Tafseer e Namoona

Topic

											

									  سلیمان کاجاوہ جلال اوران کی عبرت انگیز موت

										
																									
								

Ayat No : 12-14

: سبأ

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ۱۲يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ۱۳فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ۱۴

Translation

اور ہم نے سلیمان علیھ السّلامکے ساتھ ہواؤں کو مسخر کردیا کہ ان کی صبح کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی اور شام کی رفتار بھی ایک ماہ کے برابر تھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا اور جنّات میں ایسے افراد بنادیئے جو خدا کی اجازت سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا ہم اسے آتش جہّنم کا مزہ چکھائیں گے. یہ جنات سلیمان کے لئے جو وہ چاہتے تھے بنادیتے تھے جیسے محرابیں, تصویریں اور حوضوں کے برابر پیالے اور بڑی بڑی زمین میں گڑی ہوئی دیگیں آل داؤد شکر ادا کرو اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں. پھر جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کردیا تو ان کی موت کی خبر بھی جنات کو کسی نے نہ بتائی سوائے دیمک کے جو ان کے عصا کو کھارہی تھی اور وہ خاک پر گرے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے.

Tafseer

									ان مواہب کی بحث کے بعد کہ جو خدانے داؤد علیہ السلام کو دئیے تھے ، ان کے بیٹھے سلیمان علیہ السلام کاذکر شروع کیاہے . داؤد علیہ السلام کے بارے میں تو دو نعمتوں کابیان کیاتھا ، لیکن ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کے بارے میں تین عظیم نعمتوں کے متعلق بحث کرتاہے ،فرماتا ہے : ” ہم نے سلیمان کے لےے ہَوَ کومسخر کردیاتھا ، جو صبح کے وقت بھی ایک ماہ کی رہ طے کرتی تھی اور عصر کے وقت بھی ایک ماہ کی راہ چلتی تھی “ (وَ لِسُلَیْمانَ الرِّیحَ غُدُوُّہا شَہْرٌ وَ رَواحُہا شَہْرٌ ) (۱)۔ 
یہ بات قابل تو جہ ِ ہے کہ باپ کے لیے توسخت اورحد سے زیادہ محکم جسم یعنی لوہے کو مسخر کرتاہے اور بیٹے کے لیے بہت ہی لطیف موجود کومسخر کیاہے ،لیکن دونوں کا م اصلاح اور معجزہ نماہیں ، اور مفیدہیں ، سخت جسم کو توداؤد علیہ السلام کے لیے نرم کرتاہے ، اور ہَوَا کی لطیف نرم اموا ج کو سلیمان علیہ السلام کے لیے فعال اورمحکم ۔ہَوَ ا کی لطافت ہرگز اس مانع نہیں ہے کہ وہ اہم افعال کوا نجام دے ، یہ ہَوَا ئیں ہی تو ہوتی ہیں کہ جو بڑے بڑے بحری جہازوں کوسمندر وں کی سطح پر چلاتی ہیں اور چکّی کے بھاری اور سنگین پتھر وں کوچکر دیتی ہیں اور بڑے بڑے پیکروں کو آسمان کی بلندی پر ہو آئی ، جہازوں کی شکل میں چلاتی ہیں ۔ 
