چند اہم نکات
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ۷۲لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۷۳
بیشک ہم نے امانت کو آسمانً زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کو اٹھالیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے. تاکہ خدا منافق مرد اور منافق عورت اور مشرک مرد اور مشرک عورت سب پر عذاب نازل کرے اور صاحبِ ایمان مرد اور صاحبِ ایمان عورتوں کی توبہ قبول کرے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے.
چند اہم نکات
1- اہل نفاق کو مشرکین پرمقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ منافق اپنے آپ کو "امین" ظاہر کرتا ہے ۔ حالانکہ وہ خائن ہوتا ہے۔
لیکن مشرک کی خیانت واضح ہے۔ اس لیے منافق عذاب کا زیادہ مستحق ہوتا ہے۔
2- ان دونوں گروہوں کو مومنین پر مقدم کرنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ گذشتہ آیت کا آخری حصہ "ظلوم اور جہول" پر ختم ہوتا ہے اور"ظلوم و جہول" منافق اور مشرک کے ساتھ مناسب ہے. منافق "ظالم" اور مشرک "جاہل" ہے۔
3- لفظ " اللہ" منافقین او مشرکین دونوں کے عذاب کے بارے میں ایک مرتبہ آیا ہے اور مومنین کی جزاء کے سلسلے میں بھی ایک مرتبہ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انجام کے لحاظ سے پہلے دونوں گروہ ایک جیسے ہیں اور مومنین کا معاملہ ان بالکل جدا ہے۔
4 مومنین کے بارے میں "جزا" کے بجائے "توبہ" کا لفظ آیا ہے۔ اس کی زیادہ تر وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ انھیں زیاده ترخوف اپنی ان لغزشوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو کبھی کبھی ان سے سرزد ہوتی ہیں۔ لہذا خداوند تعالٰی انہیں اطمینان دلاتا ہے کہ ان کی لغزشوں کو معاف کردیا جائے گا۔
یااس بناء پر ہے کہ خدا کا بندوں کی توبہ قبول کرنے کا مقصد اس کی رحمت کی طرف بازگشت ہوتا ہے اور معلوم ہے کہ لفظ "رحمت" میں ہر قسم کی جزاء اوربخشش چھپی ہوئی بے۔
5- پروردگار کی "غفور و رحیم" کے ساتھ توصیف یا تو اس لیے ہے کہ یہ کلمہ "ظلوم" اور "جہول" کے مقابلے میں یا پھر مومن مردوں اور مومن عورتوں کے بارے میں توبہ کی مناسبت سے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب جبکہ ہم فضل پروردگار سے سورہ احزاب کے اختتام کو پہنچ گئے ہیں ، اس نکتے کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سوره کے آغاز وانجام کی ہم آہنگی نہایت ہی قابل غور ہے ۔ کیونکہ یہ سورہ (احزاب) پیغمبر کو خدا کا تقویٰ اختیار کرنے اور کفار منافقین کی اطاعت سے روکنے اور خداۓ علیم وحکیم کی ذات پر تکیہ کرنے سے شروع ہوئی ہے اور انسان کی زندگی کے عظیم ترین مسئلے یعنی امانت الٰہی کے اٹھالینے کے ذکر پر اور پھر انسانوں کو تین گروہوں (منافق ، کافر اور مومن) میں تقسیم کرنے اور خدائے غفور ورحیم کا ذکر کرنے پر ختم ہوتی ہے۔
ان دونوں مباحث کے درمیان ان تینوں گروہوں سے متعلق گفتگو ہوئی ہے کہ انہوں نے امانت الٰپی کے ساتھ کس طرح سلوک کیا ہے؟ جو سب ایک دوسرے تکمیل اور ایک دوسرے کو واضح کرتی ہیں۔
پروردگار ہمیں ایسے لوگوں میں سے قرار دے ، جنہوں نے تبری امانت کو خلوص دل کے ساتھ قبول کیا اور عشق کی حد تک
اس کی حفاظت کی اور اپنے فریضے سے عہدہ برآ ہوئے۔
خداوندا ! ہمیں ایسامومن بناء جس پر تیری رحمت اور مغفرت نازل ہوئی ہے۔ منافقین اور مشرکین سے قرار نہ دے کہ جو "ظلوم وجہول ہونے کے باعث عذاب کے مستحق ٹھہرے ہیں۔
خداوندا ! اس دور میں جبکہ "احزاب کفر" درباره "مدینہ اسلام" کا محاصرہ کرچکے ہیں۔ ان پر اپنے غیظ وغضب کا خوفناک طوفان نازل فرمااور ان کے قصور و محلات کو ان کے سروں پر گرا دے اور ہمیں ایسی طاقت و استقامت عطا فرما کہ ان حساس لمحات میں پہاڑ کی طرح ڈٹ جائیں اور اپنے جان و دل سے "مدینہ اسلام" کی پاسداری کریں۔ آمین یارب العالمین !
سورہ احزاب تمام شُد
تفسیرنموںہ کی سترھویں جلد کا اختتام بروز جمع 2ربیع الثانی 1404ھ کو ہوا۔