Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2۔ سلیمان ( ع) کی موت ایک مدت تک کیوں پوشدہ رہی ؟

										
																									
								

Ayat No : 12-14

: سبأ

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ۱۲يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ۱۳فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ۱۴

Translation

اور ہم نے سلیمان علیھ السّلامکے ساتھ ہواؤں کو مسخر کردیا کہ ان کی صبح کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی اور شام کی رفتار بھی ایک ماہ کے برابر تھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا اور جنّات میں ایسے افراد بنادیئے جو خدا کی اجازت سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا ہم اسے آتش جہّنم کا مزہ چکھائیں گے. یہ جنات سلیمان کے لئے جو وہ چاہتے تھے بنادیتے تھے جیسے محرابیں, تصویریں اور حوضوں کے برابر پیالے اور بڑی بڑی زمین میں گڑی ہوئی دیگیں آل داؤد شکر ادا کرو اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں. پھر جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کردیا تو ان کی موت کی خبر بھی جنات کو کسی نے نہ بتائی سوائے دیمک کے جو ان کے عصا کو کھارہی تھی اور وہ خاک پر گرے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے.

Tafseer

									یہ بات کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت ان کے کارکنان حکومت پر کتنی مدت تک مخفی رہی ،صحیح طور پرواضح نہیں ہے ، ایک سال ؟ ایک ماہ ؟ یاچند روز ۔
مفسرین کااس سلسلہ میں ایک نظریہ نہیں ہے ۔
کیایہ اخفا اور کتمان ان کے اصحاب اور ارکان سلطنت کی جانب سے صورت پذیر ہوا تھا ؟ کیا انہوں نے جانتے بوجھتے اس غرض سے کہ کہیں امورِ سلطنت کارشتہ وقتی طور پر بکھر نہ جائے ، ان کی موت کو پوشیدہ رکھا ؟ 
یا یہ کہ اصحاب وارکان سلطنت بھی اس امر سے آگاہی نہیں رکھتے تھے ۔
یہ بات بہت ہی بعید نظر آتی ہے کہ ایک طولانی مدت تک ، یہاں تک کہ ایک دن سے زیادہ ہی سہی ، ان کے اطراقبان ، ( گرد وپیش رہنے والے اصحاب وارکان ِ سلطنت ) بھی آگاہ نہ ہوں ، کیونکہ یہ بات تومسلّم ہے ، کہ کچھ لوگ ان کاکھانا لے جانے پرمامورتھے اوران تک دوسری ضروریات پہنچاتے تھے ، تووہ تواس واقعہ سے ضرو ر آغاہ ہوجاتے ، اس بنا پر بعید نہیں ہے ... جیساکہ بعض مفسرین نے کہاہے کہ وہ اس امر سے آگاہ تھے ، لیکن اسے کچھ مصلحتوں کی بناپر مخفی رکھا، اسی لیے بعض روایات میں آیا ہے کہ اس مدت مین ” آصف بن برخیا“ ان کے وزیر ِ خاص ملک کے امور کی تدبیر کرتے اور نظم و نسق چلاتے رہے ۔
کیاسلیمان علیہ السلام کھڑے ہوئے عصاکے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے یا بیٹھے ہوئے اپنے ہاتھ عصا پررکھے ہوئے تھے ، اور سرکوہاتھوں پر ٹکا ئے ہوئے تھے اور اسی حالت میں ان کی روح قبض ہوگئی اوروہ ایک مدت تک اسی طرح رہے ؟ اس سلسلے میں مختلف احتمالات ہیں ، اگرچہ آخری احتمال زیادہ نزدیک نظر آتاہے ۔
اگر یہ دمد طولانی تھی تو کیاغذا کانہ کھانا اورپانی کانہ پینا دیکھنے والوں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا تھا ۔
چونکہ سلیمان علیہ السلام کے تمام کام عجیب وغریب تھے لہذاوہ شاید اس مسئلہ کوبھی عجیب و غریب شمار کرتے تھے ، یہں ک کہ ایک روایت میں یہ بیان کیاگیاہے کہ آہستہ آہستہ ایک گروہ کے درمیان یہ زمز مہ پیدا ہو ا کہ سلیمان علیہ السلام کی پرستش کرنا چاہیئے ، کیاایسا نہیں ہے کہ وہ ایک عرصہ سے ایک ہی جگہ پر ثابت وبرقرار ہے ؟ نہ تووہ سوتاہے ، نہ کھا ناکھاتا ہے اور نہ پانی پیتاہے ( 1) ۔
لیکن جس وقت عصاٹوٹا او رسلیمان علیہ السلام نیچے گرے ، تویہ تمام رشتے ایک دوسرے سے ٹوٹ گئے ، اوران کے خیالات نقش برآب ہوگئے ۔ 
لیکن بہرحال جوکچھ بھی تھا سلیمان علیہ السلام کی موت کے اظہار میں اس تاخیر نے بہت سی چیزوں کوفاش کردیا : 
۱۔ سب پرواضح وروشن ہوگیاکہ اگر انسان قدرت و طاقت کی بلندی تک بھی پہنچ جائے تو پھر بھی حادثات کے مقابلہ میں ایک ضعیف و کمزور وجود ہے ، اورایک پرکاہ کی مانند ہے کہ جو طوفان کے راستہ میں ہر طرف اُڑ تارہتاہے ۔ 
امیرالمومنین علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں : 
فلو ان احدً ایجدالی البقا ء سلما ً او ر لد فع الموت سبیلاً لکان ذالک سلیمان ابن داؤد (ع) الذی سخر لہ ملک الجن والانس مع النبوة وعظیم ولزلفة ۔ 
اگر کوئی شخص اس جہان میںعالمِ بقا کی طرف کوئی سیڑھی پاتا ، یااپنے آپ سے موت کودُور کرسکتا ،تو و ہ سلیمان علیہ السلام تھے ، کہ جن کے لیے نبّوت و مقام ِ بلند کے ساتھ ساتھ جِنّوں اورانسانوں پرحکومتب بھی فراہم تھی ( 2) ۔ 
۲۔ سب لوگوں پر یہ حقیقت واضح و روشن ہوگی کہ جِنّوں کو غیب کاعلم نہیں ہے ، اور نادان و بے خبر انسان کہ جو ان کی پرستش کرتے تھے ، انتہائی خطا اورغلطی پرتھے ۔
۳۔ تمام لوگوں کے سامنے یہ حقیقت کھل کرسامنے آگئی کہ کس طرح کس ملک کانظام او ر شیر ازہ ایک چھوٹے سے موضوع کے ساتھ وابستگی پیدا کرلے تواس کے وجود کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے اور اس کے گرِجانے سے گرِجاتا ہے ، اوران امور کے پیچھے پروردگار کی بے انتہائی قدرت جلوہ گر ہے ۔
1۔ تفسیر برہان ، جلد ۳ ، ص ۳۴۵ ۔
2۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۸۲ ۔