ہاں ! خدانے اس لطیف جسم کواس حیران کن قدرت و طاقت کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اختیار میں دے دیاتھا ۔
یہ بات کہ ہَوَا سلیمان علیہ السلام کی دستگاہ( اس کے تخت یافرش کو ) کس طرح چلاتی تھی ، ہمارے لیے واضح نہیں ہے ، ہم توصرف اتنا ہی جاتنے ہیں کہ کوئی چیز خدا کی قدر ت کے مقابلہ میں مشکل او ر پیچیدہ نہیں ہے ،جہاں انسان اپنی چیزقدرت کے ساتھ غباروں (یعنی ان حفاظتی چیزوں کوکہ جن میں ہلکی گیسیں بھر دیاکر تے تھے اور وہ آسمان کی طرف پر وازکرجاتے تھے اوربعض اوقات کچھ آدمیوں کوبھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے ) اورموجودہ زمانے میں دیو ہیکل بڑ ے بڑے ہوائی جہاز سینکڑوں ،مسافروں اور زیادہ سے زیادہ وسائل اورسازوسامان کے ساتھ آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرتے ہیں ،تو خدا کے لیے سلیمان علیہ السلام کی بساط کو ہَوَا کے ذریعہ چلانا کیسے مشکل ہو سکتاہے ؟ 
وہ کون سے عوامل تھے کہ جو سلیمان علیہ السلام اوران کی بساط و مسند کوگرنے ، ہَوَ ا کے دباؤ اور آسمانی حرکت سے پیدا ہونے والی دوسری مشکلات سے حفاظت کرتے تھے ؟ ! یہ بات بھی ایسے مسائل میں سے ہے کہ جن کی جزائیات ہمارے لیے واضح نہیں ہیں ، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ انبیا ء کی تاریخ میں اس قسم کی خارق عادت چیزیں بہت تھیں ، اگر چہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ نادان لوگوں یا دانا دشمنوں نے ان میں خرافات کی آمیز ش کردی ہے ، جس کے باعث ان مسائل کااصلی چہرہ دگر گوں اور بد نما ہوگیاہے ، اورہم اسلسلہ میںصرف اتنی ہی مقدار پر کہ جتنا قرآن نے اشارہ کیاہے ، قناعت کرتے ہیں (۲) ۔
”غدو “ (بروزن علو ) طرفِ صبح کے معنی میں ہے ” رواح “ کے مقابلے میں کہ جوغروب کی طرف کوکہتے ہیں ، کہ جس وقت جانور آرام کرنے کے لیے اپنی جگہ کی طرف لوٹتے ہیں ، لیکن قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ ،زیربحث آیت میں” غدو “ دن کے پہےل آدھے حصّے کے معنی میں ہے ، اور ’ ’ رواح “ دن کے دوسرے آدھے حصّہ کے معنی میں ، اور آیہ کا مفہوم یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام صبح سے ظہر تک اس راہوار مرکب پر اس زمانہ کے مسافروں کے ایک مہینہ کے سفر کی مقدار کے برابر سفر کرتے تھے اوردن کے دوسرے آدھے حصّہ میں بھی اسی مقدار میں راستہ چلتے تھے ۔
اس کے بعد سلیمان علیہ السلام کے لیے خدا کی دوسری نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے کہ : ” اورہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تابنے کاچشمہ جاری کیا “ ( وَ اٴَسَلْنا لَہُ عَیْنَ الْقِطْرِ ) ۔
