۳۔ قرآن اور موجودہ توات میں سلیمان (ع) کی تصویر
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ۱۲يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ۱۳فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ۱۴
اور ہم نے سلیمان علیھ السّلامکے ساتھ ہواؤں کو مسخر کردیا کہ ان کی صبح کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی اور شام کی رفتار بھی ایک ماہ کے برابر تھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا اور جنّات میں ایسے افراد بنادیئے جو خدا کی اجازت سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا ہم اسے آتش جہّنم کا مزہ چکھائیں گے. یہ جنات سلیمان کے لئے جو وہ چاہتے تھے بنادیتے تھے جیسے محرابیں, تصویریں اور حوضوں کے برابر پیالے اور بڑی بڑی زمین میں گڑی ہوئی دیگیں آل داؤد شکر ادا کرو اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں. پھر جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کردیا تو ان کی موت کی خبر بھی جنات کو کسی نے نہ بتائی سوائے دیمک کے جو ان کے عصا کو کھارہی تھی اور وہ خاک پر گرے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے.
اس حال میں قرآن سلیمان علیہ السلام کو ایک عظیم پیغمبر کہتا ہے ، ایسا پیغمبر کو جوعلم سے سرشار ا ور بہت زیادہ تقویٰ شمار تھا ، ایسا پیغمبرکہ جو عظیم حکومت و سلطنت کا حکمران ہونے کے باجو د ہرگز مقام و مال کااسیرنہ ہَوا اوران لوگوں سے کہ اسے فریب دینے کے لیے بہت سے گراں بہاہدایالائے تھے یہ کہا کہ : ” اتما دونن بمافما اتانی اللہ خیر ممااتا کم “ کیاتم میر ی مال کے ذریعہ مدد کرنا چاہتے ہو ، جوکچھ خدانے مجھے دیاہے وہ اُس سے برتر ہے کہ جو تمہیں دیاہے ” نمل . ۳۶ ) ۔
ایسا پیغمبر کہ جس کی ساری آرزو ئیں او ر تمنائیں یہ تھیں کہ وہ پرودگار کی نعمتوں کاشکر اداکرسکے ، ”قالَ رَبِّ اٴَوْزِعْنی اٴَنْ اٴَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتی اٴَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلی والِدَیَّ “ اس نے کہا : پروردگار ا میری مدد کر اور توفیق عطا فرماکہ میں تیری ان نعمتوں کاشکر ادا کرسکوں کہ جو تُو نے مجھے پراور میرے ماں باپ پرکی ہیں “ ( نمل . ۱۹ ) ۔
ایسا رہبر کوجو یہ تک بھی اجازت نہ دتیا تھا کہ کوئی شخص جان بوجھ کر ایک چیونٹی پر بھی ظلم کرے ، اسی لےے وادیٴ نمل میں ایک چیونٹوں نے یہ صد ا بلند کی تھی کہ : ” یا اٴَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَساکِنَکُمْ لا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمانُ وَ جُنُودُہُ وَ ہُمْ لا یَشْعُرُونَ“ اے چیونٹیوں ! اپنے بلوں میں گھس جاؤ ، کہیں سلیمان اوراس کالشکر تمہیں بے خبر ی میں روند نہ ڈالے “ نمل . ۱۸) ۔
وہ ایسا عبادت گزار تھا کہ اگر کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی دنیا میں مشغول ہو کر ذکر ِ خدا سے غافل ہوجاتا تو فوراً اس کی تلافی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا اور کہتا کہ : ” انی اجبت حب الخیر عن ذکر ربی “ ” افسوس کہ اچھی چیزوں سے تعلق نے مجھے ایک لمحہ کے یے خدا کی یاد سے اپنی طرف مشغول رکھا “ ( ص . ۳۲) ۔
