Tafseer e Namoona

Topic

											

									  نوع بشر کا بہت بڑا اعزاز

										
																									
								

Ayat No : 72-73

: الاحزاب

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ۷۲لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۷۳

Translation

بیشک ہم نے امانت کو آسمانً زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کو اٹھالیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے. تاکہ خدا منافق مرد اور منافق عورت اور مشرک مرد اور مشرک عورت سب پر عذاب نازل کرے اور صاحبِ ایمان مرد اور صاحبِ ایمان عورتوں کی توبہ قبول کرے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے.

Tafseer

									  تفسیر
          نوع بشر کا بہت بڑا اعزاز: 
 سورہ احزاب کی یہ دونوں آخری آیات ان اہم مسائل کی تکمیل کرتی ہیں جواس سورہ میں ایمان ، عمل صالح ، جہاد ، ایثار ، عفت و پاک دامنی ، ادب اور اخلاق کے سلسلے میں آئے ہیں اور یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ انسان کس قدرممتاز حیثیت کا مالک ہے کہ خدا کی عظیم ذمہ داری کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتاہے اور اگر اپنے وجود کی قدروقیمت کو نہ پہچانے اور اس سے جاہل ہوجاۓ تو کس طرح اپنے اوپر ظلم کربیٹھتا ہے اور اسفل السافلین میں جاگرتا ہے 
 پہلے تو انسان کے تمام عالم خلقت میں اہم ترین اور عظیم ترین اعزاز کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ۔ "ہم نے اپنی امانت آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی": (اناعرضنا الامانة على السماوات والارض والجبال )۔
 لیکن عالم خلقت کے ان عظیم اور بڑے موجودات نے اس امانت کے بوجھ کو اٹھانے سے انکارکردیا اوراپنی ناتوانی کا اظہار کیا اور اس کام سے ڈرتے تھے: (فابین ان يحملنها واشفقن منها)- 
 واضح ہے کہ ان کا انکار تکبر کی وجہ سے نہیں تھا، جیسا کہ شیطان اور آدم کو سجدہ کرنے سے اس کی روگردانی کرنے کے سلسلے میں بیان ہوا ہے:
  ابٰی واستكبر   (بقرہ / 34) 
 بلکہ ان کا انکار "اشفاق" یعنی ایسے خوف و ہراس کے ساتھ تھا ، جس میں توجہ بھی تھی اور خضوع وخشوع بھی ۔ لیکن اسی اثنا میں انسان جو عالم آفرنیش کا عجوبہ ہے، آگے بڑھا اور اس نے اس کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا: (وحملها الانسان)۔ 
 لیکن افسوس کہ "اسی ابتداء ہی میں اس نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اپنی قدرومنزلت کو نہ پہچانا اور جو کچھ اس امانت کے اٹھانے کے لائق تھا ، اسے انجام نہیں دیا"۔ انہ كان ظلومًا جهولا)۔ 
 عظیم مفسرین نے اس آیت کے سلسلے میں بہت کچھ گفتگو کی ہے اور "امانت" کے معنی کی حقیقت معلوم کرنے اور بیان کرنے میں بہت زیادہ کوشش کی ہے اور مختلف نظریات کا اظہار کیا ہے ، جن میں سے ہم بہترین نظریہ کو ان قرائن کی جستجو سے منتخب کرتے ہیں ، جو خود آیت میں چھپے ہوئے ہیں۔ 
 بنیادی طور پر معانی اور مفہوم سے لبریز اس آیت میں سے پانچ نکات زیادہ قابل غور ہیں۔ 

