیل بیان کر تا ہے ، اوران کی سز ا او ر عذاب کو بھی زیادہ شرح وبسط کے ساتھ پیش کرتا ہے ، اس طرح سے کہ یہ ہر سننے والے کے لیے ایک ایسا درس ہے جوبہت اہم ،سبق آموز اور تربیت کنندہ ہے ، فرماتاہے : ” ہم نے ان کی سر زمین کو اس حدتک آباد دکیاتھا کہ نہ صرف ہم نے شہروں کو غرق ِ نعمت کیا ہوا تھا بلکہ ان کے اوران کی اُن زمینوں کے درمیان کہ جنہیں ہم نے برکت دے رکھی تھی ، ظاہر ( ایک سے دوسرے کودکھائی دینے والے ) او رآشکار شہراور آبادیاں قرار دیاتھا ‘ ‘ (وَ جَعَلْنا بَیْنَہُمْ وَ بَیْنَ الْقُرَی الَّتی بارَکْنا فیہا قُریً ظاہِرَةً ) ۔
درحقیقت ان کے اور ان کی مبارک سرزمین کے درمیان متصل اورزنجیر کی کڑیوں کی طرح آباد یاں تھیں ، اوران آبادیوں کے درمیان اتناکم فاصلہ تھاکہ وہ ہرایک میں سے دوسری کو دیکھتے تھے (اور یہ ہے ” قری ظاھرة “ ... واضح وآشکار آبادیوں کامعنی ) ۔
بعض مفسرین نے ”قری ظاھرہ “ کی دوسری طرح تفسیر کی ہے ، اور کہا ہے کہ یہ ان آبادیوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو ٹھیک راستہ کے درمیان واضح طو ر پر واقع تھیں او رمسافرین ان میں اچھی طرح توقف کرسکتے تھے ، یایہ کہ یہ آۻبادیاں بلند ی کے اوپر واقع تھیں ، اور ہرعبور کرنے والے کوصاف طور پر دکھائی دیتی تھیں ۔
باقی رہا یہ کہ مبارک زمینوں سے کو نسا علاقہ مراد ہے ، اکثر مفسرین نے اسے سرزمینِ شامات (شام ،فلسطین اور اُردن ) سے تفسیر کی ہے ، کیونکہ یہ تعبیر اسی سرزمین کے لےے سورہ اسراء کی پہلی آیت او ر سورہ انبیاء کی آیت ۸۱ میں آئی ہے ، لیکن بعض مفسرین نے احتمال دیاہے ، کہ اس سے مراد ، کیونکہ ”صنعاء “ یا ” مآرب “ کی آۻبادیاں ہیں کہ یہ دونوں ہی یمن کے علاقہ میں واقع ہیں ، اور یہ تفسیر بعید نہیں ہے ، کیونکہ ” یمن کا “ ... جو جزیرہ عرب کا جنوبی ترین نقط ہے . ” شامات “ سے فاصلہ .. . کہ جو شمالی ترین نقط میں واقع ہے اس قدرزیادہ ہے ، اور خشک او ر جلے ہوئے بیابانوں سے اٹا ہوا ہے ، کہ اس کے ساتھ آیت کی تفسیر بہت ہی بعید نظر آتی ہے ، اور تواریخ میں بھی نقل نہیں ہوا ہے بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ سرزمین ہائے مبارک سے مرا د ” مکّہ “ کی سرزمین ہے ،کہ وہ بھی بعید ہے ۔
یہ بات تو آبا دی کے لحاظ سے ہے ، لیکن چونکہ لوگوں کی آبادی کافی نہیں ہے ، بلکہ اہم اور بنیادی شرط امن وامان ہوتاہے ، لہٰذا مزید کہتا ہے : ” ہم نے ان آبادیوں کے درمیان مناسب اور تزدیک نزدیک فاصلے رکھے “ ( تاکہ وہ آسانی اورامن وامان کے ساتھ ایک دوسری میں آجاسکیں ) (وَ قَدَّرْنا فیہَا السَّیْر) ۔
اور ہم نے ان سے کہا : ”تم ان بستیوں کے درمیان راتوں میں اور دنوں مین پورے امن و امان کے ساتھ سفر کرو ، اورا ن آبادیوں میں چلو پھرو “ (سیرُوا فیہا لَیالِیَ وَ اٴَیَّاماً آمِنینَ ) ۔
اس طرح یہ آبادیاں مناسب اور جچا تُلا فاصلہ رکھتی تھیں ، اور وحوش اور بیابانی درندوں ، یا چوروں اور ڈاکوؤں کے حملہ کے لحاظ سے بھی انتہائی امن و امان میں ھیں ، اس طرح سے کہ لوگ زادِ راہ ، سفر خرچ اور سواری کے بغیر ہی . اس صورت میں کہ نہ تو اکٹھے قافلوں میں چلنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی مسلح افراد ساتھ لینے کی کوئی احتیاج تھی . راستے کی بے امنی کی جہت سے ، یاپانی اورع غذاکی کمی کی وجہ سے کسی ڈر اورخوف کے بغیر اپنے سفر کو جاری رکھ سکتے تھے ۔