وہ ایساحکیم و دانا تھا جوقدرت رکھنے کے باوجود منطق ودلیل کے سوا بات نہیں کرتاتھا ، یہاں تک کہ ایک پرندے کے ساتھ بھی ... جیسا کہ ہُد ہُد کے ساتھ بات کرنے میں ... حق وعدالت کوہاتھ سے نہ دیتا تھا ۔
وہ ایسا حاکم تھا کہ جس کامعاون وزیر بھی ” علم کتاب “ سے اتنا سرشار تھا کہ وہ ایک ہی لمحہ میںبلقیس کے تخت کوحاضر کر سکتاتھا ۔
اور قرآن اس کی ” اوا ب “ ( خدا کی طرف سے زیادہ سے زیادہ باز گشت کرنے والا ) ... اور ” نعم العبد “ ( بہت ہی اچھا بند ) جیسے اوصاف کے ساتھ توصیف کرتاہے ۔
وہ شخص کہ خدانے ”حکومت “ اور ” علم “ جس کے اختیا ر میں دے دیاتھا اوراسے اپنی ہدایت کے ساتھ نواز اتھا ،اور جس نے اپنی ساری عمر میں ایک لمحہ کے لیے بھی خداکے ساتھ شرک نہ کیاتھا ۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ، آئے دیکھیں ! کہ موجودہ تحریف شدہ تورات اس بزرگ پیغمبرکے پاک دامن کوکس طرح شرک اور دوسری آلائشوں کے ساتھ آلودہ کررہی ہے ۔
تورات نے بتکدے بنا نے ، بُت پرستی کو رواج دینے ، عورتوں سے بے حساب عشق رکھنے اوران کے عشق وعاشقی کی بہت ہی بد نام کرنے والی داستانوں میں ملوث کرنے کے سلسلے میں بہت ہی بد ترین نسبتیں ان کے لیے بیان کی ہیں ، ان کونقل کرنے سے شرم آتی ہے ، ہم ایک حصّہ کوجو نسبتا ً ملائم اور نرم نظرآتاہے اس جگہ بیان کرنے پر قناعت کرتے ہیں ۔
کتاب اوّل ملوک و پاد شادہان میں اس طرح لکھا ہے :
او ر سلیمان باد شاہ فرعون کی بیٹی کے علاوہ ” موآبیوں “ ” عمونیوں “ ،” ادومیوں “ ، ” صیدونیوں “ اور ” حتیوں “ میں سے بہت سی بیگانہ ،اجنبی اور غیر عورتوں سے محبت کیاکرتاتھا ، ( یہ عورتیں ) ان امتوں سے تعلق رکھتی تھیں کہ جن کے بارے میں خدا بنی اسرائیل کو یہ حکم دتھا کہ ان میں داخل نہ ہونا ( اور ان سے شادی بیا ہ نہ کرنا ) اور وہ تم میں داخل نہ ہوں ، کیونکہ وہ تمہارے دلوں کو اپنے خداؤں کی طرف مائل کردیں گی ، اور سلیمان ان سے عشق و محبت کرتے ہوئے چمٹ گیا ۔
اوراس کے لیے سات بیویاں ( عقددائمی والی ) اور تین سو متعہ والی ( موقت ) تھیں ، اور انہوں نے سلیمان کے دل کوپھیرلیاتھا ، اور سلیمان کے بڑھا پے کے وقت واقع ہوا ، کہ اس کی بیویوں نے ان کادل اپنے عجیب وغریب خداؤں کی طرف موڑ لیا ، اوراس کادل اس کے باپ دادٴو کی طرح اپےنے خدا کے ساتھ کامل نہ تھا ، اور سلیمان ” صیدونیوں “ کے خدا ” عشتروں اور عمونیوں “ کے مکروہ ” ملکوم “ ( عمونیوں کے بت ) کے پیچھے لگ گیا ، اورسلیمان نے خدا کی نگاہ میں بری کی اور اپنے باپ داؤد کی طرح مکمل طو رپرخداکی راہ پر نہ چلا۔
اس وقت سلیمان نے اس پہاڑ پر کہ جو ” یرو شلم “ کے سامنے تھا، عمون کی مکروہ اولاد ” کموش “ کے لیے خصوصیت کے ساتھ ایک بلند مقام بنایا ،پس خدا سلیمان پرغضبناک ہَوا ، کیونکہ اس نے اسرائیل کے خدا سے کہ جواس کو دومرتبہ دکھائی دیاتھا ، اپنا دل پھیر لیاتھا ... اورخدا نے سلیمان سے کہا کہ چونکہ تجھے سے یہ عمل صادر ہوگیاہے ، اور میر ے عہد اورا ن فرائض کی ،جن کے بجالانے کامیں نے تجھے حکم دیاتھا ، تُونے تعمیل نہیں کی ، اس لیے میں تیری سلطنت تجھ سے چھین کرتیرے غلام کو دے دو ں گا زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ میں تیری زندگی مین ایسانہ کروں گا ، تیرے باپ داؤد کے سبب سے ،اور تیرے بیٹے کے ہاتھ سے اُسے لوں گا ...البتہ اس کے ہاتھ (سلیمان ) سے تما م سلطنت نہیں لوں گا ،بلکہ اپنے بند ے داؤد کالحاظ کرتے ہوئے کہ جسے میں نے اس لیے برگزیدہ بنا یاتھا کہ اس نے میرے او ا مرو فرائض کی حفاظت کی تھی ، اس کواس کی ز ندگی کے تمام دنوں میں بادشاہ رہنے کادوں گا ( 1 ) ۔
