Tafseer e Namoona

Topic

											

									  وہی ہر چیز کامالک اور ہرچیز کاعالم ہے

										
																									
								

Ayat No : 1-2

: سبأ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ۱يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۚ وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ ۲

Translation

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کے اختیار میں آسمان اور زمین کی تمام چیزیں ہیں اور اسی کے لئے آخرت میں بھی حمد ہے اور وہی صاحبِ حکمت اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے. وہ جانتا ہے کہ زمین میں کیا چیز داخل ہوتی ہے اور کیا چیز اس سے نکلتی ہے اور کیا چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے اور کیا اس میں بلند ہوتی ہے اور وہ مہربان اور بخشنے والا ہے.

Tafseer

									قرآن مجید کی پانچ سورتیں پروردگار کی حمد سے شروع ہوتی ہیں ، جن میں سے تین سورتوں میں خداکی حمد و تعریف آسمان و زمین اوردوسرے موجودات کی خلقت کی بناء پر ہے ( سورہ سبا سورہ فاطر ، اور سورہ انعام ) اورایک سورہ ( کہف ) میں یہ حمد و ثنا پیغمبر کے قلب ِ پاک پرقرآن کے نزول کی بنا پر ہے ۔ 
جبکہ سورہٴ حمد میں ایک جامع تعبیرہے کہ جو ان تمام امور کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے :
)الحمد اللہ رب العالمین ) ۔ 
بہر حال سورہٴ سبا کے ابتداء میںخدا کی حمد و ثنا کے ساتھ گفتگو دنیا و آخرت میں اس کی مالکیت و حاکمیت کی بنا پر ہے ، فرماتا ہے : 
”حمد مخصوص ہے اس خدا کے لےے کہ جو آسمانوں اورزمین کی تمام چیزوں کامالک ہے “ ( الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذی لَہُ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ )۔ 
” آخرت میں بھی حمد اسی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے “ ( و لَہُ الْحَمْدُ فِی الْآخِرَة ) ۔ 
اسی طرح سے دونوں جہانوں کی حاکمیت و مالکیت اسی کے لیے ہے . ہر نعمت موہبت، ہرفائد ہ و برکت اورہر موزوں و عجیب و غریب خلقت اسی کی ذات پاک کے ساتھ تعلق رکھتی ہے . اوراسی بنا پر ”حمد “ کہ جس کی حقیقت ” اچھے اورختیار ی کاموں “ پر تعریف و ستائش ہے ، سب کی سب اسی کی طرف لوٹتی ہیں ۔ 
اوراگر مخلوقات میںبھی کوئی لائق حمد و ستائش ہے تووہ بھی اسی کے وجود کا پرتو اوراس کے افعال وصفات کی ایک شعاع ہے ۔ 
اس بنا پر اس دنیا میں جوبھی کسی چیز کی حمد و ستائش کرتاہے تو یہ حمد و ستائش آخر کار اسی کی پاک ذات کی طرف لوٹ جاتی ہے اور بقول شاعر : 
یہ جہاں خرم از آنم کہ جہاں خرم از اوست 
عاشقم برہمہ عالم کہ ہمہ عالم از او ست 
” میں اس جہان سے اس وجہ سے خوش ہوں کیونکہ یہ جہان اسی کی وجہ سے خوش ہے ، میں سارے عالم پر اس وجہ سے عاشق ہوں کیونکہ سارا عالم اس کی طرف سے ہے “ 
آیت کے آخر میں مزید کہتا ہے : ” وہ حکیم اورخبیر ہے “ ( وھو الحکیم الخبیر ) ۔
اس کی حکمت بالغہ کی بنیاد پر ہی یہ عجیب و غریب نظام جہان پر حکومت کررہا ہے اوراس کے علم و آگاہی کی بنیا د پر ہی ہرچیز اپنی جگہ پر برقرار ہے اور ہر موجود کوجس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کے اختیار میں ہے ۔