اس بارے میں کہ ” سیرو افیھا “ ... ” (ان آبادیوں میں چلو پھرو ) کاجملہ کس شخص کے ذریعہ انہیں پہنچا یاگیا ، دو احتما ل موجود ہیں ، ایک تویہ ہے کہ یہ انہیں ان کے پیغمبروں کے ذریعہ پہنچا یاگیا ، اور دوسرے یہ کہ اس آباد سرزمین اورامن وامان والی سٹرکوں کی زبان ِ حال یہی تھی ۔
” لیا لی “ (راتوں ) کو ” ایام “ (دنوں ) پرمقدم رکھنا ، ممکن ہے کہ اس وجہ سے ہو ، کہ راتوں میں امن و امان کاہونا زیادہ اہم ہے ، راستے کے چوروں سے امنیت کے لحاظ سے بھی اور جنگل کے وحشی درندوں کے لحاظ سے بھی ، ورنہ دن کے امن وامان کوقائم رکھنا زیادہ آسان ہے ۔
لیکن یہ ناشکر ے لوگ ، خداکی ان عظیم نعمتوں کے مقابلہ میں کہ جنہوں نے ان کی زندگی کومکمل طو ر پرگھیر رکھاتھا ، بہت سی دوسری متنعم قوموں کی طرح ، غرور غفلت میں گرفتار ہوگئے ، نعمت کی مستی اور کم ظرفی نے انہیں اس بات پرا بھار ا ، کہ ناشکر ی کاراستہ اختیار کریں ، حق کے راستے سے منحرف ہوجائیں ، اور خدا کے احکام کی طرف سے بے پروا ہوجائیں ۔
ان کے مجنو نانہ تقاضوں میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں نے خدا سے یہ مطالبہ کیا ان کے سفروں کے درمیان فاصلہ ڈال دے ، ” انہوں نے کیا : پرور دگار ا ! ہمارے سفروں کے درمیان فاصلہ ڈال د “ تاکہ بے سہارافقیر لوگ امر اء کے دوش بدوش سفرنہ سکیں ! ( فَقالُوا رَبَّنا باعِدْ بَیْنَ اٴَسْفارِنا ) ۔
ان کی مراد یہ تھی کہ ان آباد بستیوں کے درمیان فاصلہ ہوجائے ، اور کچھ خشک بیابان پیدا ہو جائیں . اس کی وجہ یہ تھی کہ اغنیاء اور ثروت مند لوگ اس بات کے لیے تیارنہیں تھے کہ تھوڑی آمدنی والے لوگ بھی انہی کی طرح سفر کریں ، اور جہاں چاہیں بغیر کسی زادِ راہ اورتوشہ وسواری کے چلے جائیں ، گویا سفران کے لیے ایک اعزاز و افتخار اوران کی قدرت وثروت کی نشانی تھا ، اور یہ امتیاز و برتری ہمیشہ انہی کے لیے مخصوص رہنی چاہیئے ۔ 
اور یایہ بات تھی کہ راحت و آرام نے انہیں بے چین کررکھا تھا ، جیساکہ بنی اسرائیل ” من “ و ” سلوی “ ( دو آسمانی غذاؤں ) سے تنگ آگئے تھے ، اورخدا سے پیاز ،لہسن اور مسور کی دال کا تقاضا کرنے لگے تھے ۔
بعض نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ ” باعدبین اسفا رنا “ کاجملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے ، کہ وہ اس قدرآرام طلب ہوگئے تھے کہ وہ اب چرا گاہوں سے استفادہ کرنے ، یاتجارت وزراعت کے لیے سفر کرنے پر تیار نہیں تھے ، لہٰذا انہوں نے خداسے یہ مطالبہ اور تقاضاکیا کہ ہمیشہ وہ اپنے وطن میں ہی رہیں ، اورا ن کے سفروں میںزمانہ کے اعتبار سے بہت زیادہ فاصلہ ہوجائے ۔
لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ بہتر نظرآتی ہے ۔
بہرحال ”انہوں نے اپنے اس عمل سے اپنے او پر ظلم کیا “ ( وَ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَہُمْ) ۔ 