” اسلنا “ ”سیلان “ کے مادہ سے جاری کرنے کے معنی میں ہے ، اور ” قطر “ تانبے کے معنی میں ہے ، اور مراد یہ ہے کہ ہم نے اس دھات کو اس کے لیے پگھلادیا تھا اور وہ پانی کے چشمہ کی طرح بہنے لگا ۔
بعض ” قطر“ کودھا توں کی مختلف اقسام کے معنی میں ، یاکانسی کے معنی میں سمجھتے ہیں تو اس طر ح باپ کے لیے تولو ہانرم ہَوا ، اور بیٹے کے لیے دھاتیں پگھلادی گئیں ، ( لیکن مشہور وہی پہلامعنی ہی ہے ) ۔
پگھلے ہوئے تانیہ کا چشمہ یادوسری دھاتوں کو سلیمان علیہ السلام کے اختیار میں کس طرح دیاگیا ؟ کیاخدا نے اعجاز و الہا م کے ذریعہ اس پیغمبرکوان دھاتوں کو پگھلانے کا طریقہ انتہائی وسیع اندوزوں کے ساتھ سکھایاتھا ؟ 
یااس بہنے والی دھات کاچشمہ ، انہیں چشموں کی مانند کو جو آتش فشاں پہاڑوں کے فعال ہونے کے موقع پران ک ے دامن سے نیچے کی طرف بہتے ہیں ، اعجاز آمیز طریقہ سے ان کے اختیار میں قرار پایا ؟ یاکسی اور طریقہ سے ؟ یہ بات صحیح طو ر پر ہمارے لیے واضح نہیں ہے ، ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس عظیم پیغمبر کے بارے میں خدا کے الطاف میں سے ایک یہ تھا ۔
آخر میں سلیمان علیہ السلام کے لیے پروردگار کی تیسری موہبت جِنّون میں سے ایک بہت بڑے گروہ کے مسخر کیے جانے کو بیان کرتے ہوئے اس طرح کہتا ہے : ” اورخدا کے حکم سے جِنّوں کے گروہ اس کے سامنے اس کے لیے کام کیا کرتاتھا ” ( وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِإِذْنِ رَبِّہِ ) ۔
” اور جب ان میں سے کوئی ہمارے حکم سے سرتابی کرتاتھا تو ہم اسے جلا نے والی آگ کے ساتھ سزا دیتے تھے “ ( وَ مَنْ یَزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اٴَمْرِنا نُذِقْہُ مِنْ عَذابِ السَّعیرِ ) ۔
” جن ّ “ جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے ، ایک ایسا وجود ہے کہ جو جسّ سے پوشیدہ اورعقل و قدرت کاحامل ہے ، اور جیساکہ قرآنی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ وہ واجبات وافرائض ِ خدا وندی کا مکلف بھی ہے ۔
” جنّوں “ کے بارے میں لوگوں نے بہت سے بیہودہ افسانے او ر داستانیں گھڑرکھی ہیں ، لیکن اگر ہم ان خرافات کوترک کردیں م توان کااصل وجود اور مخصوص صفات ، جو قرآن میں جنّوں کے لیے بیان ہوئی ہیں ، ایک ایسے مطلب کاحامل ہے جوعلم وعقل سے قطعا ً بعید نہیں ہے ، اورہم انشاء اللہ سورہ جِنّ کی تفسیر میں اس موجوع کومزید تشریح وتفصیل کے ساتھ بیان کریں گے ۔
بہرحال اوپر والی آیت کی تعبیر سے معلوم ہوتاہے کہ اس عظیم طاقت کی تسخیر بھی پرور دگار کے فرمان سے ہی تھی ، اورجس وقت وہ اپنے وظائف اورذمہ داریوں سے سرتابی کرتے تھے تو انہیں سزا دی جاتی تھی ۔