 1- "امانت الٰہی" سے کیا مراد ہے؟ 
 2- اسے آسمان و زمین اور پہاڑوں کو پیش کرنے کا کیا مقصد ہے؟ 
 3- کیوں اور کس طرح ان موجودات نے اس امانت کے اٹھانے سے انکارکردیا؟ 
 4- کس طرح انسان اس امانت کے بوجھ کا حامل ہوا ؟ 
 5- کیوں اور کس طرح وہ "ظلوم" اور "جہول" ٹهہرا؟ 
 "امانت" کے متعلق مختلف تفاسیر ذکر ہوئی ہیں ، جن میں سے یہ بھی ہے کہ : اس سے مراد اروے کی آزادی اور اختیار ہے جو انسان کو باقی موجودات سے ممتاز اور نمایاں کرتی ہے یا مراد عقل ہے جس پرثواب و عذاب کا دار و مدار ہوتاہے "امانت سے مراد" صفت عبودیت کا کمال جو معرفت اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے یا اس سے مراد "انسانی جسم کے اعضاء و جوارح" ہیں ، مثلاً آنکھ خدا کی امانت ہے ، جسے محفوظ رکھنا چاہیئے اور اسے گناہ کی راہ میں صرف نہیں کرنا چاہیئے۔ کان ، ہاتھ ، پاؤں اور زبان میں سے ہر ایک خدا کی امانت ہے ، جن کی حفاظت کرنا ہر انسان پر واجب و لازم ہے۔ 
 یا مراد "وہ امانتیں"ٓ ہیں جو انسان ایک دوسرے سے لیتے ہیں۔ اور "عہد و پیمان کو پورا کرنا" بھی مراد ہوسکتاہے۔ 
 یامرد "اللہ کی معرفت" ہے۔ 
 یا مرد " خدائی واجبات اور فرائض الٰہی ہیں مثلا نماز ، روزہ اور حج وغیرہ۔ 
 لیکن اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان تفاسیرکا آپس میں کوئی تضاد نہیں ، بلکہ بعض کو ایک دوسرے میں مدغم کیا جاسکتا ہے ، بعض لوگوں نے اصل مطلب کے کچھ حصوں کو اور بعض نے تمام گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ 
 ایک جامع جواب کے حصول کے لیے ہمیں انسان پر ایک نظر ڈالنا چاہیے کہ اس کے پاس کونسی ایسی چیزہے ،جو نہ توآسمان اور زمین میں ہے اور نہ ہی پہاڑوں کے پاس؟ 
  انسان ایک ایسی مخلوق ہے ، جس میں انتهائی زیادہ استعداد موجود ہے اور وہ اس استعدادسے استفادہ کرنے ہوۓ "خلیفۃ اللہ" کا مصداق اتم بن سکتا ہے اورکسب معرفت ، تہذیب نفس اور کمالات کے ذریعے عزت و افتخار اور اعزازات کی بلندیوں کو چھوسکتا ہے اور فرشتوں سے بھی آگے نکل سکتا ہے۔
 یہ استعداد اراده و اختیار کی آزادی کے ساتھ ساتھ ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا راستہ ہے جسے اس نے صفر سے شروع کیا ہے اور لامتناہی منزلِ مقصود کی طرف بڑھتا جارہا ہے اور اپنے ہی ارادے اور اختیار سے اسے طے کرتا جارہا ہے ۔ 
 آسمان وزمین اور پہاڑ بھی ایک طرح کی معرفت الٰہی کے حامل ہیں ، وہ خدا کا ذکر اورتسبیح بھی کرتے ہیں اور اس کی عظمت کے سامنے گڑگڑانے والے اور سجدہ گزار بھی ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ ذاتی اور تکوینی اور جبری شکل میں ہے۔ اسی بناء پر ان کے وجود میں تکامل اور ارتقاء نہیں ہے۔ 
 صرف ایک موجود ایساہے، جس کی نزولی اور صعودی قوس لامتناہی ہے اور غیر محدود طور پر ارتقائی بلندیوں تک پرواز کرسکتا ہے اور ان تمام کاموں کو اپنے اراده و اختیار سے انجام دیتاہے اور وہ "انسان" ہے۔ یعنی یہ ہے وه خدائی امانت اٹھانے والا جس کے اٹھانے سے تمام موجودات نے انکار کر دیا۔ یوں اکیلے اس نے میدان میں اتر کر اسے اپنے کندھے پر رکھ لیا۔ 
