داؤد (ع) پرخدا کے عظیم انعامات
وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ ۱۰أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ ۖ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ۱۱
اور ہم نے داؤد کو یہ فضل عطا کیا کہ پہاڑو تم ان کے ساتھ تسبیح پروردگار کیا کرو اور پرندوں کو لَسخّر کردیا اور لوہے کو نرم کردیا. کہ تم کشادہ اور مکمل زرہیں بناؤ اور کڑیوں کے جوڑنے میں اندازہ کا خیال رکھو اور تم لوگ سب نیک عمل کرو کہ میں تم سب کے اعمال کا دیکھنے والا ہوں.
چونکہ گزشتہ بحث کی آخری آیت میں گفتگو ” عبد منیب “ اورتوبہ کرنے والے بند ے کے بارے میں تھی ، اور ہم جاتنے ہیں کہ یہ توصرف بعض آیات ہیں ( سورہ ص آیہ ۲۴) داؤد پیغمبر کے لیے جس کی تفصیل انشا ء اللہ آئند ہ بیان ہوگی ... ذکر ہوتی ہے ، اس بناء پر بہتر معلوم ہوتاہے ، کہ اس عظیم پیغمبراوران کے فر زند حضرت سلیمان علیہ السلا م کے حالات کاایک گوشہ نمونہ کے طو ر پر بیان کیاجائے اور گزشتہ بحث مکمل ہوجائے ، اور ضمنی طور پر یہ بات اُن تمام افراد کے لیے ایک تنبیہ ہو کہ جو خدا کی نعمتوں کوفراموش کردیتے ہیں ، اورجس وقت تختِ اقتدار پر بیٹھتے ہیں تو پھر وہ خدا کے بندے ہی نہیں رہتے ۔
پہلی آیت میں کہتا ہے: ” ہم نے داؤد کواپنے فضل سے ایک نعمت بخشی تھی “ ( وَ لَقَدْ آتَیْنا داوُدَ مِنَّا فَضْلاً ) ۔
لفظ ” فضل “ ایک وسیع مفہوم رکھتاہے ، کہ جو ان تمام مواہب اور نعمتوں کوکہ جو خدا نے داؤد علیہ السلام کوعطا کی تھیں ، شامل ہے ، اور ” نکرہ “ کی صورت میں اس کاذکر اس کی عظمت کی دلیل ہے ۔
حضرت داؤد علیہ السلا کو پر وردگار کی طرف سے بہت سی نعمتیں ... چاہے وہ معنوی پہلو رکھتی ہوں یامادی ... حاصل تھیں کہ جن کوقرآنی آیات نے بیا ن کیاہے ۔
ایک مقام پر کہتاہے کہ : ” ہم نے اُسے اوراس کے بیٹے کوبہت ساعلم دیا اور انہوں نے کہا،خدا کاشکر ہے کہ جس نے ہمیں اپنے بہت سے بندوں پرفضل و برترری بخشی “ ”وَ لَقَدْ آتَیْنا داوُدَ وَ سُلَیْمانَ عِلْماً وَ قالاَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذی فَضَّلَنا عَلی کَثیرٍ مِنْ عِبادِہِ الْمُؤْمِنینَ “ (سورہ نمل ، ۱۵ ) ۔
دوسری جگہ خصوصیت کے ساتھ حیوانات سے باتیں کرنے کاعلم رکھنے پرانحصار کیاہے ، اور اسے ایک عظیم نعمت کے عنوان سے بیان کیاگیا ہے : ” یا اٴَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اٴُوتینا مِنْ کُلِّ شَیْء ٍ إِنَّ ہذا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبینُ “
( اے لوگوں ! ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اورہمیں ہرچیز سے بہرہ مند کیاگیا ہے اور یہ ایک واضح و آشکار فضیلت ہے پرو ردگار کی طرف سے ) ۔ ( نمل . ۱۶ ) ۔
وہ مختلف معجزات ، کہ جن کے تعلق زیربحث آیت کے ذیل میںگفتگو ہوگی . ان فضائل کاایک حصّہ ہے ، علاوہ ازیں بہت ہی عمدہ لحن اور آواز ، اور عادلانہ قضاوت پر قدرت کہ جس کی طرف سورہ ”ص“ میں اشارہ ہوا ہے ، اس فضلِ الہٰی کاایک دوسراحصہ شمار ہوتا ہے ، اور سب سے زیادہ اہم فضیلت نبوت و رسالت کی فضیلت ہے جو خدانے داؤد علیہ السلام کوعطافرمائی تھی ۔