مفسرین کی ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ یہاں ” عذاب السعیر “ سے مراد قیامت کے دن کی سزا ہے ،جبکہ آیت کے ظاہرسے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ مخالفت کرنے والوں کے لیے دنیا میں سزا ہے ،سورہ ص کی آیات سے بھی یہ بات اچھی طرح ثابت ہے کہ خدا نے شیا طین کاایک گروہ سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں دے رکھاتھا ، جو ان کے لیے اہم قسم کے تعمیر اتی کام سرانجام دیاکرتے تھے ،اور جس وقت وہ خلاف ورزی کرتے تھے توانہیں زبحیر وں میںجکڑ دیاجاتاتھا ! ” و الشیاطین کل بنّاء وغوّاض واخرین مقرنین فی الاصفاد “ ( ص آیات . ۳۶ . ۳۷ ) یہ بات قابل ِ تو جہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے ملک او ر سلطنت ایسی ، ایک وسیع وعریض سلطنت اور ملک کے نظام کو چلانے کے لیے بہت ہی زیادہ عوامل کی ضرورت ہے لیکن سب سے زیادہ اہم وہی تین عوامل ہیں جن کی طرف اوپر والی آیت میں اشارہ ہوا ہے ۔
پہلا ایک مستقل اورحادی تیز رفتار نقل وحمل کاوسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ زرئیس حکومت و مملکت اپنے ملک کے تمام اطراف وجوانب سے آگاہ ہو سکے ۔
دوسرے خام مال ، جو لوگوں کی زندگی کے ضروری آلات و اسباب بنانے اورمختلف صنعتون کے لیے کام آسکے ۔
اورآخری ،کام کرنے کی فعال قوت ، کہ جو اس خام مال سے کافی مقدار میں فائدہ اٹھاسکے ، اور انہیں جسبِ ضرورت اپنے کام میں لاسکے ، اوراس لحاظ سے ملک کی مختلف ضرورتوں کو پورا کرسکے ۔
اورہم دیکھتے ہیں کہ خدانے یہ تینوں باتیں سلیمان علیہ السلام کے اختیار میں دے دی تھیں ، اوروہ بھی فاہِ رفاعہ ،عام آبادی اورامن و امان کے لیے ان سے احسن طریقے سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔
یہ موضوع صرف سلیمان علیہ السلام کے زمانہ اوران کی حکومت کے ساتھ ہی مخصوص نہیںہے اور اس کی طرف توجہ کرنا ، آج بھی اورکل بھی ، یہاں بھی اور ہرجگہ ،تمام ملکوں کاصحیح طو ر پر انتظام چلانے کے لےے ضرور ی ہے ۔
بعد والی آیت میں جِنّوں کے اہم تولیدی کاموں کے ایک حصہ کی طرف . جووہ سلیمان علیہ السلام کے حکم سے انجام دیت تھے . اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے : 
” سلیمان جوکچھ بھی چاہتے تھے وہ ان کے لیے... عبادت خانوں ، تمثالوں ، حوض کے مانند بڑے بڑے کھانوں کے برتنوں ، اورزمین پرثابت (جمی ہوئی یاگڑی ہوئی ) دیگوں سے ... تیار کر کے دیتے تھے “ ( یَعْمَلُونَ لَہُ ما یَشاء ُ مِنْ مَحاریبَ وَ تَماثیلَ وَ جِفانٍ کَالْجَوابِ وَ قُدُورٍ راسِیاتٍ ) ۔
ان میں سے ایک حصہ تومعنوی اور عبادت کے مسائل سے مربوط تھا ، اورایک حصّہ انسانوں جسمانی ضرو ریات اوران کے عظیم لشکریوں اورکنوں کی جمعیت کے ساتھ تعلق رکھتاتھا ۔ 
” محاریب “ جمع ہے ” محراب “ کی کہ جو لغت مین ” عبادت گا ہ “ یا ” محلات “ اور ” بڑی بڑی عمارتوں “ کے معنی میں ہے ، کہ جو عبادت کی خاطر بنائی جاتی ہیں ۔
