۴۔ حقیقی شکر گزار بہت کم ہیں
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ۱۲يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ۱۳فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ۱۴
اور ہم نے سلیمان علیھ السّلامکے ساتھ ہواؤں کو مسخر کردیا کہ ان کی صبح کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی اور شام کی رفتار بھی ایک ماہ کے برابر تھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا اور جنّات میں ایسے افراد بنادیئے جو خدا کی اجازت سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا ہم اسے آتش جہّنم کا مزہ چکھائیں گے. یہ جنات سلیمان کے لئے جو وہ چاہتے تھے بنادیتے تھے جیسے محرابیں, تصویریں اور حوضوں کے برابر پیالے اور بڑی بڑی زمین میں گڑی ہوئی دیگیں آل داؤد شکر ادا کرو اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں. پھر جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کردیا تو ان کی موت کی خبر بھی جنات کو کسی نے نہ بتائی سوائے دیمک کے جو ان کے عصا کو کھارہی تھی اور وہ خاک پر گرے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے.
اس سلسلے میں سب سے پہلے ” شکر “ کے لغوی بنیادی معنی کی طرف توجہ کرناضروری ہے ۔
” راغب “ مفردات میں کہتا ہے ” شکر “ نعمت کاتصور کرنا اوراس کااظہار کرناہی ہے ، بعض نے یہ کہاہے کہ اصل میں ” کشو“ بمعنی ” کشف “ ( اور اسی کی وزن پر ) تھا، اس کے بعد مقلوب ہو کر شکر ہوگیا ، اوراس کے بعد شکرکوتین شعبوں میں قسیم کیاہے (۱): ” دل کاشکر “ یعنی نعمت کے بار ے میں غور فکر کرنا ( ۲): ” زبان سے شکر “ یعنی منعم کی حمد وثنا کرنا( ۳) : ” تمام اعضاٴ کے ساتھ شکر “ یعنی نعمت کے لیے قدردانی کرنا اوراس کاجواب دینا ۔
او پر والی آیات میں ” اعملوا الداؤد شکرا ً “ کے جملہ کے ساتھ قرآن کی تعبیراس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ شکرکاتعلق زیادہ ترعمل “ کے ساتھ ہے اوراس کوانسان کے اعمال کے اندر دکھائی دینا چاہیئے . اور شاید اسی بنا ء پر قرآن نے واقعی اورحقیقی شکر گزاروں کی تعداد تھوڑی شمارکی ہے ۔
او پر والی آیات کے وعلاوہ سورہٴ ملک کی آیہ ۲۳ میں بڑی نعمتوں مثلا ً : کان آنکھ اوردل کی پیدا ئش کاذکر کرنے کے بعد مرزید کہتاہے کہ : ” قلیلا ً ماتشکرون “ ( تم اس کابہت کم شکرا دا کرتے ہو ) اور سورہ نمل کی آیہ ۳ ۷ مین یہ بیان ہوا ہے : ” ولکن اکثرھم لایشکرون “ ( ان میں سے اکثر شکر گزاری نہیں کرتے ) ایک طرف تویہ ہے ۔
اوردوسری طرف طرف اس نکتہ پرتوجہ کرتے ہوئے ... کہ خدا کی وہ نعمتیں کہ جنہوں نے انسان کے وجود کوسرسے پاؤں تک گھیر رکھاہے ، اس قدر زیادہ ہیں کہ جنہیں شمار ہی نہیں کیاجاسکتاہے ، جیساکہ قرآن کہتاہے : ” وان تعد و انعمة اللہ لاتحصوھا “ ( ابراہیم . ۳۴ ) یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ : تمام نعمتوں کے لیے شکر، اس کے واقعی مفہوم میں ، اس طور پر کہ تمام نعمتوں کوانہیں کا موں کے لیے کہ جن کے لیے وہ پیدا ہوئی ہیں ، بلا استثناء خداکی بندگی کی راہ میں استعمال کرے ... کیوں کم پایاجاتاہے ۔
دوسرے لفظوں میں ، اور بعض بزرگ مفسّرین کے قول کے مطابق ” شکر مطلق “ یہ ہے کہ انسان کسی قسم کی فراموشی کے بغیر ہمیشہ خدا کی یاد میں لگارہے ، اور کسی قسم کی معصیت اورنافرمانی کیے بغیر اسی کی راہ میں قدم اٹھائے اور ہر قسم کی روگردانی کے بغیر اس کے فرمان کی اطاعت کرے اور مسلمہ طو ر پر یہ اوصاف بہت کم لوگوں میںجمع ہوسکتے ہیں ،اور یہ جوبعض نے اصولی طو ر پر انہیں فحال خیال کیاہے ،بے نیاد ہے ، اوران مفاہیم اور عبود یت کے ان مراحل سے ان کی عدم آشنائی کی دلیل ہے ( 1) ۔
