Tafseer e Namoona

Topic

											

									  پروردگار کی قسم قیامت آکے رہے گی

										
																									
								

Ayat No : 3-5

: سبأ

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ ۳لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ۴وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ ۵

Translation

اور کفّار کہتے ہیں کہ قیامت آنے والی نہیں ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار کی قسم وہ ضرور آئے گی وہ عالم الغیب ہے اس کے علم سے آسمان و زمین کا کوئی ذرّہ دور نہیں ہے اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا بلکہ سب کچھ اس کی روشن کتاب میں محفوظ ہے. تاکہ وہ ایمان لانے والے اور نیک اعمال انجام دینے والوں کو جزا دے کہ ان کے لئے مغفرت اور باعزّت رزق ہے. اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے مقابلہ میں دوڑ دھوپ کی ان کے لئے دردناک سزا کا عذاب معّین ہے.

Tafseer

									گزشتہ آیات اس حالت کے باوجود ، کہ وہ توحید اور خداکی صفا ت کا بیان کرتی تھیں ،وہ مسئلہ معاد کے لیے بھی زمین کوہموار کررہی تھیں ، کیونکہ جیساکہ ہم دیکھیں گے ... معاد کی بحث کی مشکلات خدا کے لیے پایا ں علم کے طریق کے سوا حل نہیں ہوتیں ۔
اس لیے زیربحث آیت میں پہلے کہتاہے : ” کافروں نے کہا “ یہ جھوٹ ہے کہ کوئی قیامت ہمیں پیش آنے والی ہے ، ہرگز قیامت ہمارے پاس نہیں آئے گی “ ( وَ قالَ الَّذینَ کَفَرُوا لا تَاٴْتینَا السَّاعَةُ ) ۔
نہ صرف ہمارے ، بلکہ انسانوں میں سے کسی کے لیے بھی قیامت نہیں ہے ! 
وہ یہ چاہتے تھے کہ وہ آذادی کے ساتھ جو کام ان کادل چاہے کرتے رہیں ، اور اس امید پر کہ حساب و کتاب اورعدل و انصاف توکچھ ہوگاہی نہیں ، لہذا جوکام بھی ان سے ہو سکے کرلیں ۔
لیکن چونکہ قیامت کے دلائل واضح و روشن ہیں ، لہذا قرآن ایک قاطع اور دو ٹو ک جملہ کے ساتھ یہاں نتیجہ کی صورت میں پیغمبر سے کہتاہے کہ : کہہ دو کہ ہاں ! میر ے پرور دگار کی قسم کہ قیامت تم سب کے پاس ضرور آئے گی “ ( قُلْ بَلی وَ رَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ ) ۔
لفظ ِ ” رب “ پر انحصار اس سبب سے ہے ، کیونکہ قیامت ربوبیت کے افعال میں سے ایک فعل اور ایک شان ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا نسان کامالک و مربی تو ہو ، اورانہیں ارتقائی منازل میں آگے بھی بڑ ھائے لیکن انہیں بیچ میں ادھو را چھوڑدے ، اور ان کے مرتے ہی تمام چیزیں ختم ہو جائیں ، اور اس کی زندگی بے مقصد اوراس کی پیدا ئش بیہودہ اورفضول ہو کر رہ جائے ۔