بعض اوقات صدر مجلس یاصدر مسجد ومعبد کے حصّہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتاہے ، وہ چیز جس سے آج محراب کہتے ہیں وہ امام جماعت کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ، درحقیقت ایک نئی تعبیر اورایک نیامعنی ہے جو اصل ماد ہ سے حاصل کیاگیاہے ۔
بہرحال چونکہ یہ لفظ ’ ’ حرب “ کے مادہ سے ، جنگ کے معنی میں ہے، لہذا عبادت خانوکو ”محراب “ کانام دینے کاسبب یہ سمجھا ہے کہ یہ شیطان او ر ہوائے نفس کے ساتھ ” محاربہ “ یعنی جنگ کرنے کی جگہ ہے ( ۳) ۔

یا”حرب “ اُس لباس کے معنی میں ہے کہ جو میدان ِ جنگ میں دشمن کے بدن سے اتار ا جاتاہے ، چونکہ انسان کو چاہیئے کہ وہ عبادت خانوں میں دنیو ی افکار اور دل کی پر اگندگی کی پوشاک کو اپنے او پر سے اتا ر دے ( ۴) ۔
بہرحال سلیمان علیہ السلام کے یہ فعال اور چابک دست کارندے ،بڑ ے بڑ ے باشکوہ عبادت خانے ، کہ جو حکومت الہٰیہ اوراس کی مذہبی سلطنت کے لائق تھے ، اس کے لیے بناتے تھے تاکہ لوگ راحت و آرام کے ساتھ اپنے عبادت کے فرائض کوانجام دے سکیں ۔
” ثماثیل “ جمع ہے ” تمثال “ کی جو بیل بوٹوں اور تصویر کے معنی میں آیاہے ، اور مجسمہ کے معنی میں بھی اس بارے میں مجسمے یانقوش ، کون سے موجودات کی صورتیں تھیں ، اورسلیمان علیہ السلام نے ان کی تیاری کاحکم کیوں دیاتھا ، مختلف تفسیر یں بیان کی گئی ہیں ۔
ممکن ہے کہ یہ زیب و زینت اورسجا وٹ کا پہلو رکھتے ہوں ، جیساکہ ہماری اہم قدیمی بلکہ جدید عمارتوں میں بھی نظر آتاہے ۔
یایہ ان عمارتوں کارعب اور دبدبہ بڑھانے کے لیے ہو ، کیونکہ کچھ حیوانات مثلا ً شیر کی تصویر بہت سے لوگوں کے افکار میں رعب و دبدبہ پیدا کرنے والی ہے ۔
کیاسلیمان علیہ السلام کی شریعت میں ذی روح موجودات کامجسمہ بنا ناجائز تھا ، جبکہ یہ اسلام میں ممنوع ہے ؟ یاجومجسمے وہ سلیماعلیہ السلام کے لیے بنانتے تھے ، غیر ذی روح کی جنس سے تھے ، مثلا ً درختوں ، پہاڑوں ، سورج ، چاند او ر ستا روں کی تصویر یں ۔
یااُن کے لیے صرف دیواروں پرنقش و نگار کیاکرتے تھے جیسا کہ قدیمی تاریخی آثار میں اکثر گُلکار یوں کی صورت می ں نظر آتی ہیں ، اور ہم یہ جانتے ہیں کہ نقش و نگار چاہے جیسے ہوں مجسمہ کی برخلاف ... حرام نہیں ہیں ۔
یہ سب احتمالات ہیں ، چونکہ اسلام میں مجسمہ سازی کوحرام قرار دیاجاتا ہے . ممکن ہے کہ بت پر ستی کے مسئلہ کے ساتھ شدید مبارزہ کرنے اوراس کی بیخ کنی کرخاطر ہو ، اور سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میںاس بات کی اتنی ضرورت نہ ہو ، اوریہ حکم ان کی شریعت نہ ہو ۔
لیکن ایک روایت میں جو امام صادق علیہ السلام سے ا س آیت کی تفسیر میں نقل ہوئی ہے یہ بیان کیاگیاہے ۔
