۱۔ سلیمان کی عبرت انگیز زندگی کامنظر
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ۱۲يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ۱۳فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ۱۴
اور ہم نے سلیمان علیھ السّلامکے ساتھ ہواؤں کو مسخر کردیا کہ ان کی صبح کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی اور شام کی رفتار بھی ایک ماہ کے برابر تھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا اور جنّات میں ایسے افراد بنادیئے جو خدا کی اجازت سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا ہم اسے آتش جہّنم کا مزہ چکھائیں گے. یہ جنات سلیمان کے لئے جو وہ چاہتے تھے بنادیتے تھے جیسے محرابیں, تصویریں اور حوضوں کے برابر پیالے اور بڑی بڑی زمین میں گڑی ہوئی دیگیں آل داؤد شکر ادا کرو اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں. پھر جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کردیا تو ان کی موت کی خبر بھی جنات کو کسی نے نہ بتائی سوائے دیمک کے جو ان کے عصا کو کھارہی تھی اور وہ خاک پر گرے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے.
قرآن مجید ... موجودہ توارت کے برخلاف کہ جو سلیمان علیہ السلام کو ایک جبار ،بت خانہ سازاور عورتوں کی ہوس میں مبتلا بادشاہ کے طور پر متعارف کراتی ہے ( 1) سلیمان علیہ السلام کو خدا ایک عظیم پیغمبر شمار کرتاہے ، اوا نہیں قدرت اور بے نظیر حکومت کے نمونہ کے طور پر پیش کرتا ہے ، اور سلیمان علیہ السلام سے مربوط مباحث کے دوران بہت ہی عظیم درس انسانوں کودیتاہے ، کہ ان داستانوں کے ذکر کرنے کااصل مقصدوہی ہیں ۔
ہم نے او پر والی آیات میںپڑ ھاہے کہ خدانے اس بزرگ پیغمبرکوبہت ہی عظیم نعمتیں عطا فرمائی تھیں ۔
بہت ہی سر یع اورتیز رو سواری کہ جس کے ذریعے وہ مختصر سی مدت میں اپنے سارے ملک کی سیر کرسکتے تھے ۔
مختلف صنعتوں کے لیے فراواں معدنی مواد ۔
اس معدنی مواد کواستعمال کرنے کے لیے کافی فعال قوت ۔
انہوں نے ان وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے عبادت خانے بنائے اور لوگوں کو عبادت کی طرف ترغیب دی ، علاوہ ازیں حکومت کی فوجوں ، کا رکنوں اور کمزور لوگوں کے طبقات کی پذیرائی کے لیے وسیع وعریض پرو گرام منظم کیا، کہ جس کے برتنوں کے نمونہ سے ... کہ جو او پر والی آیات میں بیان ہوا ہے ... باقی چیزوں کااندازہ لگا یاجاسکتاہے ۔
ان تمام نعمتوں کے مقابلہ میں انہیں شکر گزاری کاحکم دیا، اس مطلب پرتاکید کرتے ہوئے کہ خدا کی نعمتوں کے شکر کاحق بہت ہی کم لوگ ادا کرسکتے ہیں ۔
اس کے بعد یہ واضح و روشن کیاکہ ایک شخص اس قدرت و عظمت کے باوجود موت کے مقابلہ میں کتنا کمزور اور ناتواں تھا ، کہ وہ ایک ہی لمحہ میں ناگہانی موت کے ذریعہ دنیا سے چل بسا ، اس طرح سے کہ اجل نے اسے بیٹھنے یابستر پر لیٹنے تک کی مہلت بھی نہ دی ، تاکہ مغرور سر کشی کرنے والے یہ گمان نہ کرلیں کہ اگروہ کسی مقام پر پہنچ جائیں اور قدر ت و قوت حاصل کرلیں تواقعی طو رپر وہ تو انا ہوگئے ہیں ، وہ جس کے سامنے جِنّ اورانسان ، شیطان و پر ی خدمت میں لگے ہوئے تھے ،اور زمین و آسمان جس کی جو لانگاہ تھے ، اورجس کی حشمت اور شان و شوکت میں جو بھی شک کرے اس کی عقل و فکر پر مرغ و ماہی قہقہ لگائیں ، ایک مختصر سے لمحہ میں سمندر کی موجوں پر ابھر نے والے بلبلے کی طرح محود نابود ہوگیا ۔
اور یہ بھی واضح وروشن کردے کہ ایک ناچیز عصا اُسے ایک مدت تک کس طر ح اٹھا ئے رہا اور ” جِنّ “ اُسے کھڑا ہو یابیٹھے ہوئے دیکھتے رہنے کی وجہ سے کیسے سرگرمی کے ساتھ اپنے کاموں میںمشغول رہے ؟
اور یہ بھی ( دکھا دے ) کہ دیمک نے انہیں کس طرح زمین پر گرایااوران کے ملک کے تمام رشتوں کوتوٹ کے رکھ دیا . ہاں ! ایک عصاہی اُس وسیع و عریض ملک کی فعال قوت کوبرو ئے کار لائے ہوئے تھا اور چھوٹی سی دیمک نے اس کوحرکت سے روک دیا ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ بعض رویات میں آیاہے کہ اس دن سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک خوبصورت اور خوش پوش جوا ن قصر کے ایک کونہ سے باہر آیااوران کی طرف بڑھا ، سلیمان علیہ السلام نے تعجب کیا،کہا : توکون ہے ؟ اورکس کی اجازت سے یہاں آیاہے ؟ میں نے تو یہ حکم دیاہُوا تھا کہ آج کوئی شخص یہاں نہ آنے پائے ۔
اس نے جواب دیا: میں وہ ہوں کہ نہ با د شاہوں سے ڈرتا ہوں اور نہ کسی سے رشوت لیتاہوں سلیمان علیہ السلام نے بہت ہی تعجب کیا لیکن اُس نے مہلت نہ دی اورکہا میں موت کافرشتہ ہوں ، میں اس لیے آیاہو ں تاکہ میںآپ کی روح قبض کروں ! یہ کہتے ہی فور اً ان کی روح قبض کرلی ( 2) ۔
اس بات کاذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بہت سے انبیا ء کی داستانوں کی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی داستان میںبھی افسوسناک حدتک گھڑی ہوئی روایات شامل کردی گئی ہیں ، اوران کے ساتھ بہت سی خرافات منسوب کردی گئی ہیں ، کہ جنہوں نے اس عظیم پیغمبر کے چہر ے کوبدل دیاہے ، اوران خرافاتکازیادہ حصّہ موجودہ تورات سے لیاگیا ہے ، اور اگرہم صرف اسی پرقناعت کرلیں کہ جو قرآن نے کہا ہے ، تو پھر کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ۔
1۔ تورات کتاب اوّل ملوک و پاد شاہان ۔
2۔ تفسیر باہان ، جلد ۳ ، ص ۳۴۵ علل الشراؤ مطابق نقل المیزان جلد ۶ ،ص ۳۹۱ ۔