سورہ تغابن کی آیہ ۷ مین بھی اسی صفت کاسہارا لیاہے ، چنانچہ فرماتاہے : ” زَعَمَ الَّذینَ کَفَرُوا اٴَنْ لَنْ یُبْعَثُوا قُلْ بَلی وَ رَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِما عَمِلْتُمْ “( کافروں نے یہ گمان کرلیا ہے ، کہ وہ ہرگز ( زندہ کرکے ) اٹھائے نہیں جا ئیں گے ، تم کہہ دو : ہاں ! میر ے پروردگار کی قسم تم سب کے سب قیامت میں ضرور بالضرور ( زندہ کرکے ) اٹھا ئے جاؤ گے ، پھر تم سب اپنے ا عمال اوران کے نتا ئج سے آگا ہ ہوگئے ) ۔
چونکہ معاد کی مخالفت کرنے والوں کے اعتراضات میں سے ایک یہ تھاکہ جب انسان کابدن مٹی ہوجائے گا اوراس کے اجزا ئے بدن اطراف زمین میں مکھر جائیں گے ، تو کون انہیں پہچان سکے گا اورکون انہیں اکٹھا کرسکے گا اور نئی زندگی کی طرف پلٹا سکے گا ؟ دوسری طرف کون ایسا ہے کہ جو ابندوں کے تمام پنہا ں و آشکار اور اندرونی اعمال کومحفوظ رکھ سکے اور برموقع ان کا حساب کرسکے ؟ 
لہذا اس آیت کے آخرمیں مزید کہتاہے کہ : ” وہ تمام پوشیدہ امور سے باخبرہے ، اورانہ تو تمام آسمانوں میں اور نہ ہی زمین میں ، ایک ذرہ کی مقدار کے برابر بھی ، اس کے بے پایاں علم کے سامنے چھپاہوا نہیں رہے گا “ (عالِمِ الْغَیْبِ لا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ فِی السَّماواتِ وَ لا فِی الْاٴَرْض ) (۱)۔
” اورنہ توکوئی چیز ذرّہ سے چھوٹی ، اورنہ ہی اُس سے بڑی ایسی ہے ، کہ جو سب کی سب کتاب مبین میں ثبت وضبط نہ ہو “ (وَ لا اٴَصْغَرُ مِنْ ذلِکَ وَ لا اٴَکْبَرُ إِلاَّ فی کِتابٍ مُبین ) .اس طرح سے نہ تو انسان کے بدن کے ذرّوں کازمین مین بکھر جانا اوریہ ہی ان کا دوسرے موجودات میں مل جانا یہاں تک کہ ان اجزا کاتمام انسانوں کے بدن میں عذائی مادو ں کی صورت میں داخل ہوجانا بھی ، ان کو واپس اپنے اپنے بدن میں لوٹا نے کے لیے کسی قسم کی کوئی مشکل پیدا نہیں کرے گا ۔
ان کے ا عمال بھی اس جہان میں باقی رہتے ہیں چاہے وہ اپنی مشکل کوکتنا ہی بدل لے ، وہ ان تمام سے اچھی طرح آگا ہ ہے ۔
اس تعبیر کی نظیر سورہ ” ق “ کی آیہ ۳ ، ۴ میں بھی آئی ہے ،ارشاد ہوتاہے : ( اٴَ إِذا مِتْنا وَ کُنَّا تُراباً ذلِکَ رَجْعٌ بَعیدٌ . اٴَ إِذا مِتْنا وَ کُنَّا تُراباً ذلِکَ رَجْعٌ بَعیدٌ ) .’ ’ کیا ہم مرجائیں گے اور (خاک میں مل کر ) خاک ہوجائیں گے ، تو کیا ہم دوبارہ پلٹ کرآئیں گے ؟ یہ بات تو بہت بعید ( ناممکن ) ہے لیکن انہیں جانل لینا چاہیئے کہ ہمیں ا س بات کاعلم ہے ، کہ زمین ان کے اجزاء کوکس طرح سے کم کررہی ہے ، اوراپنے اندر ملاتی جارہی ہے ، اورہمارے پاس ایک کتا ب ہے کہ جس میں یہ تمام امور محفوظ ہیں “ ۔ 
اس بارے میں کہ ” کتاب مبین “ سے کیا مراد ہے ، بہت سے مفسرین نے یہ کہا ہے : کہ اس سے مراد وہی ” لوح محفوظ “ ہے لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ” لوح محفوظ “ کیا ہے ؟ 
جیساکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ” لوح محفوظ “ کی نزدیک ترین تفسیر جو بیان کی جاتی جاسکتی ہے وہی ” پروردگار کے علم بے پا یاں “ کی لوح ہے . ہاں ! اس لوح ہر میں چیز ثبت وضبط ہے ، اور اس میں کسی قسم کے تغیّر اور دگر گونی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
وسیع وعریض عالم ہستی بھی اسی لوح محفوظ کا انعکاس ہے . کیونکہ ہمارے وجود کے تمام ذارت بھی ، اورہمارے تمام اقوام و عمال بھی اس میںمحفوظ رہتے ہیں ، چاہے ظاہری طور پر صورت کتنی ہی بدل جائے لیکن وہ ختم ہرگز نہیں ہوتے ۔
اس کے بعد دو آیات میںقیامت کے قیام کامقصد بیا ن کرتاہے ، یا دوسرے لفظوں میں منکرین کے لیے موجود جہان کے بعد اس قسم کے ایک عالم کے ضروری اور لازمی ہونے کی دلیل کو بیان کرتاہے ، اور فرماتا ہے : ” اس سے مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کوجوایمان لائے ہیں ‘اور انہوں نے نیک عمل انجام دیئے ہیں ، انہیں جزا دے “( لِیَجْزِیَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ) ۔
ہاں ! ” ان کے لیے مغفرت اور باعزت روزی ہے “ ( اٴُولئِکَ لَہُمْ مَغْفِرَةٌ وَ رِزْقٌ کَریمٌ) ۔
اگر مومنین کوان کے نیک عمل کی جزا نہ ملے ، تو کیااصل عدالت کوجو خلقت کاانتہائی بنیادی اصول ہے معطل نہیں ہوجائے گی ؟ کیاپروردگار کی عدالت بغیر کسی مفہوم کے برقرار رہ سکتی ہے ؟ جبکہ ہم اس جہان میں بہت سے ایسے افراد کو دیکھتے ہیں کہ ہرگز اپنے نیک اعمال کی جزا اس دنیا میں نہیں پاتے ، اس بنا ، پر کوئی ایسا جہان ضرور ہونا چا ہیئے ، تاکہ یہ اصل وہاں پرحقیقت بن سکے ۔
” مغفرت “ کو ” رزق کریم “ پرمقدم رکھنا ممکن ہے اس وجہ سے ہوتا کہ مو منوں کوزیادہ تر پریشا نی ان لغزشوں کی وجہ سے ہوتی ہے جن کے ہونے کاانہیں احتمال ہوتاہے ، لہذا سب سے پہلے ان کی بخشش کوبیان کرکے ، انہیں دلی سکون بخشتا ہے ، علاوہ ازیں جب تک وہ خدا کی مغفرت کے پانی کے ساتھ ( ہرقسم کے گناہ کی گندگی سے ) پاک صا ف نہ ہو جا ئیں ، اس وقت تک وہ ” رزق کریم “ اور ” مقام ِ کریم “ کے لائق نہیں ہوں گے ۔
” رزق کریم “ ہرقدر و قیمت رکھنے والی روزی کے معنی میں ہے ، اور اس کے مفہوم کی وسعت اس حد تک ہے ، کہ اس میں تمام مواہب وانعاماتِ خدا وندی شامل ہیں ، یہاں تک کہ وہ نعمتیں بھی کہ جنہیں نہ توکسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی شخص کے وہم و گما ن میں کبھی آئیں ، دوسرے لفظوں میں بہشت اپنی تمام مادی و معنوی نعمتوں کے ساتھ اس لفظ میں جمع ہے ۔
اگر چہ بعض مفسرین نے ” کریم “ کی دو چیزوں( ۱) خوب (۲) بغیر دردِ سر ، کے عنوان سے تفسیر کی ہے ( 2) لیکن نظر یہ آتا ہے کہ اس کامفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔
چونکہ عدالت کادوسرا حصّہ گنہگا روں اور مجرموں کوسز ا دینے سے متعلق ہے اس لیے بعد والی آیت میں مزید کہتاہے : ” وہ لوگ کہ جو ہماری آیات کی تکذیب اوران کے ابطا ل وانکار کی کوشش میں لگیں ہوئے تھے ، اوریہ تصور کرتے تھے کہ وہ ہماری قدرے کے احاطہ سے باہر نکل سکتے ہیں تو ان کے لیے بدترین اور در د ناک ترین عذاب ہوگا “ ( وَ الَّذینَ سَعَوْا فی آیاتِنا مُعاجِزینَ اٴُولئِکَ لَہُمْ عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ اٴَلیمٌ )۔
وہاں گفتگو ” رزق کریم “ کے بارے میں تھی ، اور یہاں ”ر جز الیم “ کے بارے میں ہے ۔
” رجز “ ( بروزن کذب ) اصل میں ” اضطراب “ اور ” اعتدال کوبرقرار رکھنے کی طاقت نہ ہونے کے “ معنی میں ہے ، لہذا جس وقت اونٹ بیمار و ناتوان ہوجاتا ہے ، اور وہ اس بات پر مجبور ہو تا ہے کہ چلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے ،تاکہ کچھ نہ کچھ اپنے اعتدال کوبرقرار رکھ سکے توعرب اس حالت کو ” رجز “ کہتے ہیں . اس کے بعد ہرقسم کے گناہ اور بلید گی پر اطلاق ہونے لگا ۔
لفظ ” رجز “ ( بروزن مرض ) کااطلاق مخصوص جنگی اشعار پربھی اسی بنا پر ہوتاہے کہ اس کے مقطع مختصر اورایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں ۔
بہرحال یہاں ” رجز “ سے رمراد بدترین قسم کاعذاب ہے ، جس کی لفظ ” الیم “ کے ذکر کے ساتھ بھی تاکید ہوئی ہے ، اور وہ درد ناک جسمانی وروحانی عذابوں کی تمام اقسام کو شامل ہے ۔
بعض نے اس نکتہ کی طرف بھیاتوجہ کی ہے کہ یہاں قرن نے بہشتیوں کی نعمتوں کوبیان کرتے ہوئے لفظ ” من “ کوبیان نہیں کیا ، تاکہ یہ بات ان کی وسعت کی دلیل ہو لیکن یہ لفظ ” من “ عذاب کے بارے میں آیاہے تاکہ نسبتی محدود یت اور رحمت کے بیان کی نشا نی ہو ۔
” سعوا “ ” سعی “ کے مادہ سے ہرقسم کی سعی و کوشش کے معنی میں آیا ہے اور یہاںپر آیا تِ حق کی تکذیب و انکار ، اورلوگوں کو پر وردگار کے دین و آمیٴن کی طرف جھکاؤ سے روکنے کی کوشش کرنا مراد ہے ۔
” معاجزین “ ” معاجزہ “ کے مادہ سے عاجز کرنے کے معنی میں ہے ، اوراس قسم کے مواقع پرایسے لوگوں پراطلاق ہوتاہے کہ جو کسی کے ہاتھ سے اس طرح فرار کرجائیں کہ وہ ان پرتسلط حاصل نہ کرسکے ، یہ بات صاف طور پر ظاہر ہے کہ مجر مین کی یہ تو صیف اس سوچ کی بنا پر ہے کہ جوان کے عمل سے نمایاں تھی ، ان کے اعمال ایسے لوگوں سے مشابہ تھے کہ جو یہ تصور کرتے تھے کہ وہ جس قسم کامجرم کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ، اور پھر وہ خدا کی قدر ت کے احاطہ سے فرار کرجائیں گے ۔
۱۔ ” یعزب “ ”عذب “ کے مادہ سے اصل میں چراگا ہ حاصل کرنے کے لیے گھر والوں سے دو ر ہو نے کے معنی میں ہے ، اس کے بعد ہرقسم کے غائب ہونے اور پنہاں ہونے کے معنی میں اطلاق ہوا اور اسی مناسبت سے ان مردوں یاعوتوں کو جواپنی بیوی یاشوہر سے دور رہ گئے ہوں ” عذب “ یا ” عذبہ “ کیاجاتاہے ۔
۲۔ ” آلوسی “ ”روح البیان “ زیر بحث آیہ کے ذیل میں ۔