بہرحال اس اجمال اشارہ کے بعد اس کی تفصیل شروع ہوتی ہے اوران کے کچھ معنوی فضائل اور چند مادی فضائل اس طرح بیان کرتاہے : ” ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ تم داؤد کے ساتھ ہم آواز ہو جاؤ ، اوراسی طرح ا ے پر ندو ! تم بھی اس کی آواز ملاؤ ، اورجس وقت وہ خدا کا ذکر اور تسبیح کرے تو تم بھی ز مزہ سرائی کرو “ ( یا جِبالُ اٴَوِّبی مَعَہُ وَ الطَّیْرَ ) ۔
لفظ ” اوبی “ اصل میں ” تاویب “ سے آواز کو گلے میں گھمانے اور پھیر نے کے معنی میں ہے ، یہ مادہ کبھی تو بہ کے معنی بھی استعمال ہو تاہے ، کیونکہ اس کی حقیقت خداکی طرف باز گشت ہے ۔
اگرچہ عالم تمام ذرات خدا کاذکر ِ تسبیح اورحمد کرتے ہیں ، خواہ کوئی داؤد ان کے ساتھ ہم صد ا ہو یانہ ، لیکن داؤد علیہ السلام کاامتیاز یہ تھا کہ اُن کے صدابلند کرنے اور تسبیح کی نغمہ سرائی کے وقت ان موجودات کے اندر جوکچھ پوشیدہ تھا وہ آشکار وظاہر ہوجاتا تھا ارو اندرونی زمزمہ بیرونی نغمہ کے ساتھ تبدیل ہوجاتا تھا ، جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ پر ” سنگر یزہ کے بارے میں بھی روایات آئی ہیں ۔
ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ :
” انہ خرج یقراٴ الزبو ر و کان اذا قراٴ الذبور لایبقی جبل ولا حجر و لا طا ئر الّا اجابہ ! “
”داؤد علیہ السلام ، دشت وبیا بان کی طرف نکلے اورجس وقت آپ زبور کی تلاوت کرتے توکوئی پہاڑ اور پتھر اور پرند پ ایسا نہ تھا کہ جواُن کے ساتھ ہم آواز نہ ہوتا ہو “ ( ۱) ۔
اس معنوی فضیلت کاذکرکر نے کے بعد ایک مادی فضیلت کابیان شروع کرتے ہوئے کہتاہے :
” اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کردیا “ ( والنا لہ الحدید ) ۔
ہو سکتاہے کہ یہ کہاجائے کہ یہ خدا نے حضرت داؤد علیہ السلام کومعجزانہ طور پر لوہے کو نرم کرنے کاطریقہ سکھا یا تھا ، اس طرح سے کہ وہ اس سے زِرہ بنانے کے لیے مضبوط ومحکم اور پتلی نازک قسم کی کڑیاں بنا سکیں ، یایہ کہاجائے کہ حضرت داؤد علیہ السلام سے پہلے بھی جنگوں میں دفاع کے لیے لوہے کی سلیٹوں سے استفادہ ہوتاتھا ، کہ جو بھاری ہوتی تھیں ، اور گرانہیں پہنا جاتا تو اتنی خشک اوربے لچک بھی ہوتی تھیں کہ جو جنگجو غازیوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہوتی تھیں ، کوئی بھی شخص اس زمانہ تک لوہے کی باریک ارومضبوط کڑ یوں سے زرّہ کی مانند کوئی ایسی چیزنہ بناسکا تھا کہ جو لباس کی مانند آسانی کے ساتھ بدن پر آسکے اور بدن کی حرکات کے ساتھ نرم اور رواں رہے ۔
لیکن آیت کا ظاہریہ ہے کہ لوہے کاحضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں نرم ہونا ، خداکے حکم سے اورمعجزانہ صورت میں انجام پذیر ہوتاتھا . اس بات میں کیا چیز مانع ہے کہ وہی ذات کہ جو بھٹی کو لو ہانرم کرنے کی خاصیت بخشتی ہے ، اسی خاصیت کوایک دوسرے شکل میں داؤد علیہ السلا کے پنجوں میں قرار دے دے ، بعض اسلامی روایات میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہوا ہے ( ۲) ۔