بعض اوقات یہ کہاجاتاہے کہ :پرودگار کے شکر کاحق ادا کرنا ایک لحاظ سے تو بہت ہی مشکل ہے کیونکہ جونہی انسان مقام ِ شکر میں داخل ہوتاہے اور یہ توفیق اسے نصیب ہوتی ہے .اور شکر گزاری کے وسائل اس کے اختیار میں قرار پاتے ہیں ،تویہ خود ایک نئی نعمت ہے ، کہ جوایک نئے شکر کی محتاج ہے ، اور یہ موضوع تسلسل کی صورت اختیار کرلے گا ، اور انسان جتنا زیادہ سے زیادہ اس کے شکر کے رستے میںسعی و کوشش کرے گا ، تو اور زیادہ نعمتوں کامشمو ل ہو تاچلاجائے گا کہ جن کاشکر ادا کرنے کی اس میں قدرت نہیں ہے ۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے ، کہ شکرالہٰی کاحق اداکرنے کے طریقوں میںسے ایک طریقہ اس کے شکر کوادا کرنے سے عجز کااظہار ہے ... حقیقتا اس راستہ میں قرار پاتے ہیں ۔
مندرجہ ذیل احادیث پرتوجہ کرنے سے اس بحث میںکافی روشنی پڑ سکتی ہے :
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے : ” کیاپرور دگار کے شکر کی کوئی حد ہے ، کہ اگر انسان اس حد تک پہنچ جائے تو وہ شاکرمحسوب ہوجائے گا “ ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اس نے وسوال کیا: کس طرح ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا :
یحمد اللہ علی کل نعمة علیہ فی اھل ومال ،وان کان فیما انعم علیہ فی مالہ حق اداہ ۔
” خدا کی تمام نعمتوں پر ، چاہے وہ گھر والوں سے متعلق ہوں یامال سے تعلق رکھتی ہوں ، حمد وثنا کرے ، اور اس مال میں کہ جواسے دیاگیاہے کوئی حق ہو تواسے ادا کرے ( 2) ۔
ایک اورحدیث میں انہی امام سے منقول ہے کہ :
” نعمت کاشکر گناہ سے پرہیز کرنا ہے “ (3) ۔
تیز ایک دوسری حدیث میں نہیں حضرت سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا :
فیما اوحی اللہ عذ وجل الی موسی : یاموسٰی ! شکرنی حق شکری ، فقال یارب ! وکیف اشکرک حق شکر ک ولیس من شکر اشکرک بہ الاوانت انعمت بہ علی ؟ قال یاموسٰی ! الان شکرتنی حین علمت ان ذالک منی !
” خدا وند تعالی نے موسی کووحی کی . اے موسٰی ! میرے شُکر کاحق اداکر ، موسٰی نے عرض کیا: میں تیرے شکر کاحق کیسے بجالاؤں جبکہ حال یہ ہے کہ میں جو شکر بھی تیراا داکرتاہوں ، اس کی وجہ سے تونے ایک اور نئی نعمت عطاکی ہے ، فرمایا: اے موسٰی ! اب تونے میراشکر ادا کردیاہے ، چونکہ تونے یہ جان لیا ہے کہ شکر ادا کرنے کی یہ توفیق بھی میری ہی طرف سے ہے “ ( 4) ۔
اس نکتہ پرتوجہ بھی ضروری ہے کہ اُن لوگوں کاشکر ادا کرنا اورقدردانی کرنابھی کہ جوانسان کے لیے کسی نعمت کاوسیلہ اور ذریعہ ہیں ، شکر ِخدا کے شعبوں میںسے ایک ہے ، جیساکہ امام سجا د علی بن الحسین علیہاالسلام فرماتے ہیں :
” جب قیامت کادن ہوگا توخدا اپنے بعض بندوں سے کہے گا ، کیاتونے فلاں شخص کاشکر یہ ادا کیاہے ، تو وہ عرض کرے گا ، میں تیراشکر بجالایاہوں ، خدا فرمائے گا ، چونکہ تُونے اس کاشکر یہ ادانہیں کیاہے ، لہذا تُو میر اشکر بھی بجانہیں لایا ، اس کے بعد آپ نے فرمایاکہ :
” اشکر کم اللہ اشکروکم اللناس “
” تم میں سے خداکی بارگاہ میں زیادہ شکر گزاروہ ہے کہ جولوگوں کے احسانات اورزحمتوں کازیادہ شکر اور قدردانی کرتاہے “ ۔
” شکر “ کی حقیقت کے بارے میں ، اور شکر کس طرح نعمت کی زیادتی اور کفرانِ نعمت کس طرح اس فناہونے کا سبب بنتاہے ، ہم نے دسویں جِلد سورہ ٴ ابراہیم کی آیہ ۷ کے ذیل میں تفصیلی بحث کی ہے ۔
1۔ تفسیر المیز، جلد ۴ ،ص ۳۸ ۔
2 ۔” اصول کافی “ جلد ” باب الشکر ” حدیث ۱۲ و حدیث ۱۰۔
3۔ ” اصول کافی “ جلد۲ ” باب الشکر “ حدیث ۱۲ وحدیث ۱۰ ۔15
4۔ ”اصولی کافی “” باب الشکر “ حدیث ۲۷ ۔