اس بارے میں کہ خدا کی آخرت کے بارے میں حمد سے کیامراد ہے ؟ مفسرین نے اس پر بہت بحث کی ہے ۔
بعض نے تو یہ کہاہے کہ اگرچہ دارِ آخرت دارِ تکلیف نہیں ہے ، لیکن خداکے بندے وہاں پر اس کی عاشقانہ انداز میںحمد و ستائش کریں گے اوراس کی حمد وستائش سے لذت حاصل کریں گے ۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ بہشتی تواس کے فضل و کرم کی وجہ سے اس کی حمد کریں گے اور دوزخی اس کے عدل و انصاف کی وجہ سے ۔
کبھی یہ کہاجاتا ہے کہ وہ انسان کہ جو اس دنیا میں نہیں وہ اپنے قلب و فکر پرپڑ ے ہوئے حجابوں کی وجہ سے غالبا اس کی خالص حمد وثنا نہیں کرتے لیکن قیامت میں تمام حجاب ہٹ جائیں گے اور : ” الملک یومئذ اللہ “ کے مصداق تمام عالم ہستی پرخدا کی مالکیت سب پرواضح و آشکار ہوجائے گی ، اور سب کے سب کامل خلوص ِ نیت کے ساتھ اس کی حمد و ثنا میں مشغول ہوجائیں گے ۔
علاوہ ازیں اس جہان میں تو یہ بات ممکن ہے کہ انسان غافل ہو جائیں اور کچھ موجودات کو ذاتِ خداسے مستقل خیال کرلیں ، اور ان کی تعریف وتوصیف کرنے لگیں ، لیکن وہاں توسب کااس کی پاک ذات کے ساتھ تعلق اس طرح سے واضح و آشکار ہوجائے گا جس طرح اس دنیا میں سورج کی شعاعوں کا سورج کے ساتھ رابط واضح و آشکار ہے ۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر قرآن مجید میں بھی بار ہا آیاہے کہ جنتی وہاں خداکی حمد کریں گے : ” واخرد عواھم ان الحمد اللہ رب اللعا لمین “ ( یونس ، آیت ۱۰ ) ۔
جنتیوں کی آخری بات یہ ہے کہ وہ کہیں گے کہ حمد وتعریف اس خدا کے لیے ہے کو جو عالمین کاپر وردگا ر ہے ۔
دوسری جگہ ہم یہ پڑھتے ہیں کہ جس وقت مومنین بہشت جاو دانی میں وارد ہوں گے تووہ یہ کہیں گے : ” حمد و شکر ہے اس خدا کے لیے کہ جس نے ہم سے غم واندوہ کو برطرف کیا “ ۔
)و قالو االحمد اللہ الذی اذھب عناالحزن ) ( فاطر . ۳۴ ) ۔
یہ حمد و ثناصرف انسانوں اورفرشتوں کی زبان سے ہی نہیں ، بلکہ عالم ہستی کے تمام ذرات سے بھی اس کی حمد وتسبیح کازمز مہ با ہوش کان میں پہنچ رہاہے ، کوئی موجود بھی ایسا نہیں ہے کہ جو اس کی حمد وتسبیح نہ کرتا ہو ۔
بعد والی آیت ، گزشتہ آیت میں خدا کی ”حکیم “ و ” خبیر “ کے ساتھ توصیف کی مناسبت سے پرور دگار کے بے پایاں علم کے ایک گوشہ کی تشریح کررہی ہے اوراس طرح کہتی ہے : ” جوکچھ زمین میں داخل ہوتاہے وہ اسے بھی جاتنا ہے اورجو کچھ اس سے باہر نکلتاہے وہ اس سے بھی آگاہ ہے “ ( یَعْلَمُ ما یَلِجُ فِی الْاٴَرْضِ وَ ما یَخْرُجُ مِنْہا )۔
وہاں ! وہ جانتا ہے بارش کے تمام قطرات اورسیلا ب کی موجوں کو جو زمین کی گہرائیوں میں داخل ہوتی ہیں اورنفوذ ناپذ یر طبقہ تک پہنچتی ہیں اور وہاں مجتمع ہوجاتی ہیں ، اور انسانوں کے لیے ذخیرہ بن جاتی ہیں ۔
وہ با خبر ہے گیاہ اورسبز زاروں کے دانوں سے کہ جو ہوایا حشرات الارض کی مدد سے وسیع و عریض زمین میں بکھر جاتے ہیں ، اور زمین کے اندر داخل ہوجاتے ہیں اورایک دن سرسبز درخت یاہرے بھرے گیاہ اورسبز ے میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔
وہ باخبرہے درختوں کی جڑوں سے ، کہ جس وقت وہ پانی اورغذاکی تلاش میں زمین کی گہرائیوں میں چلتی ہیں ۔