 اسی لیے ہم بعد والی آیت میں دیکھتے ہیں کہ انسان کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، مومن ، کافراور منافق ۔ اسی بناء پر ایک مختضر سے جملے میں کہا جاسکتا ہے کہ امانت الٰہی وہی غیر محدود صورت میں ارتقائی قابلیت ہے، جس میں اراده اورا اختیارکی آمیزش ہوتی ہے ، جس سے وہ انسانیت کے کمال اور خدا کی خاص بندگی کے مقام تک پہنچ کر ولایت الٰہیہ کو قبول کرتا ہے۔ 
 لیکن یہ صرف اس امرکو "امانت" سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے ، جبکہ ہماری ساری زندگی اور ہمارا سب کچھ خدا کی امانت ہے ۔ 
 در حقیقت یہ چیز انسان کے اس اہم اور عظیم امتیاز کی بنا پر ہے ، وگرنہ خدا کی باقی نعمتیں بھی اسی کی امانت ہیں ،لیکن اس کے  مقابلے میں ان کی بہت ہی کم اہمیت ہے ۔
 یہاں پر امانت الٰہی کا ایک اور مفہوم لیاجاسکتا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ "امانت الٰہی" سے مراد "عہدہ اور ذمہ داری" کو قبول کرنا ہے۔ 
 اسی لیے جن لوگوں نے امانت کو اراده و اختیار کی آزادی کی صفت سمجھاہے ، انھوں نے اس عظیم امانت کے صرف ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اسی طرح جن لوگوں نے اس کی تفسیر "عقل" یا "اعضاء بدن" یا " لوگوں کی آپس کی باتیں" یا "فرائض و واجبات" یا " تمام شرعی احکام کی ادائیگی بیان کی ہے ، ان میں سے ہرایک نے ایک عظیم پھل دار درخت کی صرف ایک شاخ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے اور اس کا ثمر حاصل کیاہے ۔ 
 یا امانت کے پیش کرنے سے مراد اشیاء کا باہمی موازہ کرنا ہے ، یعنی جب اس امانت کا ان کی استعداد سے موازنہ کیا تو انھوں نے زبان حال کے ساتھ اس عظیم امانت کو قبول کرنے سے اپنی عدم اہلیت کا اعلان کیا۔ 
 دوسرا معنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے اور اس طرح سے آسمانوں ، زمینوں اور پہاڑوں نے زبان حال سے پکار کر کہا کہ "اس امانت کا بوجھ اٹھانا ھمارے بس کی بات نہیں ۔ 
 یہاں سے تیسرے سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا کہ کسی طرح ان موجودات نے اس عظیم امانت کے اٹھانے سے انکار کیااور بڑے ادب کے ساتھ اپنا خوف و ہراس ظاہر کر دیا۔ 
 یہیں سے ان کی اس امانت الٰہی کے اٹھانے کی کیفیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ 
 کیونکہ انسان اس طرح سے پیدا کیا گیا بے جرایفائے وعدہ اور ذمہ داری کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے ،  خدا کی ولایت کو قبول کرسکتا ہے ، عبودیت اور کمال کے جادو پر گامزن ہوسکتا ہے اور اس راہ کو پروردگار کی مدد سے اپنے ہی پاؤں کے ساتھ طے کرسکتاہے۔ 
 باقی رہی یہ بات کہ اہل بیت اطہارعلیہم اسلام کے ذریعے پہنچنے والی متعدد اور روایات بتاتی ہیں کہ اس امانت الٰہی سے مراد" امیرالمومنین علیؑ اور ان کی اولاد  امجاد علیہم اسلام کی ولایت" ہے ۔ تواس کا مقصد یہ ہے کہ انبیاء کرامؑ اور ائمہ اطہار کی ولایت درحقیقت اس ولایت مطلق الٰہیہ کی ایک طاقتور شعاع ہے اوراولیاء خدا کی ولایت کو قبول کیے بغیر عبودیت تک رسائی اور ارتقاء کی جادہ پیمانئی قطعًا ناممکن ہے۔ 
 امام علی بن موسی رضاعلیہ اسلام سے جب کسی نے "عرض امانت " والی آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا: 
  "الامانة الولاية و ادعاها بغیرحق كفر"۔ 