” و اللہ ماھی تما ثیل الرجل والنساء و لکنھا الشجر و شبھہ “ 
خدا کی قسم سلیما ن ( ع) کے حکم سے بنائی جانے ولی تمثال مردوں اور عوتوں کے مجسمے نہ تھے ، بلکہ درخت وغیرہ کی تصویر یں تھیں ( ۵) ۔
” جفان “ جمع ” جفنہ “ ( بروزن وزنہ ) کھانا کھانے کے برتنوں کے معنی میں ہے ، اور جواب “ جمع ” جابیہ “ کی ، پانی کے حوض کے معنی میں ہے ، اوراس تعبیر سے یہ معلوم ہوتاہے کہ و ہ سلیما ن علیہ السلام کے لےے بہت بڑے بڑے برتن ، کہ جوحوض کی طرح ہوتے تھے ، تیارکیاکرتے تھے ، تاکہ ایک کثیر گروہ ان کے گرد بیٹھ کرکھانا کھا سکیں ، اور اگر ہم نے اس بات کوبھلا نہ دیا ہو تو تھوڑے ہی سے پہلے زمانہ کی بات ہے ایک ہی دستر خوان پربیٹھ کربڑے بڑے ( غذا کے ) مجموعوں سے اکٹھے مل کر کھایا کرتے تھے ، اورحقیقت میں ن کادستر خوان ، وہی بڑا برتن ہو اکرتا تھا ، اور موجودہ زمانہ کی طرح ہر ایک کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ مستقل طور پر برتنوں کارواج نہیں تھا ۔
” قدور “ جمع ” قدر “ ( بروزن قشر ) اُس برتن کے معنی میں ہے کہ جس میں کھا ناپکایاجاتاہے ( دیگ ) اور ” راسیات “ جمع ” راسیہ “ کی ہے ،جو ایک ہی جگہ پر گڑی ہوئی یاثابت وجمی ہوئی کے معنی میں ہے اور یہاں وہ دیگیں مراد ہیں کہ جنہیں ان کے بڑ ے ہونے کی وجہ سے ان کی اپنی جگہ سے ہلایانہیں جاتاتھا ۔
آیت کے آخرمیں ان نعمتوں کاذکر کرنے کے بعد داؤد علیہ السلام کی اولاد سے خطاب کرتے ہو ئے فرماتا ہے : ” اے آل ِ داؤد ! شکر گزاری کرو “ ( اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُکْراً ) ۔
” لیکن میرے بندوں میں سے بہت ہی تھوڑے لوگ شکر گزاری سے مراد صرف زبان کے ساتھ شکر ،شکر ، کہنا ہو تو پھر تو کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ، کہ اس پرعمل کرنے والے کم ہوں ، بلکہ اس سے مراد ” عملی طور پر شکر “ اداکرنا ہے ،یعنی نعمتوں کوانہیں مقاصد میںاستعمال کرنا جن کے لیے وہ پیدا کی گئیں اورعطا کی گئیں ہیں، اور یہ بات مسلّم ہے ، کہ وہ لوگ کہ جو خدا کی نعمتوں کوعام طو ر پر اپنی جگہ پر استعمال کریں ، بہت ہی تھوڑی ہیں ۔
بعض بزرگ شکر کے لیے تین مراحل کے قائل ہوئے ہیں ۔
اوّل : دل کے ساتھ شکر کرنا یعنی نعمت کاتصور کرنا ، اور اس پرراضی ہونا اورخوشی کااظہار کرنا ۔
دوسرے : زبان کے ساتھ شکر کرنا یعنی نعمت دینے والے کی حمد وثنا بیان کرنا ۔
تیسرے : تمام اعضاء وجوارح کے ساتھ شکر کرنا ، اور وہ اعمال کو اس نعمت کے ساتھ ہم آہنگ بنانا ہے ۔
” شکور “ مبالغہ کاصیغہ ہے اور بہت زیادہ شکر ادا کرنے کو ظاہر کرتاہے ، جو کہ دل ،زبان او ر اعضاٴ جوارح کے ساتھ متواتر ومسلسل شکر کو دہراتے رہنا ہے ۔