تورات کی اس ساری جھوٹی داستان سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ :
۱ ۔ سلیمان علیہ السلام بُت پرست قبیلوں کی عورتوں سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے تھے ،اورخدا کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے ان میں سے بہت زیادہ تعداد میں ( عورتیں ) رکھی ہوئی تھیں ا،اور وہ آہستہ آہستہ انہی کے مذہب کی طرف مائل ہوگیاتھا ، اور باوجود اس کے کہ ” وہ ایسا شخص نہیں ھا کہ جس نے عورتوں کونہ دیکھا “ بلکہ ۷۰۰ عورتیں عقد دائم والی اور۳۰۰ عورتیں متعہ والی اس کے پاس تھیں ، عور توں کے ساتھ شدید لگاؤ نے انہیں راہِ خدا سے باہر نکال دیا تھا .( نعوذ باللہ ) ۔
۲۔ سلیمان علیہ السلام نے کھلم کھلابت خانہ تعمیر کرنے کاحکم دیااور اس پہاڑ کے اوپر کہ جواسرائیل کے مقدس مرکز ” یروشلم “ کے سامنے واقع تھا ، ایک بت کدہ . قبیلہ ٴ ” موآبیان “ کے معروف بہت ” کموش “ کے لیے اور قبیلہ ” بنی عمون “ کے خاص بت ” مولک “ کے لیے ... تعمیر کرایا ، اور” صیدونیوں “ کے بت عشترون کے ساتھ بھی خاص لگا ؤ پیدا کرلیاتھا ، اور یہ سب باتیں بڑھا پے کی حالت میں واق ع ہوئیں ۔
۳۔ خدانے اس انحراف اور بڑے گناہ کی وجہ سے اس کے لیے ایک سزا تجویز کی ، اور وہ سزا یہ تھی کہ اس کاملک اس سے چھین لے گا ، لیکن خود اس کے ہاتھ سے نہیں ، بلکہ اس کے بیٹے ” رحبعام “ کے ہاتھ ( چھینے گا ) اورخود اس کو مہلت دے گا ، وہ جتنا چاہے ، حکومت کرے ،اوریہ بات بھی خدا کے خاص بندے داؤد ... سلیمان کے باپ ... کی وجہ سے تھی ،خدا کاوہی خاص بندہ کہ جو تورات کی تصریح کے مطابق ( العیاذباللہ ) قتل ِ نفس اور زنا ئے محصنہ اور اپنے رشید اورخدمت گزار افسرکی بیوی کے ساتھ صحبت کرنے کامرتکب ہواتھا، کیا کوئی بھی شخص اس قسم کی ناروا تہمتیں سلیمان جیسے آدمی کی مقدس ذات پر لگا سکتا ہے ۔
اگر ہم سلمان علیہ السلام کو ... جیساکہ قرآن کہتاہے ... پیغمبرسمجھیں ،تو پھر تو بات بالکل صاف اور واضح ہے ، اور اگرہم انہیں بنی اسرائیل کے بادشاہوں کے سلسلے میں سے جانیں ، تو پھر بھی اس قسم کی تہمتیں اور نسبتیں ان کے بارے میں صادق نہیں آسکتیں ۔
کیونکہ اگر ہم اس کو پیغمبرنہ بھی سمجھیں تو پھر بھی مسلمہ طو ر پر وہ پیغمبرکے بعد ان کاقائمقام نائب و جانشین تو تھا ، کیونکہ عہدِقدیم کی کتب میں سے دو کتابیں ، ایک ” مواعظ سلیمان “ یا ”حکمتہائے سلیمان “ اور دوسری ” سرودِ سلیمان “ کے نام سے ،اس بزرگ مردِ خدا کے اقوام و فرامین پرمشتمل ہیں ۔
واقعا یہودی اورعیسا ئی کہ جو موجودہ تورات پرایمان رکھتے ہیں ، ان سوالات کاکیا جواب رکھتے ہیں ؟ اوران رسوائیوں کوکیسے قبول کرتے ہیں ۔
1۔ تورات کتاب اول ، ملوک و پاد شاہان ، فصل یازدہم جملہ ۱ تا ۳۴ ۔