  "امانت وہی ولایت ہی تو ہے ، جس کا ناحق دعوٰی کرنے والا مسلمانوں کے زمرے سے خارج ہوجاتا ہے. ؎1 
 ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ اسلام سے جب اس آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: 
  "الامانة الولاية ، والانسان  ھوابوالشرور المنافق"۔ 
  "امانت وہی ولایت ہے اورانسانوں جس کی ظلوم و جہول سے توصیف کی گئی ہے ، بہت سے گناہوں کا مرکتب اور منافق ہے۔ ؎2
 ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں پر اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ، یہ ہے کہ ہم سورة اعراف  کی آیت 172 کے  ذیل میں عالم ذر کے بارے میں بتاچکے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب خدا نے انسان سے عالم ذر میں توحید کا اقرار لیا تھا وہ انسان کی فطرت ، استعداد اور سرشت کے ذریعے تھا۔ درحقیقت عالم ذر ، عالم استعداد و فطرت کا دوسرا 
نام ہے۔
 اسی طرح خدائی امانت کے قبول کرنے کے بارے میں بھی یہی کہنا ہوگا کہ یہ قبولیت کسی مقررہ قاعدہ کلیہ کے تحت یا محض تکلف کی بناء پر نہیں تھی ، بلکہ عالم استعداد کے مطابق ایک تکوینی قبولیت ہے۔ 
 اب صرف ایک سوال باقی رہ جاتا اور وہ ہے انسان کے "ظلوم وجہول" ہونے کا مسئلہ۔ 
 کیا انسان کی توصیف ان دوالفاظ کے ساتھ جوظاہر طور پر اس کی مذمت کررہے ہیں ، اس امانت کے قبول کرنے ان کی وجہ سے ہے؟ 
 یقینًا اس سوال کا جواب منفی ہے ، کیونکہ اس امانت کو قبول کرلینا انسان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے ۔ اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ اتنا بڑا اعزاز حاصل کرلینے کے بعد اس کی مذمت کی جائے؟ 
 یا تو یہ توصیف اس بناء پر ہے کہ انسان نسیان کا شکار ہوتا ہے اور اپنی ذات پر ظلم کرتا رہتا ہے اور آدمیت کی قدر و منزلت سے ناآشنا ہے ، جس کام کی ابتدا ہی سے نسل آدم میں "قابیل" کے ذریعے بنیاد پڑچکی تھی اور قابیل کے نقش قدم پر چلنے والوں نے اسے آگے بڑھایا اور اب تک اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1       تفسیر برھان جلد 3 ص 341 زیر بحث آیت کے ذیل میں۔
  ؎2       تفسیر برھان جلد 3 ص 341 زیر بحث آیت کے ذیل میں۔  
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 وہ انسان جسے عرش کی بلندیوں سے صدا آتی رہتی ہو ، وہ بنی آدم جس کے سر پر "كرمنا" کا تاج سجایا گیا ہو ، وہ انسان جو" إنی جاعلً في الارض خلیفة" کے مصداق زمین میں خدا کا نماینده ہو ، وہ بشر جومعلم اور سجود ملائکہ ہو وہ :ظلوم و جہول" نہیں تو اور کیا ہوگا کہ جو اپنی ان عظیم اقدار کو طاق نسیان میں رکھ کر خود کو اس عالم کا اسیر بنالے اور شیاطین کی صف میں شامل ہوکر اسفل السافلین کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگرے۔ 
 لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس انحرافي راستے پر چلنے والے لوگ عرصہ درازسے چلے آرہے ہیں. جوانسان کے "ظلوم وجہول" ہونے کی قوی دلیل ہے حتی کہ خود حضرت آدم علیہ اسلام جو بسلسلہ آدمیت کی پہلی کڑی اورطہارت و عصمت کے مقام پر فائز تھے ، اپنے اور ظلم کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں ۔ بارگاه خدا میں عرض کرتے ہیں؟ 
  "ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين "۔