برق لہروں سے ،مختلف گیسوں اور ہَوَا کے ذرات سے ، کہ جوزمین کے اندر نفوذ کرتے ہیں ، ان جانداروں سے سے کہ جو زمین کے اندر داخل ہواجاتے ہیں اوراسے زندگی بخشتے ہیں ، نیز خزانوں و فینوں اور مردہ چیزوں کے بدنوں سے ،خواہ و ہ انسان ہوں یاغیر انسان ، کہ جو اس زمین میں دفن ہیں ،ہاں ! وہ ان سب سے باخبر ہے ۔
اسی طرح ان گیا ہوں اورسبز وں سے کہ جو زمین سے نکلتے ہیں ، ان انسانون سے کہ جو اس سے اٹھے ( پیدا ہوئے ) ہیں ، ان چشموں سے جو اس سے ابلتے ہیں ، ان گیسوں سے جو اس سے اٹھتی ہیں ، ان آتش فشاں پہاڑوں سے کہ جو اس سے بھڑ کتے ہیں اوران حشرات سے کہ جو زمین کے اندربل رکھتے ہیں اور اس سے سر باہر نکالتے ہیں . خلاصہ یہ کہ ان تمام موجودات سے ، کہ جوزمین کی گہرائیوں سے باہر نکلتے ہیں ، خواہ ہم ان میں سے کسی کو جانتے ہوں یانہ جانتے ہوں ، وہ ان تمام پرمطلع اور سب سے آگاہ ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : ” وہ ان تمام چیزوں سے جوآسمان سے نازل ہوتی ہیں یاآسمان کی طرف اوپر جاتی ہیں ( وَ ما یَنْزِلُ مِنَ السَّماء ِ وَ ما یَعْرُجُ فیہا) ۔
بارش کے قطروں سے ، سور ج کی حیات بخش شعاعوں سے ، وحی اورآسمانی شریعتوں کی طاقتور موجوں سے ، ان فرشتوں سے جو تبلیغ رسالت یادوسرے کاموں کو انجام دہی کے لیے زمین پرنازل ہوتے ہیں ، ان کبریائی شعاعوں سے کہ جو فضا کے باہر سے زمین پرنازل ہوتی ہیں ، ان شہابوں اورفضامیں گھومنے والے سنگریزوں سے کہ جو زمین کی طرف ( آتے ہوئے فضامیں ) جذب ہوجاتے ہیں ، وہ ان سب سے آگاہ ہے ۔ 
نیز بندوں کے اعمال سے کہ جو آسمان کی طرف عروج کرتے ہیں ، ان فرشتوں سے کہ جو اپنی رسالت کی ادائیگی کے بعد آسمانوں کی طرف لوٹتے ہیں ، ان شیاطین سے کہ جو ( استراق سمع ) باتیں چرانے کے لیے آسمانوں کی طرف جاتے ہیں ، او نچے او نچے درختوں کی شاخوں سے جو آسمان کی طرف سراٹھا ئے بڑھی چلی جا رہی ہیں ، اُن بخارات سے کہ جو سمندروں سے اٹھتے ہیں اور آسمان کی بلند ی پر جاکر بادل بتا تے ہیں ، اُس آہ و فریاد سے کہ جو کسی مظلوم کے دل سے اٹھتی ہے اور آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے ، وہاں ! وہ ان تمام چیزوں سے آگا ہ ہے ۔
کیااس کے سوا اور بھی کوئی ان امور سے آگاہ ہے ؟ کیسا نوع بشرکے تمام دانشمنداور علماء کا علم ان معلومات کے کسی ایک گوشہ پر احاطہ رکھتا ہے ؟ 
آخر میں مزید کہتاہے کہ : ” وہ رحیم ہے اورغفور ، مہر بان اور بخشنے والا ، ( و ھو الرحیم وغفور ) ۔
اس مقام پر خدا کی ان دوصفا ت کے ساتھ توصیف ، یاتو اس بنا ٴ پر ہے کہ ‘ ان امور مین سے کہ جو آسمان کی طرف اوپر چڑھتے ہیں ، وہ بندوں کے اعمال اوران کی ارواح ہیں ، تو وہی ان کے اوپر اپنی رحمت و مغفر ت کا سا یہ ڈالنے والا ہے ۔
یااس بنا پر ہے ، کہ آسمانی برکات ومواہب کانزول اس کی رحمت کانتیجہ ہوتا اوروہ اعمال ِ صالح کہ جو بندوں کی طرف سے ” والعمل الصالح یرفعہ “ کے مطابق او پر جاتے ہیں ، ا س کی مغفرت کو پالیتے ہیں ۔
یایہ کہ وہ لوگ کہ جو ان نعمتوں کاشکر ادا کرتے ہیں ، تو رحمت ان کے شامل ِ حال ہوتی ہے ، اوروہ لوگ کہ جو قصور وار اور گنہگار ہیں ، اگر حد سے نہ بڑ ھ جائیں تو مغفرت ان کے شامل ِ حال ہوتی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ او پر والی آیت اپنے تمام پہلو ؤں کے لحاظ سے ایک وسیع و عریض معنی رکھتی ہے اور اس کو ایک ہی جہت میں محدود نہیں کرنا چاہئیے ۔