البتہ بعض اوقات یہ صفت خداکے لیے بھی لائی گئی ہے ، جیساکہ سورہ تغابن کی آیہ ۱۷ میں بیان ہوا ہے : ” وا للہ شکور حلیم ‘ ‘ خدا ی کی شکر گزاری سے مراد یہ ہے ، کہ بندے جتنا اس کی اطاعت کی راہ میں قدم اٹھا تے ہیں ، اتنا ہی وہ انہیں اپنے الطاف و انعامات سے ونواز تا ہے ، اوران کی قدر دانی کرتے ہوئے انہیں اپنے فضل وکرم سے اس سے کہیں زیادہ عطا فرماتاہے کہ جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ۔
بہرحال یہ تعبیر کہ میر ے بندوں میں سے کم لوگ شکر گزار ہیں، ممکن ہے کہ یہ اس گروہ کے مقام کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے ہو کہ جوایک نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، یامراد یہ ہو کہ تم بھی کوشش کرو اوران کے زمرہ میں داخل ہوجاؤ تاکہ شکر کرنے والوں کی جماعت میں اضافہ ہو ۔
آخر ی زیر بحث آیت ،اس حال میں کہ وہ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بھی آخری گفتگو ہے ، خدا کے اس عظیم پیغمبرکی عجیب وغریب اور عبرت انگیز موت کے بارے میں گفتگو کررہی ہے ، اور اس حقیقت کوروشن کررہی ہے ، کہ اتنے باعظمت پیغمبر اوراتنی قدرت ، رعب اوردبد بہ رکھنے والے حکمران نے اپنی جان کس طرح آسانی کے ساتھ جان آفرین کے سپرد کردی ، یہا ں تک کہ بستر پر لیٹنے سے پہلے ہی موت کے چنگل نے ان کے گرینا ن کوپکڑ لیا ۔
فرماتاہے : ” جب ہم نے سلیمان کے لیے موت کاحکم نافذ کردیا تو کسی نے بھی لوگوں کوا س کی موت سے آگاہ نہ کیا مگر زمین پررینگنے والے نے کہ جس نے اس کے عصا کوکھا لیا یہاں تک کہ اس کاعصاٹوٹ گیا اور سلیمان کاپیکر نیچے گر پڑا “ ( فَلَمَّا قَضَیْنا عَلَیْہِ الْمَوْتَ ما دَلَّہُمْ عَلی مَوْتِہِ إِلاَّ دَابَّةُ الْاٴَرْضِ تَاٴْکُلُ مِنْسَاٴَتَہُ ) (۶) ۔
اوپر والی آیت کی تعبیر اوراسی طرح متعد د روایات سے معلوم ہوتاہے ، کہ جب سلیمان علیہ السلام کی موت کاوقت آن پہنچا تووہ ا س وقت کھڑے ہوئے تھے اور اپنے عصاپرتکیہ کیے ہوئے تھے کہ اچانک موت نے ان کو آپکڑا ، اوران کی روح بدن سے پر واز کر گئی ، وہ ایک مدت تک اسی حالت میں کھڑے رہے ، یہاں تک کہ دیمک نے کہ قرآن جسے ” دابّة الارض “ ( زمین پررینگنے والی چیز ) سے تعبیر کرتا ہے ، ان کے عصاکوکھا لیا ، جس سے ان کا اعتدال بر قرار نہ رہ سکا اورزمین پرگرپڑے تب لوگ ان کی موت سے آگا ہ ہوئے ۔
لہذا اس کے بعد مزید کہتاہے کہ : جب سلیمان علیہ السلام گرے تو اس وقت جنات سمجھے کہ اگر وہ غیب سے آگاہ ہوتے تو ذلیل کرنے والے عذاب میں گرفتار نہ رہتے “ ( فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اٴَنْ لَوْ کانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْبَ ما لَبِثُوا فِی الْعَذابِ الْمُہینِ) ۔
