5- خدا کی اٹل سنتیں
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۵۹لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ۶۰مَلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ۶۱سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۶۲
اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں, بیٹیوں, اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں کہ یہ طریقہ ان کی شناخت یا شرافت سے قریب تر ہے اور اس طرح ان کو اذیت نہ دی جائے گی اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. پھر اگر منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میںافواہ پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ ہی کو ان پر مسلّط کردیں گے اور پھر یہ آپ کے ہمسایہ میں صرف چند ہی دن رہ پائیں گے. یہ لعنت کے مارے ہوئے ہوں گے کہ جہاں مل جائیں گرفتار کرلئے جائیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں. یہ خدائی سّنت ان لوگوں کے بارے میں رہ چکی ہے جو گزر چکے ہیں اور خدائی سّنت میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے.
5- خدا کی اٹل سنتیں:
ان آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ قرآن نے خدا کی تبدیل نہ ہونے والی سنتوں میں سے ایک سنت یہ بتائی ہے کہ سازشیں کرنے والوں کی بیخ کنی کے لیے ایک عمومی حملے کا حکم دیا
ہے اور یہ چیز گذشتہ امتوں میں بھی تھی ۔ اس جیسی تعبیر قرآن مجید کے ایک اور مقام پر بھی آئی ہے۔
منجملہ ان کے اس سورہ احزاب کی آیت 38 میں زمانۂ جاہلیت کی ایک غلط رسم کو توڑنے کی اجازت صادر کی گئی ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے عقد جائز ہے ، پھرفرمایا گیا ہے :
"پیغمبر کے لیے جرم اور گناہ نہیں ہے کہ وہ امرالٰہی کو نافذ کریں چاہے جو بھی ہو"۔
پھر مزید ارشاد ہوتاہے:
"سنة الله فی الذين خلوا من قبل وكان امرالله قدرًا مقدورا"۔
یہ پروردگار کی سنت ہے جو گذشتہ اقوام اور انبیائے ماسلف میں بھی تھی اور خدا کا فرمان ثابت اوراٹل معیار پرقائم ہے۔
سورہ فاطر کی آیت 43 میں کفار اور مجرم اقوام کو ہلاکت کی تنبیہ کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے:
"فهل ينظرون الأسنة الاولين فلن تجد لسنۃ الله تبديلًا ولن
تجد لسنة الله تحویلًا"۔
"کیا وہ اسی نجس انجام کا انتظار کرتے ہیں ، کہ جس نے پہلی اقوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، لیکن آپ
کبھی سنت الٰہی میں تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ ہی سنت الٰہی کے لیے کوئی تغیرہے "۔
سورہ مومن کی آیت 85 کے مطابق گذشتہ اقوام میں سے ہٹ دهرم کفارنے جب تباہ کن عذاب کامشاہدہ کیا تو اس موقع پر ایمان کا اظہار کیا ، لیکن ایسا ایمان ان کے لیے مفید ثابت نہ ہوسکا۔ ارشاد ہوتا ہے:
"سنة الله التي قد خلت فی عباده وخسرهنالك الكافرون"۔
یہ خدائی سنت ہے جو گذشتہ زمانے میں بھی اس کے بندوں میں جاری ہوچکی ہے اوروہاں کفار نقصان اور خسارے میں گرفتارہوئے"۔
نیز سوره فتح کی آیت 23 میں مومنین کی کامیابی - کفار کی شکست اور جنگوں میں ان کے لیے یارو مددگار نہ ہونے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے :
"سنة الله التي قد خلت من قبل ولن تجد لسنۃ الله تبدیلًا"۔
" یہ پروردگار کی سنت ہے جو گذشتہ زمانے میں بھی تھی اور خدا کی سنت ہرگز تبدیل نہیں ہوتی "۔
نیزسورہ بنی اسرائیل کی آیت 77 میں جہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جلاوطن کرنے یا ان کا کام تمام کرنے کی سازش کو بیان فرمایا گیا ہے،
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
"اگر وہ اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتے تو وہ بھی آپ کے بعد زیادہ دیر باقی نہ رہتے"۔
"سنة من قد ارسلنا قبلك من رسلنا ولا تجد لسنئنا
تحویلًا"۔
"یہ ان پیغمبروں کی سنت ہے ، جنھیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجاہے اور آپ ہماری سنت
میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھ پائیں گے"۔
ان آیات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسے مواقع پر "سنت" سے مراد خدا کے "تشریعی" یا " تکونی " ثابت اور اساسی قوانین ہیں ، جن کبھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں عام تکون و تشریح میں خداوند عالم کے کچھ اصول و قوانین ہیں ، ان میں کسی وقت بھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور یہ انسانوں کے ساختہ و پر واختہ قوانین کی طرح تبدیلی کا شکار نہیں ہوتے ۔ یہ قوانین اقوام گذشتہ پر بھی حکم فرما تھے اور آیندہ بھی نافذ رہیں گے۔
انبیاء کی مدد کرنا، کفارکو شکست دینا ، خدائی احکام پر ضروری عمل کرنا خواہ ماحول اسے ناپسند کرے ، عذاب الہی کے نازل ہونے کے وقت توبہ کا مفید نہ ہونا اور اس قسم کے دوسرے امور ان دائمی سنتوں کا حصہ ہیں۔
اس قسم کی تعبیریں ایک طرف توراہ حق کے تمام راہیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انھیں سکون کی نعمت عطا کرتی ہیں اور دوسری طرف انبیاء کے اتحاد اور نظام پر حاکم قوانین کے یکساں ہونے کو واضح کرتی ہیں جو درحقیقت دلائل میں توحید سے ہے۔