” نعم العبد انت الا انک تاٴ کل من بیت المال فبکی داؤد اربعین صباحا ً فالان اللہ لہ الحدید وکان یعمل کل یوم درحا .... فاستغنی عن بیت المال “ ۔
” تم ایک اچھے آدمی ہو ، مگر تم بیت المال سے اپنی روزی حاصل کرتے ہو ، داؤد علیہ السلام چالیس دن تک روتے رہے ، ( اورخدا سے اس کے حل کی درخواست کی ) تو خدانے لوہے کوان کے لیے نرم کردیا اور ہر روز ایک زِرہ بنالیتے تھے ... اوراس طرح سے وہ بیت المال سے بے نیا ز ہو گئے “ ( ۳) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ بیت المال ایسے لوگوں پرخر چ کرے کے لیے ہوتاہے کہ جومعاشروں کی بغیر عوض کے خدمت کرتے ہیں اورایسے اہم بوجھ اٹھا تے ہیں کہ جو پسماندہ ہوں ، لیکن یہ بات زیادہ بہتر ہے کہ انسان اس خدمت کوبھی انجام دے اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے ... توانائی کی صورت میں ... گذراوقات کرے اور داؤد علیہ السلام یہ چاہتے تھے کہ وہ اسی قسم کے ممتاز بندے بنیں ۔
بہر حال داؤد علیہ السلام تو انائی کے ذریعہ ... کہ جو خدا نے انہیں دی تھی ، بہتر ین طریق یعنی جہادکاوسیلہ بنانے سے ، ایسا وسیلہ جودشمن سے حفاظت کرے ... استفادہ کرتے تھے ، اوراس سے زندگی کے عام وسائل میں ہرگز فائدہ نہ اٹھایا ، اور عجب یہ کہ اس کی آمدنی سے ... بعض روایات کے مطابق اپنی سادہ زندگی کی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ کچھ نہ کچھ حاجت مندوں پربھی خرچ کیاکرتے تھے ( ۴) ان تمام باتوں کے علاوہ اس کام کاایک فائدہ نہ تھا کہ وہ ان کا ایک بولتا ہوا معجزہ شمار ہوتاتھا ۔
بعض مفسرین نے اس طرح نقل کیاہے کہ ” لقمان “ داؤد علیہ السلام کے پاس اس وقت پہنچے ، جبکہ وہ پہلی زِرہ بتا رہے تھے ، وہ لوہے کوبٹ بٹ کر کڑیوں اورحلقوں کی صورت میںبنا رہے تھے ،اورانہیں ایک دوسرے کہ ساتھ آپس میںجوڑ رہے تھے . اس حلقوں کی صورت میں بنا رہے تھے ،اور انہیںایک دوسرے کے ساتھ آپس میں جوڑ رہے تھے . اس عجیب وغریب منظر کودیکھ کر لقمان حیران رہ گئے اوروہ سوچنے لگے ( کہ یہ کیا ہو رہاہے ) اُسے دیکھتے رہے ، لیکن کوئی سوال نہ کیا ، یہاں تک کہ داؤد علیہ السلام نے زِرہ بنا کر تیار کرلی ، اورکھڑے ہوکر اسے پہن لیا، اور کہا کہ جنگ میں دفاع کے لیے یہ کیسا اچھا ذریعہ ہے ، لقمان نے جو اس کااصلی مقصد سمجھ چکے تھے ، کہا کہ : الصمت حکمة وقلیل فاعلہ ! خاموشی حکمت ہے مگر بہت کم لوگ اسے انجام دیتے ہیں “ ( ۵)۔
بعد والی آیت داؤد علیہ السلام کے زِرہ بنانے اوراس سلسلے میں پرور دگار کے بہت ہی پُر معنی فرمان کی شرح ہے ، کہتاہے : ” ہم نے اس سے کہاکہ مکمل زر ہیں بناؤ اوراس کے حلقوں کوانداز ے کے ساتھ اور مناسبرکھو “ ( اٴَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ )۔
” سابغات “ ” سابغ کی جمع “ کامل اورفراخ زِرہ کے معنی میں ہے ، اور ” اسباغ نعمت “ بھی نعمت کی فراخی کے معنی میں ہے ۔