” تبینت “ کاجملہ ” تبیین “ کے مادہ سے عام طور پر آشکار وواضح ہونے کے معنی میں (فعل لازم) ہے اور بعض اوقات کسی چیز کوجاننے اوراُس سے آگاہ ہونے کے معنی میں ( فعل متعدی کے طو ر پر ) بھی آتاہے ، اور یہاں دوسرے ہی معنی کے ساتھ مناسب ہے ، یعنی اس وقت تک گروہ جِن ّ سلیمان علیہ السلام کی موت سے آگاہ نہیں ھا ، اور انہوں نے اس سے یہ سمجھ لیاکہ وہ غیب کے اسرار سے آگاہ ہوتے تواس مدت میں ایسے سخت کاموں کی ز حمت و تکلیف میںباقی نہ رہتے ۔
مفسرین کی ایک جماعت نے اس جملہ کوپہلے معنی میں لیاہے اور نہوں نے کہاہے کہ آیت کامفہوم اس طرح ہے ، سلیمان علیہ السلام کے گرجانے کے بعد جِنّوں کی حالت ، انسان کے لیے واضح و آشکار ہو گئی کہ وہ غیب کے اسرار سے آگاہ نہیں ہیں ، اور کچھ لوگ بلا جوازان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں ( ۷) ۔
” عذاب مھین “ کی تعبیر ممکن ہے کہ اُن سنگین وسخت کاموں کی طرف ا شارہ ہو کہ جو سلیمان علیہ السلام جر مانہ اورسزا کے عنوان جِنّوں کے ذمہ ڈالتے تھے ورنہ خدا کاپیغمبر کسی شخص کوبلاوجہ کسی سختی اورعذاب وہ بھی ” ذلیل و خوار کرنے والے عذاب “ میں ہرگز نہیں ڈالتا ۔
۱۔ ” لسلیمان “ میں جار و مجر ور ایک مقدر فعل سے متعلق ہے ، یعنی ” سخرتا “ کہ جو گزشتہ آیات کے قرینہ سے سمجھاجاتاہے ، اورسورہ ص کی آیہ ۳۶ میںاس کی تصریح ہوئی ہے ، جہاں کہتا ہے ” فسخر نالہ الر یح “ بعض مفسرین کانظر یہ یہ ہے کہ کہ ” لسلیمان “ میں ” لام “ اختصاص کے لیے ہے جوا س طرف ا شارہ ہے کہ یہ معجزہ اس پیغمبر کے ساتھ مخصوص تھا ، اور اس کوئی دوسرا پیغمبر ان کے ساتھ اس امر میں شریک نہیں ھا ۔
۲۔ اس سلسلے میںہم نے جلد ۱۳ ... (سورہ ابنیاء کی آیہ ۸۱ کے ذیل ) میں بھی بحث کی ہے ۔
۳۔ مفردات راغب مادہ ” حرب “ ۔
۴۔ مفردات راغب مادہ ” حرب “ ۔
۵۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ، ابواب ،ایکتسب بہ حدیث ! ۔
۶۔ ” منساٴ تہ “ مادہ نسا ء ( بروزن نسخ ) او ر نسییٴ ( بروزن نصیب ) سے، تاخیر کے معنی میں ہے اور چونکہ عصا سے چیزوں کو پیچھے کی طرف دھکیلتے ہیں ، اور دُورکرتے ہیں لہذا لفظ ” منساٴ تہ “ اس پر بولا گیاہے ( یعنی پیچھے دھکیلنے کاذریعہ ) بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ لفظ اہل یمن کے الفاظ میںسے تھا او رچونکہ سلیمان اس علاقے پرحکومت رکھتے تھے ، لہذا قرآن نے ان کے بارے میں اسے استعمال کیاہے.( مفرداتِ راغب . تفسیر قرطبی اورروح البیان کی طرف رجوع کریں ) ۔
۷۔ پہلی صورت میں آیت کی ترتیب اس طرح ہوتی . تبینت فعل جن فاعل ( یہاں معنی جمع کاہے ) اورا ن لوکانوا ... اس کے مفعول کی جگہ پرہے ، اور دوسری صورت میں بینت فعل اور ” امر الجن ‘ ‘ فاعل پھر مضاف حذف ہوگیاہے اور مضاف الیہ اس کاقایم مقام بنا ہے ، وان لوکانوا ... اس کابیان وضاحت ہے ۔