ہاں ! اگروہ سوچ رہے تھے ، کہ وہ دوسرو ں پر ظلم کررہے تھے تووہ غلطی پرتھے ، انہوں نے توایک ایسا خنجر اٹھایا ہوا تھا ہ جس سے وہ اپنے ہی سینہ کوزخمی کررہے تھے اوراس ساری آ گ کادھواں خود انہیں کی آنکھ میں گیا ۔
کس قدر عمدہ تعبیر ہے ، قرآن اس جملہ کے بعد ، کہ جوان کے درد ناک انجام کے بارے میں بیان کیاہے ، کہتا ہے : ” ہم نے انہیں ایسی سز ادی اوران کی زندگی کولپیٹ کررکھ دیا ، کہ : ” انہیں ہم نے دوسروں کے لیے داستان اور افسانہ بنادیا “ ( فَجَعَلْناہُمْ اٴَحادیثَ ) ۔
ہا ں ! ان کی تمام تر بارو نق زندگی اور درخشاں ووسیع تمدن میں سے زبانی قصوں ، دلوں کی یادوں اور تاریخوں کے صفحات پرچند سطروں کے سوا اور کچھ باقی نہ رہا : ” اور ہم نے انہیں بُری طرح سے حران و پریشان کردیا “ ( وَ مَزَّقْناہُمْ کُلَّ مُمَزَّق) ۔
ان کی سرزمین ایسی ویران ہوئی کہ اُن میںوہاں قیام کرنے کی طاقت نہ رہی . اور زندگی کوباقی رکھنے کے لیے وہ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ ان میں سے ہر گروہ کسی طرف کارُخ کرے اور خزاں کے پتوں کی طر ح ، کہ جو تند وتیز ہَوَا ؤں کے اندر اِدھر اُدھر مارے مارے پھر تے ہیں ، ہرایک کسی گوشہ میں جاگرے ، اس طرح سے کہ ان کی پریشانی ضرب المثل بن گئی ، کہ جب کبھی لوگ یہ کہنا چاہیئے کہ فلاں جمعیت سخت پراگند ہ اور تتر بتر ہوگئی تووہ کہاکرتے تھے کہ : ” تفرقوا یادی سبا “ ! (وہ قوم ِ سبا اوران کی نعمتوں کی طرح پراگندہ ہوگئے ہیں ) (۱) ۔
بعض مفسرین کے قول کے مطابق قبیلہٴ ”غسان “ شام کی طرف گیا اور ” اسد “ عمان کی طرف ، ”خزاعہ “ تہامہ کی طرف ، اور قبیلہ ٴ ” انمار “یثرب کی طرف (۲) ۔
اور آیت کے آخر میں فرماتا ہے : ” یقینا اس سر گزشت میںصبر اور شکر کرنے والوں کے لےے عبرت کی آیات اور نشانیاں ہیں “ ( إِنَّ فی ذلِکَ لَآیاتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ) ۔ 
” صابرین “ اور ” شاکرین “ ہی ان قصوں سے ، کیوں درسِ عبرت لے سکتے ہیں ؟ (خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ صبا ر اور شکور دونوں ہی مبالغہ کے صیغے ہیں اور تکرار اور تاکید کو بیان کرتے ہیں ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے صبرو استقامت کی بناء پر ہوا و ہوس کی سرکش سواری کو لگا م دیتے ہیں اور گناہوں کے مقابلہ میں ڈٹے رہتے ہیں ، او ر ا پنی شکرگزرای کی وجہ سے خدا کی اطاعت کے راستہ میں آماد ہ اور بیدار ہوتے ہیں ، اور اسی بنا ء پراچھی طرح سے عبرت حاصل کرتے ہیں ، لیکن وہ لوگ کہ جو ہَوَا و ہوس کے مرکب پرسوار ہوتے ہیں اور خدا ئی مواہب اور نعمتوں سے بے اعتنا ء ہوتے ہیں ، وہ ان ماجروں سے کیسے عبرت حاصل کرسکتے ہیں ؟
۱۔ یہ ضرب المثل دوصورتوں میں نقل ہوئی ہے : ” تفرقوا ایدی سبا “ و ” ایادی سبا “ پہلی صورت مین لشکر اوران کے افراد کی پراگند گی کی طرف اشارہ ہے ، اور دوسری صورت میں ان کے اموال و مکانات و موا ہب کی پراگندگی مراد ہے ، کیونکہ ایادی عام طو ر پر نعمتوں کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔
۲۔ ”تفسیر قرطبی “ و ”تفسیر ابوا لفتو ج رازی “ زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