” سرد “ ا صل میںزرہ جیسی سخت چیزوں کو بُننے کے معنی میں ہے ،اور ” قدرفی السرد “ کے جملہ کامفہوم وہی زرہِ کے حلقوں میں مناسباندازوں کا خیال رکھنا ، اور اس کے بُننے کی طرز ہے ۔
درحقیقت خدا ، داؤد علیہ السلام کو ایسا حکم دے رہا ہے کہ جوساری دنیاجہان کے باایمان صنعت کاروں اور کار یگر وں کے لیے ایک نمونہ ہو ، یہ مصنوعات میں پختہ کاری و مضبوطی اوران کی کیفیت وکمیت میں انتہائی احتیا ط برتنے کا حکم ہے ، تاکہ انہیں استعمال کرنے والے اچھی طرح اور راحت و سکون کے ساتھ اس سے استفادہ کرسکیں اورکامل استحکام سے فائدہ اٹھا ئیں ۔
داؤد علیہ السلام سے کہتا ہے : زرہ کوکشادہ اور آرام دہ بنا ؤ ، تاکہ چنگ کرنے والے اسے پہنتے وقت قید خانہ میں ہی گرفتار نہ ہوجائے ، نہ تو اس کے حلقوں کو اندازہ سے زیادہ چھوٹا اور باریک بنا ؤ کہ اُس میں لڑنے کی حالت ہی باقی نہ رہے ، اور نہ ہی زیادہ سخت اور کنا روں کے بغیر کو کبھی تلوار و خنجر و نیز و تیر کی نوک ہی اس کے اندر چلی جائے ، بلکہ اس کی ہر چیز انداز ے کے مطابق اور مناسب ہو ۔
خلاصہ یہ کہ خدا نے اس کے اصلی ” مادہ “ کو بھی ” النالہ الحدید “ کے مطابق داؤد علیہ السلا م کے اختیار میں دے دیا ، اوراس کی شکل و صورت بنانے کی طرز اورزرہ بنانے کاطریقہ بھی داؤد علیہ السلام کو سکھا دیا تاکہ اس ” مادہ “ اور ”صورت “ سے ایک کامل و مکمل نتیجہ برآمدہو ۔
آیت کے آخر میں داؤد علیہ السلام اوران کے خاندان کومخاطب کرتے ہوئے کہتاہے کہ :
” عمل ِ صالح بجالاؤ “ کیونکہ جوکچھ تم کرتے ہو میں اُسے دیکھ رہاہوں “ ( وَ اعْمَلُوا صالِحاً إِنِّی بِما تَعْمَلُونَ بَصیر)۔
آیت کی ابتدا ء میں صرف داؤد علیہ السلام مخاطب ہیں اورآخر میں وہ ان کاخاندان یاوہ اوراُن کی قوم ( مخاطب ) ہیں ، کیونکہ یہ تمام مسائل عملِ صالح کے لیے ایک مقدمہ اور تمہید ہیں ، زِرہ بنانے کامقصد آمدنی کاحصول نہیں ہے ، اصل مقصد عملِ صالح ہے ، اور یہ چیز یں اس راہ میں ایک وسیلہ اور ذریعہ ہیں ، کہ جن سے داؤد علیہ السلام بھی فائدہ اٹھاتے تھے اور ان کا خاندان بھی ۔
اور عمل صالح کے شئون و حالات میں سے ایک یہ ہے کہ مصنوعات میں ہر طرح سے کافی ووافی احتیاط کو ملحوظ رکھیں ، اور ایک مفید اور کامل پیدا اور تیار کرکے دیکھائیں ، اور ہر طرح کی برائی اور کمی رکھنے سے پرہیز کریں ۔
یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس خطاب کے مخاطب داؤد علیہ السلام اوروہ تمام لوگ ہیں کہ جوان کے ہاتھ سے بنی ہوئی چیزسے فائدہ اٹھاتے تھے ، اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس وفاعی وسیلہ اور ذریعہ کوعمل ِ صالح کی راہ مین استعمال کریں ، نہ کہ ظلم وجور اور گناہ کی راہ میں ۔
۱۔ کمال الدین صدوق ، ( المیزان ، جلد ۱۶ ص ۳۹۰ کے مطابق ) ۔
۲۔ تفسیر برہان ، جلد ۳ ، ص ۳۴۳، و تفسیر نورا ثقلین ، جلد ۴، ص ۳۱۵ ۔
۳۔ مجمع لبیان ، زیربحث آیت کے ذیل میں ۔
۴۔تفسیر ابوالفتوح رازی ،جلد ۹ ،صفحہ ۱۹۲ ۔
۵۔مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