    (سوره اعراف  / 23) 
 درحقیقت اس عظیم امانت کی عظمت کے ایک گوشے کو فراموش کرنے کی بدولت ہی ان سے ترک اولٰی سرزد ہواتھا 
 بہرحال اعتراف کرنا پڑے گا کہ انسان جو ظاہرًا چھوٹی اور کمزورسی مخلوق ہے ، لیکن تخلیق  عالم کا ایک ایسا عجوبہ ہے ، جس نے اس عظیم امانت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے ، جسے اٹھانے سے زمین و آسمان اور پہاڑ عاجز آ گئے تھے ۔ ہاں اس کے مقام یہ عظمت اسی صورت میں ہے کہ وہ اپنے اس مقام کو بھول نہ جائے۔ ؎ 1 
 بعد والی آیت حقیقت میں انسان کے سامنے اس امانت کو پیش کرنے کی علت ہے اور اس حقیقت کا بیان ہے کہ انسان اس عظیم خدائی امانت کا بار اٹھالینے کے بعد تین خصوں مین بٹ گئے ۔ منافق ، مشرک اور مومن۔ چنانچہ خدا فرماتابے۔ "مقصد یہ ہے کہ خدا منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو ان کے کیفرکردارتک پہنچائے نیر خدا صاحب ایمان مردوں اور با ایمان عورتوں پر رحمت نازل کرے ، خدا ہمیشہ سے غفور و رحیم ہے": (الیعذب الله المنافقين والمنافقات والمشركين والمشركات ویتوب الله على المؤمنين 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1      جو کچھ ہم نے آیت کی تفسیر میں کہا ہے ، اس سے واضح ہو جاتاہے کہ اس اس امر کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ یہ آٰیت میں کسی چیز کی مقدار مانیں ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے  اور انھوں نے آیت کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کرنے سے مراد ان میں رہنے والوں کے سامنے امانت پیش کرنا ہے، یعنی ملائکہ اور فرشتوں کے سامنے اسی بناء پر وہ کہتے ہیں کہ جن چیزوں سے امانت کو قبول کرنے سے انکار کیا انھوں نے اسے ادا کر دیا اور جنھوں نے سے قبول کیا انہوں نے خیانت کا ارتکاب کیا "یہ تفسیرنہ صرف تقدیر کی احیتاج کی بناء پرخلاف ظاہر ہے ، بلکہ اس لحاظ سے بھی قابل اعتراض ہے کہ فرشتے بھی ایک طرح کی تکلیف پرعمل پیرا ہیں اور ایک حصہ امانت کے حامل ہیں ، ان سب باتوں سے قطع نظر ، پہاڑ میں رہنے والوں کو فرشتوں سے تعبیر کرنا عجیب و غریب ہی ہے۔     (غور کیجیئے گا)۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
والمؤمنات وكان الله غفور رحیمًا"۔ 
 عربی قائدہ کے تحت "ليعذب"  کی  "لام " کونسی "لام" ہے ؟ اس سلسلے میں دوا احتمال ہیں ؛ 
 1-     ایک یہ کہ "لام غایت" ہے جو کسی چیز کے انجام کو بیان کرنے کے لیے ذکر ہوتی ہے۔ اس بناء پر آیت کا مفہوم یوں ہوگا:
 "اس امانت کو اٹھانے کا انجام یہ ہوا کہ ایک گروہ نے نفاق کی راہ اختیار کی اور ایک گروہ نے شرک کی ، اور اس خدائی امانت میں خیانت کرنے کی وجہ سے اس کے عذاب میں گرفتار ہوئے اوراہل ایمان کا ایک گروہ اس امانت کو ادا کرنے اور اپنے فرائض پر قائم رہنے کی بناء پررحمت الٰہی کامستحق قرار پایا"۔  
 2-     دوسرا یہ کہ ":لام علت" ھے اوراس میں ایک جملہ مقدر ہے ، اس بناء پر آیت کی تفسیر یوں ہو گی: 
 "امانت کو پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تمام انسان آزمائش کی کٹھالی میں قرار پائیں اور ہر شخص اپنے اپنے باطنی حالات کو ظاہر کرکے اپنے استحقاق کے مطابق جزا اور سزا پاسکے" ۔